گلشن میں بندوبست بہ رنگِ دگر ہے آج/شائستہ مبین

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے قدرت نے دلفریب موسموں سے نوازا ہے ، موسم سرما کے جاڑے ، گرمی کی چلچلاتی دوپہریں، پت جھڑ کا طلسماتی فسوں اور بہار کی سترنگیاں۔ یہ تمام نعمتیں اس مملکت خداداد کو تحفے میں ملی ہیں۔ سردیوں کی طویل اداس خاموشی کے بعد بہار کا خوبصورت اور دلکش موسم فضا کو بے شمار پھولوں کی خوشبو اور رنگوں سے معطر کر دیتا ہے، جو آنکھوں کو سکون اور تروتازگی کا فرحت بخش احساس دلا تا ہے۔ فروری کے اختتام اور مارچ کے اوائل میں جب اس رنگین موسم کا آغاز ہوتا ہے تو گویا شہر نگاراں کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا ہے۔ بڑی بڑی شاہراہوں کے گرد کھلے پھولوں کے تختے،دھوئیں اور ٹریفک کے اژدہام میں بھی ذہن و دل کو تروتازگی دیتے ہیں۔ یہ موسم اپنے ساتھ رنگوں کی بارات لے کر آتا ہے، جس کی خوبصورتی سے ہر انسان اپنے اپنے انداز میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہمارے قدیم تہواروں میں سے جشن ِ بہاراں ، بسنت بہار اور میلہ چراغاں کا تہوار بھی بہار کے موسم سے منسوب ہیں۔

بسنت بہار اور جشن ِبہاراں کی تاریخ بہت وسیع ہے لیکن پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسکا مطلب بہار کی آمد کا موسم ہے لہذا بسنت کا نام لیتے ہی ذہن میں بہار کے موسم کا خیال آتا ہے۔ جشن بہاراں یا بسنت بہار صدیوں سے پنجاب کا سب سے بڑا موسمی تہوار رہا ہے، ہر جگہ بہار کے رنگ برنگے میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ فضا میں بکھرے رنگوں کی مناسبت سے موسم بہار میں خواتین ملبوسات کے لئے زیادہ تر انہی شوخ رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔”موسم بہار“ جہاں باغوں کو رونق بخشتا ہے وہیں یہ رویوں اور مزاجوں میں بھی قدرتی طور پر ایک خوشگوار تبدیلی لاتا ہے، کیونکہ بہار کے موسم میں نکھری ہوئی ہریالی اور رنگا رنگ پھولوں کی خوشبو سے معطر فضا ہرذی روح میں خوشی کا احساس اُجاگر کرتی ہے۔ بعض طبیبوں کے نزدیک بہار کے موسم میں جسم میں نیا خون بھی پیدا ہوتا ہے۔ موسم بہار میں شاعر وادیب،قلم کار، مصور، گلوکار، صدا کار، فوٹو گرافر غرض کہ ہر فنکار پر تخلیق کی بہار کا رنگ نظر آتا ہے۔اس موسم میں آپ کے اندر کا موسم بھی بہت اچھا ہوجاتا ہے۔

چونکہ پچھلے کچھ عرصے سے دنیا بھر سمیت پاکستان بھی کورونا وائرس جیسی آفت سے نبردآزما تھا، جس نے ہر چیز پر جمود طاری کر رکھا تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات سے لیکر میلوں اور تہواروں پربھی پابندیاں عائد کی گئیں ۔ ان پابندیوں نے ہم سب کو ایک ذہنی کوفت اور کشمکش میں مبتلارکھا، بے وجہ اداسی، پریشانی ، اضطراب ، بے سکونی اور قید کااحساس ہوتا رہا ، لوگ کئی  مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے۔ اب جب پاکستان سمیت دنیا میں بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں واضح کمی ہوئی  تو پابندیوں میں بھی کمی آئی  ہے۔ کورونا وائرس کی وبا ٹل تو گئی  ہے لیکن پاکستان کا سیاسی ماحول اور معاشی مسائل اس قدر گنجلک ہے کہ عام آدمی کیلئے خوش ہونا ایک لگژری بنتی جا رہی ہے۔ پے در پے مہنگائی   کے طوفان اور مختلف سماجی مسائل نے لوگوں کے ذہنوں کو بنیادی ضروریات پورا کرنے میں گھن چکر بنا رکھا ہے۔ ڈپریشن ، غصے ، تشویش اور لڑائی جھگڑے جیسے نفسیاتی مسائل میں دن بدن اصافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری نئی  نسل کیلئے آؤٹ ڈور اور صحت مند سر گرمیاں ناپید ہو رہی ہیں۔

انہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس موسم بہار میں مری کی مقامی  یونیورسٹی نے ایک جشن بہاراں کا انعقاد کیا ہے۔ یوں تو بہار پورے پاکستان میں اسوقت اپنے جوبن پر ہے اور تمام شہر رنگا رنگ تقریبات منعقد کررہے ہیں لیکن مری جیسے پُر فضا مقام پر بہار کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے۔ پہاڑوں کی اوٹ میں پھول کے رنگ وادی کو حسین قوس قزا ع میں تبدیل کر دیتے ہیں۔   یونیورسٹی نے اس میلے کا اہتمام کر کے مری سے ملحقہ دیہاتوں میں رہنے والے باسیوں کو بھی یہ شاندار موقع فراہم کیا ہے۔کیونکہ اس مہنگائی کے عالم میں یہ لوگ لاہور، ملتان ، فیصل آباد جیسے بڑے شہروں کے میلوں سے لطف اندوز نہیں ہو پاتے۔ اس کے علاؤہ ملک بھر کے سیاحوں کیلئے ایک سنہری موقع ہے کہ وادی کوہسار کے نظاروں کے ساتھ جشن بہاراں بھی اپنے مری کے باسیوں کے ساتھ منائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے اس جشن کو منائیں ، چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں اور دنیا کو بتائیں کہ پاکستانی دہشت گرد اور ناکام نہیں بلکہ ایک زندہ دل قوم ہیں جو اپنے تہوار جوش وخروش سے مناتے ہیں۔

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply