ٹی ٹی پی کا بیانیہ اور افغان حکومت کی سرپرستی/عمار خان ناصر

گذشتہ دنوں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء نے ’’پیغام پاکستان’’ کے عنوان سے تحریک طالبان پاکستان کے ریاست مخالف موقف کو رد کرتے ہوئے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔ اسی موقع پر ممتاز عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے طالبان کے راہنما مفتی نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کی تفصیلات بھی بیان کیں اور واضح کیا کہ انھوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ کے شرعی جواز کا جو فتویٰ دیا تھا، اس سے پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کا جواز کیوں اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی حملے کی مزاحمت کے لیے جناب مولانا تقی عثمانی صاحب اور دیگر دیوبندی علماء نے پاکستانی قبائلی علاقوں کی مختلف تنظیموں کی “جہاد” میں شرکت کو صرف جائز نہیں کہا بلکہ اس کی ترغیب دی تھی۔ اس فتوے سے کئی قانونی، فقہی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوئی تھیں اور اسی سے تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی ریاست کے خلاف جہاد کا جواز بھی اخذ کیا تھا۔ اس سارے معاملے پر ہم نے اس دور میں تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔ بہرحال موجودہ تناظر میں، ٹی ٹی پی کو “مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے” کی بنیاد پر پاکستانی ریاست اور امریکا کا حکم ایک قرار دینے کا استدلال دستیاب نہیں ہے اور وہ دراصل فاٹا میں اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں جو ریاست پاکستان کے تابع نہ ہو۔ اس کے لیے وہ دوبارہ اسلام اور جمہوریت اور شریعت وغیرہ کا حوالہ دے کر پاکستانی مذہبی طبقات کی ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔ اس سیاق میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک واضح اور دوٹوک موقف پیش کرنا اور مفتی صاحب کا نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ پر لے آنا انتہائی قابل تحسین ہے۔ اس کی مکمل تائید کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس سوال پر بھی معروضی انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ افغان حکومت، تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کیوں کر رہی ہے؟ اس پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ مثلا” یہ کہ دونوں کا نظریہ مشترک ہے، دونوں نے امریکا کے خلاف جنگ اکٹھے لڑی ہے، تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں کافی منظم ہے، اور اس وقت أفغانستان کی حکومت داخلی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہے ۔ یہ سب تجزیے جزوی طور پر درست اور قابل فہم ہیں، لیکن اس کا ایک اور پہلو سب سے اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان دو، قومی ریاستیں ہیں جن کے مابین، دنیا کی بیشتر قومی ریاستوں کی طرح، تاریخی طور پر کئی حوالوں سے کشمکش موجود ہے۔ ایسی صورت حال میں ہر ریاست کا دوسری ریاست میں اپنے مفاد کے مطابق مختلف سیاسی یا غیر سیاسی عناصر کو تقویت پہنچانا یا ان کی سرپرستی کرنا ایک واضح سی بات ہے۔ چنانچہ جیسے پاکستانی ریاست کی یا یہاں کے مختلف طبقات کی خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان یا ان کی مخالف سیاسی قوتیں غالب ہوں، اسی طرح طالبان کی بھی فطری طور پر خواہش ہوگی کہ افغانستان سے متصل علاقوں میں ان کے ہم نظریہ عناصر طاقت میں ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک وقتی مسئلہ نہیں ہے جس کو کسی فوری نوعیت کی حسن تدبیر سے حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو موجود رہے گا اور اس کو اسی طرح طویل مدتی پالیسی کا موضوع بنانا پڑے گا جیسے پاک بھارت تعلقات کو بنایا جاتا ہے۔ تقسیم ہند سے ایک تاریخی مسئلے کے سلجھ جانے کی جو خوش فہمی ہمارے قائدین کو تھی، اس کو تو اب واضح کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ افغانستان کا مسئلہ بھی اپنی نوعیت میں ویسا ہی ہے، بلکہ کئی حوالوں سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ مثلا” بھارت کے ساتھ ہمدردانہ رشتہ رکھنے والے عناصر پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن افغانستان کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو پیچیدگیاں ہیں، ان کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے جس طرح کے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں، افسوس کہ سیاسی فہم اور دیرپا نبردآزمائی کی صلاحیت اس سے بہت ہی کم ہے اور اس فاصلے میں مسلسل قومی حماقتوں کی وجہ سے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply