Dr Durmus Bulgur Kay Tehqeeqi Karnamay

ڈاکٹر درمش بلگر کے تحقیقی کارنامے
اعجازالحق اعجاز

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر درمش بلگر ایک ممتاز ترک سکالر ہیں۔وہ دیار ِرومی قونیہ کی سلجوق یونیورسٹی کے شعبہ اردو زبان و ادب سے بطورپروفیسر وابستہ رہے ہیں اور پچھلے چند سالوں سے پنجاب یونیورسٹی میں ’رومی چئیر برائے ترکی زبان و ثقافت‘پر فائز ہیں۔پیررومی سے بہت عقیدت رکھتے ہیں اوران کے مرید ہندی علامہ محمد اقبال کے بھی مداح ہیں۔وہ ایک زیرک سکالر ہیں اور ان کی کئی ایک اردوتصانیف منصہ شہود پر جلوہ گر ہو چکی ہیں جن میں گلشن ترکی (ترکی زبان و ادب کا ریڈر)،مشاہیر ِترک، ترکی زبان،گمشدہ گلاب،اردو ترکی لغت مولانا رومی کے حوالے سے ان کی چار کتب ’مثنوی رومی‘، ’رومی اردو کتابیات‘،’مولانا رومی اوردیار رومی‘،شروح و شارحین رومی‘ شامل ہیں۔’مولانا رومی اور دیار رومی‘ میں انھوں نے رومی کے حالات زندگی،ان کی تصانیف اور شہر ِ قونیہ کی مختصر تاریخ رقم کی ہے۔ مولانا کے حالات بیان کرتے ہوئے وہ ان کی زندگی کے چیدہ چیدہ اہم واقعات کو بے حد اختصار سے بیان کرتے ہیں مثلاً ان کی پیدائش،بچپن میں حضرت فریدالدین عطار ؒسے نیشاپور میں اپنے والد کے ساتھ ملاقات جب عطار نے مولانا کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا”اس صاحبزادے کے جوہر سے غفلت نہ برتیے گا“،اور اپنی مثنوی ”اسرار نامہ“انھیں عنایت فرمائی،مولاناکی شادی کے واقعات،بغداد کے قیام کے دوران ان کی شہرت کا شاہ روم علاوالدین کیقباد تک پہنچ جانااور شاہ کا انھیں قونیہ قیام کی دعوت دینا،والد کی وفات کے بعد ان کا شام کا قصد کرنااور حلب کے مدرسہ علاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین سے تلمذ کرنا،شیخ برہان الدین سے روحانی تعلق پید اکرنا،مولانا کی وفات،حسام الدین چلبی کا خلیفہ بننا حالاں کہ وہ مولانا کے بیٹے سلطان ولدکو خلیفہ کا حق دار خیال کرتے تھے اور ان سے فرمائش بھی کی کہ وہ خلیفہ بن جائیں مگرولد سلطان اس وجہ سے نہ مانے کہ ان کے والد نے درست فیصلہ فرمایا ہے۔یہ مولانا کے بیٹے کی انتہا درجے کی سعادت مندی تھی جس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے خصوصی طور پر کیا ہے۔ایک اور واقعے کا ذکر یوں ہے کہ مولانا اپنے والد بزرگوار کی قبر پر مقبرہ بنانے کے حق میں نہ تھے۔سلجوقی وزیر امیر معین الدین پروانہ نے جب مقبرہ بنانا چاہا تو مولانا نے اس سے یہ کہا ”آسمان سے زیادہ بہتر اور بڑا قبہ تم نہیں بنا سکتے،اس لیے اس کی فکر مت کرو۔“ڈاکٹر صاحب نے مولانا کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”قبروں پر تربت اور قبے بنوانا اہل معانی کے ہا ں قابل قبول نہیں ہے۔ہمارے مزاروں کو زمین پر تلاش مت کرو،ہمارے مزار تو عارفین کے دل میں ہیں۔“مگر اس کے باوجود ان کا مزار بنایا گیا۔اس مزار اور اس کے متعلقات کی کچھ تاریخی جھلکیاں ڈاکٹر صاحب نے بہت دلکش انداز میں قدرے تفصیل سے بیان کی ہیں۔مولانا کے بیٹے کے بھی کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں۔مولانا کے چراغ تلے بھی روشنی ہی روشنی تھی۔کتاب میں مولانا کے جانشینوں اور خلفا ء کا احوال بھی اس کی افادیت کو چار چاند لگا رہا ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے مختصر مگر جامع انداز میں بہت سی نادر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔وہ پندرہ سال تک اس شہر میں رہے اور اس کی قدیم و جدید تاریخ اور آثار قدیمہ کا حال بہت عمدگی سے پیش کیا ہے جس سے اس شہر کی تہذیب و ثقافت اور اس کے مشاہیر کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ان کی منظر نگاری قابل داد ہے۔وہ نہایت سہل زبان میں تمام ضروری جزئیات کا احاطہ کرتے ہیں۔اس کتاب کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ قونیہ بہت سی قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور یہاں سے سات ہزار سال پرانے آثار ملے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے پرانے تمدنی مراکز میں سے ایک ہے۔سکندر ِاعظم نے جب اس فتح کیا تو یونانیوں نے اسے اپنا تہذیبی مرکز بنا لیا۔بعد ازاں یہ کئی صدیوں تک رومی سلطنت کا ایک اہم حصہ رہا۔ ساتویں صدی کے شروع میں ساسانی اور پھر اسی صدی کے دوران حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور میں اس شہر پر مسلمانوں کا عارضی قبضہ رہا۔بعد ازاں الپ ارسلان نے ۱۷۰۱ء میں روم کے دروازے ترکوں پر کھول دیے۔سلطان سلیمان شاہ نے قونیہ کو فتح کیا۔جرمن بادشاہ بربروسہ نے ۸۱ مئی ۰۹۱۱ء کو محاصرہ کیا مگر قلیچ ارسلان ثانی کی دلیرانہ مزاحمت کی وجہ سے وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔یہ شہر ایک عرصہ سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور پھر ۷۶۴۱ء میں عثمانی سلطنت میں شامل ہوا۔قونیہ کی قابل دید جگہوں میں چیتل ہویوک،کلیسترا،افلاطون پیناری،مجسمہ فصلر،مجسمہ ایوریز،سرائے قباد آبادشامل ہیں۔ یہ ایک قدرتی حسن سے مالا مال شہر ہے۔خاص طور پر میکے گولو جھیل،بے شہر گولو جھیل، یرکو پرو شلا لیسی آبشار، توز گولو جھیل، اوبزک گولو جھیل قابل دید ہیں، اس شہر کو اصل اہمیت تو مولانا رومی ہی کی وجہ سے حاصل ہے۔یہاں اس عظیم صوفی شاعر اور عارف کا مزار ہے اور اسی مزار کے احاطے میں شاعر مشرق کی علامتی تربت ہے۔مولانا کی درگاہ کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں مولانا کے حوالے سے زیارات رکھی گئی ہیں۔اس کا نام مولانا میوزیم ہے۔یہاں درویشوں کے حجرے بھی ہیں اور ایک سماع ہا ل بھی۔مزار سے کچھ ہی دور مولانا رومی ثقافتی مرکز بھی ہے جہاں ہر سال مولانا کی یاد میں ایک عظیم الشان پروگرام منعقد کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے بہت سی تاریخی عمارات، مکاتب اور مساجد کا احوال بھی بیان کیا ہے۔اس کتاب سے ان کی تاریخ، تہذیب و ثقافت اور آرکیالوجی میں دلچسپی عیاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب بے حد معروضی اور محققانہ ہے اور مشاہدہ بے حد عمیق۔وہ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہیں۔غرض یہ کتاب دستاویزی اور تاریخی تحقیق کا ایک نادر نمونہ ہے۔
مولانا کی جو دوسری کتاب میرے پیش نظر ہے وہ ’شروح و شارحین مثنوی رومی“ہے،یہ بھی ایک اہم تحقیقی کام ہے جس میں ڈاکٹر بلگر صاحب نے ترکی زبان میں لکھی جانے والی مثنوی مولوی معنوی کی مختلف شروح اور شارحین کا دلچسپ اور معلومات افزا احوال بیان کیا ہے اور اہم مصادر و مآخذ سے استفادہ کیا ہے۔ترکی زبان میں اب تک مثنوی کے سات مکمل تراجم اور شروح سامنے آئی ہیں۔ڈاکٹر صاحب اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے ان شروح کا عمدہ تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلی شرح مصطفی شمعی دہ دہ کی تحریر کردہ ہے جو سلطان مراد ثالث کے دور کی اہم شخصیات میں سے ایک تھے اور سلسلہ مولویہ سے وابستہ تھے۔ان کی یہ شرح 1596 میں مکمل ہوئی۔ان کے علاوہ جن لوگوں نے شرح کی ان میں مجموعۃ اللطائف از اسماعیل رسوخی دہ دہ،شرح مثنوی شریف از شفائی محمد دہ دہ،خلاصۃ الشروح از مراد بخاری، ان کے علاوہ احمد عونی کونوک، طاہر المولوی اولگن اورعبدالباقی گول پینارلی کی تصنیف کردہ شروح کا بھی نہایت عالمانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان مکمل شروح کے علاوہ متعدد جزوی شروح اور تراجم کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔یہ کتب بحیثیت مجموعی مولانا رومی کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں نمایاں مقام کی حامل ہیں اور اس سے جامعہ پنجاب کی رومی چئیر کی افادیت بھی عیاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر درمش بلگر جیسے کہنہ مشق محقق کا اس عہدے پہ براجمان رہنا اس حوالے سے ضروری ہے کہ وہ مزید اس طرح کے تحقیقی کارنامے انجام دے سکیں۔پاک ترک دوستی کے رشتے مضبوط کرنے میں بھی وہ نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

اعجازالحق اعجاز
PhD Scholar at Punjab University,Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply