جدیدیت‘‘ پر ایک نوٹ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اردو میں ’جدیدیت‘ اوّل اوّل تو ترقی پسند تحریک کے ردِّ عمل کے طور پر ہندوستان میں وارد ہوئی۔ اسے تاریخی استدلال کی سطح پر، ’قبولِ عام‘ کی بجائے ’قبولِ خاص‘ کے طور پر شناخت دینے میں شمس الرحمن فاروقی نہ صرف پیش پیش رہے، بلکہ اس کی سرپرستی اور رہنمائی کا بیڑا بھی انہوں نے اٹھایا۔ ایک قائد اور قانون گو کی طرح انہوں نے تحریک کو اس کے تاریخی کردار سے آگاہ کیا۔ ان کی ادارت میں چھپنے والا جریدہ ’’شبخون‘‘ تحریک سے وابستہ اہلِ قلم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے میں پیش پیش رہا۔ یہ کریڈٹ فاروقی صاحب کو ہی جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند ایک پرانے اہل قلم کو چھوڑ کر ہر نئے لکھنے والے نے ’جدید‘ کہلوانے میں فخر محسوس کیا ۔۔۔۔لیکن تحریک اور تنظیم میں بہت فرق ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک تنظیم کی زیرِ قیادت کام کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ منٹو ؔ کو ’’ذات باہر‘‘ کرنے میں بھی ایک ریزولیوشن کی ضرورت پیش آئی تھی۔ کئی چھُٹ بھَیّے (’’شاہراہ‘‘ کے پرکاش پنڈت کی مثال اظہر مِن الشمّس ہے، جو خود کو اردو کا چیخوفؔ لکھا کرتے تھے!) آرگنائزیشن کے کندھوں پر بیٹھ کر خود کو’’ نو گزا فقیر‘‘ سمجھنے لگے تھے۔

جدیدیت کی تحریک بنیادی طور پر ہی قلم کی آزادی کی محرک تھی اور کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن ہوا یہ کہ چند برسوں میں ہی انارکی اور انتشارنے اندرونی خلفشار کے طور پر اس تحریک کو گھُن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ زبان کی شکست و ریخت شروع کی گئی تو لسّانیات کے سب اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے۔ افسانوں میں کردار تحلیل ہوا، وقت کی یک سمتی رفتار کو شعوری رو کے زیر اثر “فار ورڈ کو دی پاسٹ یا پھر بیک ٹو دی فیوچر گیا۔ امیج پیٹرن ،جس میں سب سے زیادہ اصلی یگانگت کی ضرورت تھی، ایک لا یعنی ’’کولاج‘‘ کی صورت میں بدل دیا گیا۔ فاروقی صاحب کو دوش دینا غلط ہے۔ وہ ایک نقّاد تھے، رہنما تھے، آرگنائزر نہیں تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ’زیادتیوں ‘ کا جو ادب کی مختلف اصناف کے ساتھ اور زبان کی سلیقہ مندی کے ساتھ روا رکھی گئی تھیں، نوٹس لینے پر بھی وہ کچھ نہ کر سکے اور پھر، بوجوہ دیگر بھی، یہ تحریک ایک شوریدہ سر دریا سے کم ہوتے ہوتے ایک مضمحل گدلے نالے کی طرح بہنے لگی۔

اب ’’پوسٹ ماڈرن ازم‘‘ کی طرف آئیں۔
بیکٹؔ کی بات پہلے ہو چکی ہے۔ اس نے موضوع سے زیادہ ’فارم‘ اور اسلوب کی طرف توجہ مبذول کی۔ جب 1969ء میں اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا تو وہ نت نئے ادبی تجربات کے لیے تیار تھا۔ انہی تجربات سے مملو اس کی زندگی کی آخری تحریر تھی ۔ اس میں دیگر امور کے علاوہ بیکٹؔ نے ڈرامہ، فکشن اور شاعری کے درمیان حدودِ فاصل کو ملیا میٹ کرتے ہوئے (اپنی دانست میں) ایک نئی صنفِ ادب ایجاد کرنے کی سعی کی۔لیکن نتیجہ جو برآمد ہوا وہ خاطر خواہ نہیں تھا۔ یہ تحریر اس کی پرانی تحریروں کی صدائے باز گشت بن کر رہ گئی اور نقادوں نے اسے حقیقت کی جگہ پر پرچھائیں کہا۔ پھر بھی یہ بات مسلّم ہے کہ بیکٹ ’’پوسٹ ماڈرنزم‘‘ کا جنم داتا ہے۔ فکشن کے بارے میں (یاں فرنسائے لیوتارد) کی دو نئی اصطلاحیں معرض وجود میں آئیں۔ Beat Generation ایک امریکی اصطلاح ہے اور اسے جیک کیروایک نے رواج دیا۔ یہ اس دور کی امریکی جوان نسل کے لا سمت سفرِ زندگی کو موسیقی کی اصطلاح beat یعنی رقص کی ’دما دم دم ‘ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی لا یعنی صوتی تکرار کا استعارہ ہے۔ میں جب بھی
اس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے یہ شعر یا د آ جاتا ہے۔

بیا جاناں ، تماشہ کن، کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامانِ رسوائی، سرِ بازار می رقصم
جن شخصیات یا واقعات نے تاریخ وار اس منظر نامے کو ترتیب دیا، اس میں 1953ء کے دوران Waiting for Godot کی اسٹیج پر پروڈکشن ہے، 1956 ء میں Howl کی اشاعت، 1959 ء میںNaked Lunch کی اشاعت اور پھر بیسیوں صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ، یعنی1966 میں دریداؔ Jacques Derrida کا تاریخ ساز لیکچر ہے، جو اس وقت کی تنقیدی تھیوریوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اس لیکچر کا عنوان ہی اپنے آپ میں معنی خیز تھا۔ Structure, Sign and Play عنوان سے اس لیکچر کے سینکڑوں ڈرافٹ تیار ہوئے اور اس پر رائے زنی میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اخبارات کے تبصرہ نگاروں نے حصہ لیا ۔ تب میں پنجاب یونیورسٹی ، چنڈی گڑھ (انڈیا) کے شعبہ انگریزی ادبیات میں لیکچرار تھا۔ اسٹاف روم میں اس پر روزانہ بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ برطانیہ نژاد پروفیسر پال لَو Paul Love اور میں اکثر دریدا ؔ ؔ کے اس لیکچر کے مندرجات پر الجھتے تھے۔ پال لَوہم عصر یورپی منظر نامے کی جڑیں تلاش کرتے ہوئے اطالوی اور یونانی کلاسیکی ادوار تک پہنچتے تھے اور میں فارسی اور سنسکرت سے قدیم مفکروں اور لسانیات کے ماہروں کی مثالیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لاتا تھا۔ البتہ آخر میں ہم ایک بات پر متفق ہو جاتے تھے کہ دریداؔ کے فرمودات سے مکمل انحراف ممکن نہیں ہے۔

اردو میں پوسٹ ماڈرنزم کا صحیح متبادل کب منصہ شہود پر آتا ہے، ا س کے لیے شاید سالہا سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہ پڑے، کیوں کہ جدیدیت کی تحریک میں وہ عناصر بھی شرکت فرما چکے ہیں، جو غزل جیسی سکّہ بند صنف میں بھی اس قسم کے مصارع یا اشعار کہتے ہیں اور اپنی دانست میں ’’جدید‘‘ سے بھی ایک قدم آگے چل کر ’’جدید تر‘‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!۔( درجِ ذیل اشعار میں شعرا کے اسمائے گرامی بوجوہ حذف کر دیے گئے ہیں۔)
ع   سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
بکرا مَیں مَیں کرتا ہے
بکری منمناتی ہے
کچھوی کے پیٹ میں تھابہت دردِ زہ، جناب
مرغے کی بانگ سنتے ہی انڈے نکل پڑے
اے دردِبے لباس، چلو اسپتال میں
شاید کہ کوئی نرس ہی تجھ پر پھسل پڑے
ایڑی اٹھی تو چوٹی تک اٹھتی چلی گئی
ہم سر پہ پاؤں رکھ کے جو بھاگے تو دم لیا
میری بھدی ناک پر نقشہ توہے، مکھّی نہیں ہے
خود اُڑوں؟ نقشہ بناؤں، کیا کروں میں؟ تم بتاؤ
بند ہی رہتا تو خوشبو کا کوئی ا مکاں نہ تھا
گانٹھ سا غنچہ تھا، چاقو سے جو کاٹا، کھِل گیا

’’ بلب جلا کر انگلی کاٹی، نیلے خون سے نظمیں لکھیں‘‘ ایک ’’جدید‘‘ نظم کی ابتدائی سطریں تھیں ، یہ نظم شاید باقر مہدی کی تھی جنہیں میں قریب سے نہیں جانتا تھا، لیکن اس نظم پر ایک ادبی نشست میں کیا بحث ہوئی اس کی رپورٹ ایک روزانہ اخبار کے ادبی کالم میں یہ چھپی کہ شاعر نے اس کی تفصیل یہ دی کہ بلب جلانے کا مطلب صریحاً یہ ہے کہ رات کا وقت تھا اور بلب بجھانے کے وقت کمرے میں اندھیرا تھا اور یہ کہ شاعر کو اگر نیند نہ آئے تو وہ کیا کرے گا؟ نظمیں ہی تو لکھے گا۔ انگلی کاٹنے کا استعار ہمہ جہت ہے۔ سیاہی نہ ہو تو خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ترقی پسند شاعر یہ کہہ سکتا ہے ، ’کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے!‘‘ تو ایک ’’جدیدیت پسند‘ ‘ شاعر یہ کیوں نہیں کہہ سکتا، کہ نیلی سیاہی میسّر نہیں تھی، اس لیے اپنی انگلی کاٹی اور نیلا خون وافر مقدا ر میں اکٹھا کر لیا جس سے کہ نظم لکھی جا سکے ۔یعنی دوات سوکھی پڑی تھی، اسے نیلے خون سے بھر لیا۔ یہ بھی استعارےکا ایک پہلو ہے کہ فاؤٹین پَین خریدنے کی مالی پوزیشن میں شاعر نہیں تھا۔ انگلی کاٹنے کی جہت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی پسند شاعروں کے پاس( اگر ان کی متاعِ لوح و قلم چھِن گئی تو ۔۔) انگلیاں تو بہر حال تھیں،ہمارے پاس تو ما سوا انگلی کاٹنے کے لکھنے کا اور کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے۔

پڑھ کر کچھ ہنسی بھی آئی اور کچھ افسوس بھی ہوا۔ ادبی نامہ نگار کی اپنی رگِ ظرافت پھڑکی تھی یااسے موصوف سے کوئی بدلہ چکانا تھا کیوں کہ اس نے مزے لے لے کر، دم دے دے کر، ایک ایک مصرعے پر رائے زنی کی تھی، میں تو اس تماشے کا خاموش تما  شائی تھا۔۔

باقر مہدی سے میری جو تین چار ملاقاتیں رہیں، بے حد مایوس کن تھیں۔ موصوف ایک خود ساختہ جنت الاحمقان Fool’s Paradise میں رہتے تھے، جہاں وہ خود تخت نشین، تاجپوش تھے اور ان کے ارد گرد بکھرے ہوئے سب لوگ ان کے خوشامدی درباری۔ یورپ کے فلسفیوں اور مصنفین کی باتیں کرتے تو ان کے نام کا تلفظ غلط ادا کرتے، سنی سنائی باتیں ایسے کرتے جیسے یہ ان کی آزمودہ ہوں۔ انہیں یہ خیال کبھی نہیں آیا، کہ سننے والا یعنی ستیہ پال آنند یورپ میں جامعاتی سطح پر کورسز کی تشکیل کرتا رہا ہے اور برسوں تک پڑھا بھی چکا ہے۔ بہر حال اب تو وہ ایک جنت سے دوسری میں انتقال فرما گئے ہیں اس لیے کچھ اور لکھنا مناسب نہیں لگتا۔

اوپر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ ہندوستان کے حوالے سے تو امرِ واقعی ہے، صد فی صد درست ہے، لیکن پڑوسی ملک پاکستان پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد چونکہ دونوں ملکوں کے مابین ڈاک کے ٹکٹوں کی پرانی دروں پر رسالوں اور کتابوں کا آناجانا بند ہو گیا تھا اور لفافہ بند خطوط کو بھی اب سینسر کی چھلنیوں سے گذارا جانے لگا تھا، (فون ویسے ہی دستیاب نہیں تھا!) اس لیے گذشتہ تیئس سالوں میں اردو ادب پر جو کچھ وہاں بیتی،عسکری آمرانہ دورانِ حکومت کے دو یا تین دورانیوں میں جو کچھ اہلِ قلم پر گذرا، کون کون کال کوٹھڑی میں بند ہوئے، کن کن کے خلاف مقدمے چلائے گئے، کون کون کھُلی منڈی میں آمروں کے ہاتھوں بِک گئے اور سرکاری عہدوں، انعاموں اور ایوارڈوں کو اپنے سینوں پر سجا کر بیٹھ گئے ، اس کا پتہ مجھ جیسے foot loose آوارہ گرد کو تو(جسے اس کی اپنی یونیورسٹی میں ہی ایئر پورٹ پروفیسر کے cognomen سے پکارا جانا لگتا تھا، اپنے لندن کے دوروں میں ہی پتہ چلتا رہا کہ اصلیت کیا ہے لیکن انڈیا کے اردو ادیبوں، شاعروں اور قارئین کی اکثریت اس سے بے بہرہ ہی رہی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال مجھے آج یعنی ان واقعات اور حادثات کے تیس برس بعد اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے کچھ پیچھے جانا ہو گا۔ میں چونکہ اردو نظم کے حوالے سے یہ اوراق لکھ رہا ہوں، اس لیے اب فکشن اور صنف غزل سے بالکل ہٹ کر صرف نظم کی بات کروں گا۔ میرا ؔ جی کتاب’’اس نظم میں‘‘ بہت پہلے چھپ گئی تھی اور عملی تنقید کے کچھ معمولی نمونوں پر مشتمل تھی لیکن اس نے بہر حال ایک نئی راہ دریافت کی اور اپنے پیچھے آنے والوں کی رہنمائی کی۔ وزیر آغا تب تک فعال تھے اور ’اوراق‘ کے علاوہ ہر برس ان کی کوئی نہ کوئی نئی کتاب چھپ جاتی تھی۔ ان کی ’’نظم جدید کی کروٹیں‘‘ لنڈن میں کہیں سے میں اچک لایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ جدید تنقیدی ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے اپنی کی کتاب ’’جدید اردو نظم او ر یورپی اثرات‘‘ 1968 ء میں شائع کی۔ یہ تینوں کتابیں جس طرح جدید نظم کے کچھ گنتی کے شعرا کا جائزہ لیتی ہیں، ان سے معاصر پاکستانی اردو ادب پر ہندوستان کی زیر بحث ’’ جدیدیت‘‘ کی تحریک کے مثبت یا منفی اثرات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ پاکستانی ادب پر اس کے اثرات سرے سے مرتب ہی نہیں ہوئے۔ انڈیا کی اپنی حدود میں ہی مقید ہو کر رہ گئے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply