میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(8)-گوہر تاج

میرٹھ چھاؤنی میں قیدی

پانچ دن کے سفر کے بعد تھکے ماندے بالآخر ہم میرٹھ کنٹونمنٹ کی بیر کس میں پہنچے۔ ہم سب کی سوچوں کے مطابق یہ جگہ عارضی قیام گاہ تھی۔ چاروں جانب سے آہنی تاروں سے گِھرا یہ کیمپ جس میں فوجی بیر کس تھیں وہ ہماری قیام گاہ بننےوالی تھی۔

میرٹھ انڈیا کا مشہور شہر ہے۔ دو دریاؤں گنگا اور جمنا کے بیچ مغربی اُتر پردیش میں واقع اس شہر کو اپنی زرخیزی کی وجہ سے سماجی اور ثقافتی مرکزیت حاصل ہے۔۱۸۰۳ء میں میرٹھ کنٹونمنٹ ( فوجی مرکز) کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے قائم کیاتھا۔ یہ علاقہ رقبہ کے لحاظ سے انڈیا کا سب سے بڑا کنٹونمنٹ ہے جو ۳۵.۶۵ کلو میٹرمربع پہ واقع ہے۔ اور میرٹھ ہی وہ شہر ہے کہ جہاں سب سے پہلے ۱۸۵۷ء میں برطانوی راج کے خلاف ہندوستان میں فوجی اور قومی بغاوت کی آگ کے شعلے بھڑکے کہ جس نےجلد ہی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

کیمپ میں ہمارے لیے مختص لمبی سی بیرک میں تین بڑے بڑے ہال تھے ۔ ایک ہال کو دودیواروں کی مدد سے تین کمروں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ہر ہال میں چونتیس بالغ مردتھے۔ اس طرح گویا کُل  ۱۰۲ افراد ایک ہال میں رہتے تھے۔ ماسوا وہ ہال جہاں میں ابّی  کےساتھ رہنے والا بارہ تیرہ سال کا نابالغ لڑکا تھا۔ ابّی کی ذہنی حالت کی وجہ سے میں نےاپنے آپ کو رضاکارانہ طور پہ ابّی کے ساتھ رکھنے  کا انتخاب کیاتھا۔اس طرح اب ہمارےہال میں میری وجہ سے ۳۵ لوگ تھے۔

ہمارے سامان میں بستر بند تھا جس میں تکیہ اور گدا شامل تھا جو زمین پہ بچھایا جاتا۔ زمین پہ چاک سے نشان بنے ہوۓ تھے جن کی لمبائی  ساڑھے پانچ اور چوڑائی ڈھائی  فٹ تھی۔ بستر آمنے سامنے لگ جاتے اور ہم سب نے یہی قبول کر لیا تھا کہ اب یہی اوڑھنااور یہی بچھونا ہے۔ہم سب تھکے ہارے اپنے اپنے بستر زمین پہ لگا کے لیٹ گئے تھے۔ کم و بیش ہر ایک کے ہی پاس بستر اور اوڑھنے کا سامان تھا لیکن انڈین فوج نے بھی سب کو ہرے رنگ کے کمبل دیے ۔ ویساہی رنگ جو انکی وردی کا  تھا۔

سب تھکے ماندے اور ذہنی طور پہ یہ سوچ کے پریشان بھی تھے کہ اب کیا ہوگا۔ یہاں تو قیدی والی زندگی ہے۔ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔؟

پہلی رات ہم سب ہی بہت تھکے ہوئے  تھے لہٰذا کسی کو سونے میں دیر نہ لگی ۔لیکن اتنے لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کے مسائل بعد میں نظر آنے لگے۔ مثلا ً کوئی  زور سے خراٹےلیتا تو کوئی  آہستگی سے۔ ہر آدمی کے خراٹے بھی الگ الگ انداز کے تھے۔ تقریباً سب ہی موجودہ صورتحال کے سبب ڈیپریشن اور انگزائٹی سے گزر رہے تھے۔جوالمیہ گزر گیاوہ آنکھوں اور ذہن سے اوجھل نہیں ہوتا لیکن آنے والے کل کے اندیشے بھی مسلسل ڈس رہے تھے۔ کوئی  خواب میں روتا اور درد سے کراہتا، اور کوئی  بے خواب راتوں میں اپنےپیاروں کا نام پکار کے بے اختیار سسکیاں بھرتا۔جانوں اور مال ومتاع کو کھونے والوں کے ساتھ ہم جیسے بھی تھے جن کے خاندان میں کسی کی جان تو نہیں گئی مگر اس زمین کو خیر آباد کہنا ہی بڑا المیہ ٹھہرا جو ان کے بچوں کی جاۓ پیدائش تھا۔ جس کی آغوش سے ان کی سنہری یادیں لپٹی ہوئی  تھیں۔ انکے بچوں نے اس خطہ کی زبان  میں سپنے بُنے۔مجھ جیسے کتنے ہی امار بنگلہ تمہار بنگلہ کہنے والے بچوں کے خواب نوچ لیے گئے تھے۔سیاسی نا عاقبت اندیشی، نا انصافی اور کوتاہ ذہنی کی قیمت کتنی بڑی ہوتی ہے۔ہمیں اچھی طرح سمجھ آگیا تھا۔

کیمپ میں اکثریت ان ملازمین کی تھی جو پاکستان کے مشرقی حصّے میں مغربی پاکستان سے سرکاری ملازمت کرنے آۓ تھے۔ اکثریت کی زبان پنجابی تھی۔ ہمارے کیمپ میں پاکستان ریلوے، ٹی این ٹی ، پاکستان ٹیلی ویژن کا عملہ مثلاً پروڈیوسرز، نیوزڈائریکٹر ، کسٹم اور پی آئی  اے کا عملہ شامل تھا۔ اس میں ہر قسم کے رُتبے  کے لوگ شامل تھے ۔ وہ جن کے حکم کے لوگ تابع ہوتے اور وہ بھی جو کسی کے فرمان کی تابع داری کرتے۔ ۔مگر اس کیمپ تلے ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز والا معاملہ تھا۔ سب ہی ایک کو ماننے پہ مجبور تھے اور وہ تھا ہندوستان کی فوج سے جاری ہونے والا حکم نامہ۔ کیونکہ اس چھت تلے ہم اِن کے قیدی تھے ۔اور قیدیوں کی کوئی  مرضی نہیں ہوتی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے سگریٹ کے نشہ کے حد تک عادی بہت سے بڑے عہدہ داروں کوہندوستانی سنتری کی سگریٹ کے اِن بچے ہوۓ ٹوٹوں پہ لپکتے دیکھا جو وہ پینے کےبعد پھینک دیتے تھے۔ اور اکثر تو سنتری سے درخواست کرتے کہ ذرا کم سگریٹ پی کےپھینکا کریں۔نشہ سگریٹ کا ہو، شراب منشیات یا کسی اور چیز کا ،ذہن کو اپنی قید میں ایسے ہی جکڑ   لیتا ہے۔ اور اسکے آگے ساری منطق ہیچ ہوجاتی ہے۔

ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگوں کو دو وقت کھانا ملے گا اور یہ کھانا کچن میں بنے گا۔واشروم دور الگ عارضی طور پہ بناۓ ہوۓ تھے۔ ویسے ہی جیسے اسپوٹس اسٹیڈیم وغیرہ میں آنے والے تماش بینوں  کے لیے بنا دیے جاتے ہیں۔پہلی شب سب کو صبح دس بجے اُٹھ کر تیار ہونے کا حکم مِلا لیکن صرف ایک دن کے لیے کیونکہ سب بہت دِنوں کے تھکے ہوۓتھے مگر اسکے بعد سے سب کو آٹھ بجے اُٹھ کر ناشتہ کے لیے تیار رہنا تھا۔

دوسرے دن ہم سب نے صبح اُٹھ کے منہ ہاتھ دھویا۔ پھر زوردار سیٹی بجی کیمپ میں جگہ جگہ لاؤڈاسپیکرلگے ہوۓ تھے اس میں سے سائرن کی آواز سنائی دی اور اعلان ہُوا، آپ سب دس بجے اپنے اپنے کمروں کے باہر لائن بنا لیں۔ صبح اور شام آپکی گنتی ہوگی۔۔اور یہ ہر روز کا معمول ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply