میرے ویلنٹائن بنو گے ؟- محمود اصغر چوہدری

”ول یو بی مائی ویلنٹائین “یہ جملہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ گلنار ہوگیا تھا ۔ اس کے دودھیا گالوں پر سرخ گلابوں کے رنگ اُبھرآئے تھے ،اس کی آواز کی کپکپاہٹ اس کے لبوں پر رقص بن کر تھرک گئی تھی۔لیکن اچانک اس کی نظریں کٹی پتنگ کی طرح جھک گئی تھیں۔اور اس کی جھیل آنکھوں میں شرم و حیا کی لہریں آگئی تھیں ۔ جو اس بات کی غماز تھیں کہ اس کا اظہار بے باک سہی مگر اس کا کرداربے داغ تھا۔وہ اس لئے بھی کہ اسے یہ جملہ کہنے میں پورے تین مہینے لگے تھے ۔ وہ اس سُپر مارکیٹ میں سیلز گرل تھی جہاں میں شاپنگ کرنے جاتا تھا ۔ وہ ہربار میرے ساتھ انتہائی توجہ ،انہماک اوراخلاق سے پیش آتی تھی لیکن میں یہ سب اس کے پروفیشن کا حصّہ سمجھتا رہا۔ مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اسکی توجہ  کے پیچھے جذبات کا کوئی سیلاب موجزن تھا ۔ کیونکہ اتنا عرصہ ہم کبھی ہمکلام ہوئے ہی نہیں تھے ۔ آج اچانک اس کا یہ جملہ سن کر میں سٹپٹا گیا تھا ۔

وہ خوبصورتی کی ہر تعریف پر پوری اُترتی تھی ۔ کیونکہ ہمارے محلے کی ماسی داراں جب کسی بہت ہی خوبصورت عورت یا مرد کی مثال دینا چاہتی تھی تو کہتی ”پتر وہ اتنی خوبصورت ہے جیسے کوئی پٹھان ہو“ماسی مجھے بھی کہتی تھی ویسے پُتر تم آنکھوں سے مار کھا گئے ہواگر تمہاری آنکھیں بھی تمہارے والد صاحب کی طرح نیلی ہوتیں تو لوگ تمہیں بھی پٹھان ہی سمجھتے ۔ کالج کے زمانے میں میری سفید رنگت کی وجہ سے مجھے عجیب وغریب القابات ملنا شروع ہوگئے ۔ مثلاً شروع میں شہر کے لڑکے مجھے شاہ جی کہنا شروع ہوگئے۔ دراصل میں جس روڈ سے بس میں آتا تھا اس راستے میں سادات کے دو گاؤں آتے تھے ۔ میری رنگت کی وجہ سے لڑکے مجھے بھی سید سمجھنا شروع ہوگئے ۔ہمیں بچپن سے سادات کا احترام کرنا سکھایا گیا تھا ۔ اس لئے اس ٹائٹل پر انہیں سختی سے روکا پھر کچھ لڑکے مجھے بٹ صاحب کہنا شروع ہوگئے ۔ اسی طرح جب میں لاہور پہنچا تو یونیورسٹی میں مجھے ماسی داراں کی بات یاد آئی کیونکہ وہاں لڑکے یہ سمجھنا شروع ہوگئے کہ میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے ۔ ایک مسجد میں تبلیغی جماعت کا گروہ آیا ہوا تھا ۔انہوں نے مجھے دیکھا تو پشتو میں تبلیغ شروع کر دی ۔ انہیں بھی بتانا پڑا کہ میں پنجابی ہوں۔

اس سپر مارکیٹ میں جب میں پہلے دن گیا تو یہ سیلز گرل فوراً میرے پاس آئی ، مے آئی ہیلپ یو کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ۔میں کسی بھی دوکان میں جاؤں اور کوئی سیلز مین یا سیلز گرل آکر مجھ سے یہ پوچھے کہ ہیلپ چاہیے تومیں ان کی اس مدد کو اپنی پرائیویسی میں مخل ہونا سمجھتا ہوں ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔ بچپن کی مائی جی کی بات کانوں میں سما گئی کہ وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی جیسے پٹھانی ہو ۔میں نے بمشکل اسے نوتھینکس کہا اور شاپنگ شروع کر دی ۔ لیکن میں نے نوٹ کیاکہ اس کی آنکھوں میں ضرورت سے زیادہ ہی اپنائیت اور لہجے میں کچھ زیادہ ہی نرمی تھی ۔ میں نے سوچا کہ میں اگر اس اسٹور کا منیجر ہوتا تو ضرور اسے بیسٹ ایمپلائی کا ایوارڈ دیتا ۔ساری خریداری کرنے کے بعد میں ادائیگی کرنے کےلئے پہنچا، چیزیں اس کے سامنے رکھیں اور وہ بل بنانا شروع ہوگئی ۔ بل بناتے بناتے وہ مجھے کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی ۔ اسکی نظر میں اپنائیت والی مسکان شامل ہو چکی تھی ۔ میں نے ادائیگی کی اورنکل آیا ۔میں نے محسوس کیا کہ اس نے بل بہت کم بنایاتھا۔ کیونکہ میں عموماً چیزیں خریدتے خریدتے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ کتنا بل بنا ہوگا ۔

کچھ دن بعد میں دوبارہ وہیں شاپنگ کرنے گیا ۔ بل ادا کرنے اس کے پاس پہنچا تواس نے اپنی روایتی مسکراہٹ ، ضرورت سے زیادہ اخلاق سے بل بنانا شروع کر دیا اور مجھے دوبارہ کن اکھیوں سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ ایک بار پھرمجھے مسکان کا تحفہ دیا ۔ میں نے یہ سوچ کر اپنے ذہن کو ساحر لدھیانوی کی زبان میں سمجھایا۔ میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں۔۔ وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو۔۔ مگریہ خالی تبسم نہیں تھا ۔ کچھ اور تھا کیونکہ بل آج بھی اس نے کم بنایا تھا ۔آج میں نے گھر آکر ایک ایک چیز نکالی اور حساب لگایاتو مجھے پتہ چلا کہ اس نے ایمپلائی کارڈ کی ڈسکاؤنٹ شامل کی ہوئی تھی ۔لیکن کیوں؟ میں فوراً اس مارکیٹ میں واپس گیا ۔لیکن جب وہاں پہنچا تو اس کا منیجر اس کے پاس کھڑا تھا ۔ میں نے سوچا اگر اس دوران میں نے اسے کم بل بنانے کا بتایا تو میری ایمانداری تو ثابت ہو جائے گی لیکن اس بیچاری کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے

خیر اس دوران میں دوبارہ اسی مارکیٹ میں جاتا رہا اور وہ اسی طرح بڑی ہی توجہ سے مے آئی ہیلپ یو کہنے آتی اور نوتھینکس سن کر واپس چلی جاتی۔وہ اسی طرح مجھے مسکان دیتی رہی اور اسی طرح میرا بل ضرورت سے زیادہ ہی کم بناتی رہی ۔میں تسلیم کرتاہوں کہ لڑکیوں کے معاملے میں بہت ہی شرمیلا ہوں۔ فلرٹ کے معاملے میں گونگا ہوں ۔ کو ایجوکیشن میں نہ پڑھنے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ لڑکے کسی لڑکی کی مسکراہٹ ، اخلاق یا نرمی کا یا تو بہت ہی غلط مطلب لے لیتے ہیں یا پھر کوئی مطلب ہی سمجھ نہیں پاتے ۔میں بھی ایسا ہی تھا، لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے نظریں چرانے والا، اخلاق اور پسندیدگی میں فرق نہ کر سکنے والا۔لیکن جب میں نے نوٹ کیا کہ وہ مجھے ہربل میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ڈسکاؤنٹ دینا شروع ہوگئی ہے تو مجھے خیا ل آیا کہ یا تووہ میتھ میں کمزور ہے یا شاید پھر وہ مجھے پسند کرنا شروع ہوگئی ہے ۔ مارکیٹ میں بہت رش ہوتا تھا۔ مجھے اس سے بات کرنے کا کبھی نہ تو موقع ملا اور نہ ہی حوصلہ ۔
آخر فروری کے ایک مہینے میں اس کو ہی پہل کرنا پڑی اور اس نے انگریزی میں مجھے یہ جملہ کہا کہ ”کیا تم میرے ویلنٹائین بنو گے؟“ دل میں جلترنگ بج اٹھی ۔ سانسیں بے ترتیب ہو گئیں ۔مجھے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا ۔ اتنا ڈائریکٹ جملہ ۔۔میں صرف اتنا ہی کہہ سکاکہ میں تو آپ کا نام تک نہیں جانتا ۔وہ مسکرائی اور اسکے بعد وہ پشتو میں فر فر بولنا شروع ہوگئی ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ۔ میں نے کہا ایک منٹ پلیز ایک منٹ ۔ مجھے پشتو نہیں آتی ۔ وہ بولی کیا آپ کو پشتو نہیں آتی۔ آپ پختون نہیں ہیں ۔ میں نے کہا نہیں میں پٹھان نہیں ہوں ۔ میں پنجابی ہوں ۔ وہ فوراً بولی آہ۔۔ او کے ۔ میں سمجھی شاید۔۔ خیر۔۔نیور مائنڈ ۔۔اٹس اوکے ۔۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا آپ وہ ویلنٹائین والی کیا بات کر رہی تھیں وہ بولی۔ کچھ نہیں ۔ پلیز اگنور ۔۔ بس سوری ۔ ۔ اس کا لہجہ سرد گہراہوچکا تھا ۔ مسکان کی بجائے چہرے پر سنجیدگی کا پہرہ ہو چکا تھا ،اسکی توجہ بے اعتنائی میں بدل چکی تھی۔میرے پیچھے لوگوں کارش ہوچکا تھا ۔۔آج میں اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن آج و ہ سننے کے موڈ میں نہیں تھی ۔اس کا منیجر بھی آچکا تھا ۔ اس نے جلدی جلدی بل بنایا اور سامان غصے سے میرے حوالے کر دیا ۔ میں نے گھر آکر اپنا بل چیک کیا ۔ آج بل میں کوئی ڈسکاؤنٹ شامل نہیں تھا۔۔ بلکہ آئندہ کے لئے ڈسکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ وہ مسکان بھی جاتی رہی ۔۔۔
حسرت ان غنچوں پہ ہے ۔۔ جو بن کھلے مرجھا گئے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بڑا ہی محبت کا دشمن تھا وہ شخص جس نے پہلی بار انسانوں کو رنگ ، نسل اور قوموں میں بانٹا۔کاش کوئی ویلنٹائین اس فرق کو مٹا سکتا!

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply