ماں ہم شرمندہ ہیں ۔۔عامر عثمان عادل

25 مئی کو پاکستان بھر میں سلامتی کے ضامن اداروں اور ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کے بیچ آنکھ مچولی جاری تھی ۔ گھمسان کا رَن لاہور کی سڑکوں پر تھا ۔ ایسے میں دیکھا گیا کہ ایک نہتی معمر خاتون کی گاڑی کو سرکاری غنڈے گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالتے رہے بدسلوکی کی اور پھر وحشیانہ لاٹھی چارج سے ونڈ اسکرین توڑ دی۔کینسر کی مریضہ 72 سالہ خاتون صنف آہن ثابت ہوئی ، اس کے پائے استقلال میں ذرا سی لغزش نہ آئی ، وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آ بیٹھی۔

آئیے آج آپ کو اس خاتون سے ملواتے ہیں۔
جب یہ پیدا ہوئی ، تو پاکستان صرف تین برس کا تھا ۔ چکوال کی سرزمین سے ابتدائی  تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور کا رُخ کیا ۔ 1978 میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا 1984 میں رائل کالج آف گائنا لوجی لندن میں داخلہ لیا 1999 سے FRCOG اور پھر MRCOG کی مشکل ترین ڈگریاں حاصل کر لیں۔
اس دور میں شاید ہی اس کے پائے کی کوئی  اور گائناکالوجسٹ وطن عزیز میں ہو ۔

طویل عرصہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹئ اور راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی میں بطور پروفیسر آف گائنی تدریس کے فرائض سرانجام دئیے ۔ ایشیا میں طب کی قدیم ترین درسگاہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائنالوجی کی سربراہ رہیں.
پنجاب میں صحت و تعلیم کے بہت سے اہم منصوبوں کو ایک شان سے کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ جس میں صحت مند ماوں کا پروگرام اور پنجاب تھیلیسیما حفاظتی پروگرام شامل ہیں عالمی ادارہ صحت کے تحت میڈیکل اسکولز میں ہیومن ریسورس پروگرام کی کامیابی اس کے دم قدم سے تھی خواتین کی بہبود کے لئے قائم حکومت پنجاب کی ٹاسک فورس کی چیئر پرسن رہیں۔بین الاقوامی جرائد میں چھپنے والے عالمی معیار کے 51 تحقیقی مقالہ جات اس کا اعزاز تھے۔

کھیلوں کی دنیا میں بہت سے افتخار اس کی راہ دیکھ رہے تھے ٹیبل ٹینس ہو ، لان ٹینس یا باسکٹ بال ہر میدان میں اس نے جھنڈے گاڑ دئیے ٹیبل ٹینس کی رینکنگ میں اس کا پاکستان بھر میں دوسرا نمبر تھا۔ایک طویل عرصہ پاکستان بھر کے ڈاکٹرز کی قیادت اس انداز سے کی کہ ڈاکٹرز کمیونٹی کو اس خاتون سے عقیدت ہو گئی۔
انسانیت کے درد سے آشنا ایک سچی مسیحا جس نے اپنی جمع پونجی اور تمام تر صلاحیتیں نادار مریضوں اور دور دراز علاقوں کی خواتین کے علاج معالجہ کے لئے وقف کر ڈالیں۔

2010 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئیں تو اپنے سسر کے مشورے پر عملی سیاست میں قدم رکھا ۔ ملک غلام نبی 1951 سے 1955 سے پنجاب اسمبلی کے ممبر بنتے رہے اور 1975 میں صوبائی  وزیر تعلیم پنجاب تھے۔

تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لاہور کے حلقہ این اے 120 سے میاں نواز شریف کے مقابلہ میں زندگی کا پہلا الیکشن لڑا اور 52 ہزار ووٹ حاصل کئے۔پانامہ کیس میں میاں صاحب نااہل ہوئے تو ضمنی الیکشن میں کلثوم نواز شریف کے مدمقابل اتریں اب کی بار محض 14 ہزار ووٹوں سے الیکشن ہارا۔

2018 کے جنرل الیکشن میں لاہور کے اسی حلقے سے جو اب این اے 125 تھا دوبارہ الیکشن لڑا اب کے ان کا سامنا ن لیگ کے امیدوار وحید عالم سے تھا۔اس خاتون نے ایک لاکھ پانچ ہزار ووٹ حاصل کئے مگر کامیابی مقدر نہ بنی۔پنجاب میں ان کی جماعت نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر ایم پی اے نامزد کر دیا حکومت بنی تو وزارت صحت کا قلمدان ان کو سونپ دیا گیا۔

کرونا کی وبا نے ایک عالم کو لپیٹ میں لیا تو اس پرعزم خاتون وزیر صحت نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کا اعتراف ایک عالم نے کیا اسی دوران یہ بہادر عورت خود کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتی رہی لیکن اپنے فرائض پر اپنی صحت کو قربان کر دیا۔پنجاب میں عام آدمی کو صحت کی سہولتیں میسر کرنے کی خاطر صحت کارڈ جیسے منصوبے کو کامیابی سے لانچ کیا۔

میاں نواز شریف جیل میں بیمار پڑے تو ان کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے عمل کی خود نگرانی کی اور جب انسانی ہمدردی کے تحت انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک لے جانے کی بات چلی تو یہاں بھی اس کا کردار انتہائی  مثبت رہا۔

آئیے اب کچھ مناظر دیکھتے ہیں۔۔
لاہور میں تحریک انصاف کا پارٹی اجلاس ایک گھر میں جاری ہے پولیس تمام اخلاقی حدود کو روند کر گھر میں داخل ہوتی ہے یہ خاتون احتجاج کرتی ہے تو اسے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ایک دنیا نے دیکھا کہ اتنے سارے اعزازات کی حامل یہ خاتون بیچ سڑک کے بیٹھی صدائے احتجاج بلند کرتی دکھائی  دیتی ہے۔

پنجاب پولیس کے بہادر جوان اور سادہ کپڑوں میں کچھ گلو بٹ اس نہتی خاتون کو گھسیٹ کر گاڑی سے نکالتے ہیں بدزبانی پر اتر آتے ہیں لاٹھیاں برساتے ہیں ونڈ اسکرین چکنا چور کرتے ہیں۔آفرین ہے اس پر یہ زخمی حالت میں خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتی ہے اور ایک فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اپنی جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ٹھہرتی ہے۔

ایک قابل مسیحا ، نامور استاد پاکستان بھر کے ڈاکٹرز کی بے مثال رہنما اپنے وقت کی مانی ہوئ گائنالوجسٹ ، ہزاروں نادار خواتین کا سہارا ، لاہور سے ایک لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی سیاستدان ، کرونا وبا میں پنجاب کے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی خاطر اپنی زندگی داو پر لگانے والی خاتون اور ہم نے اسے صلہ کیا دیا۔
ڈنڈے گالیاں بد سلوکی بدتمیزی

قصور کیا تھا اس کا؟
سیاسی جدوجہد ، اپنی جماعت کی سپورٹ

ظالمو یزیدو !
اس خاتون کی عظمت کا پاس نہ تھا اس کی بزرگی کا ہی کچھ لحاظ کر لیا ہوتا
اس کے سفید بالوں کی حیاء کر لی ہوتی
ایک 72 سالہ خاتون کو جس کی عمر کی تمہارے گھر میں دادیاں نانیاں ہوں گی کس طرح تمہارے ضمیر نے گوارا کیا کہ اس پر ہاتھ اٹھاؤ
یا پھر تم ماں بہن بیٹی کے رشتوں کے تقدس سے ہی نا آشنا ہو
یاد رکھو میرے رب کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے
انتظار کرو اس کے غضب کا

Advertisements
julia rana solicitors

اور اے ماں !
ہم شرمندہ ہیں
ہمیں معاف کر دینا!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply