اپنی اور اللہ کی پسند۔۔۔محمد نعیم

وہ اپنے بھائی سے کسی بات پر ناراض ہو ا اور ان کی یہ ناراضی دنوں میں بدل گئی۔ بظاہر معمولی سی یہ بات ان دونوں کے دلوں میں ایک میل ڈال گئی اور وہ دن بدن بڑھتی گئی۔ ایک دن  اس کے ایک دوست کے ساتھ اس کی تلخ کلامی ہوئی جبکہ غلطی اس کے دوست کی ہی تھی۔اس کے باوجود اس نے اپنے دوست کو منایا اور اس سے اپنے رویے کی معافی مانگی۔

رات کو جب وہ اپنے بستر پہ لیٹا تو دن کے سارے واقعات اس کے دماغ میں چلنے لگے۔ دوست والا واقعہ یاد آیا تو اچانک اس کے ذہن میں ایک بات آئی کہ دوست کی غلطی کے باوجود اس نے اپنے دوست سے معافی مانگی جبکہ وہ کوئی اس کا گہرا دوست بھی نہ تھا۔ جبکہ اس کا اپنا سگا بھائی اس سے کئی دنوں سے ناراض ہے اور اس نے اسے راضی کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے ذہن میں ایک اور بات آئی کہ  ماں، باپ، بھائی  بہن یا کوئی عزیز رشتہ دار تو اللہ کی طرف سے آتے ہیں۔ ہم کسی کو اپنا خونی رشتہ دار اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتے، نہ کوئی ماں اپنی مرضی سے اپنا بیٹا یا بیٹی منتخب کر سکتی ہے اور نہ کوئی بھائی اپنے لیے بھائی یا بہن کا انتخاب کرسکتا ہے۔ یہ سب فیصلے اللہ کی پسند سے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم اپنی زندگی میں اپنے دوست ان کو ہی  منتخب کرتے ہیں جن کے خیالات ہمارے ساتھ ملتے ہوں۔ اس معاملے میں ہم اپنی پسند نا پسند کا پورا خیال کرتے ہیں۔ اور اگر ہمارا وہ دوست ہم سے ناراض ہوجائے تو اپنی انا کو مار کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یعنی اپنی پسند کو اللہ کی پسند پر ترجیح دیتے ہیں۔ کیا اللہ کی پسند ہمارے لیے اپنی پسند کے مقابلے میں کم تر ہے؟  ہم غیر ارادی طور پر اللہ کی پسند کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کو راضی کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہ لگایا جائے۔  جیسے اپنے دوستوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز  کرتے ہیں بالکل ایسے ہی اپنے گھر والوں کی باتوں کا بھی بُرا نہیں منانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی حال ہمارا دنیا کے باقی معاملات میں بھی نظر آتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے روزمرّہ کے اعمال کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہم ہر معاملے میں اپنی مرضی اور پسند کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply