قصّہ شہر بدری کا(6)-شکور پٹھان

وہ نوکری جس کا ملنا پاکستان میں پہاڑ سر کرنے کے برابر نظر آتا تھا ، یہاں یوں چٹکی بجاتے مل گئی۔ اس طرف سے تو فکر دور ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں یہاں کچھ ایسا مگن ہوگیا کہ جانو ہر فکر سے آزاد ہوگیا ہوں۔ ویسے بھی ان دنوں نہ صرف بحرین بلکہ خلیج اور سعودی عرب میں بے شمار مواقع تھے۔ قوانین اس قدر سخت نہیں تھے نہ ویزا ، ورک پرمٹ وغیرہ کی پابندیاں اس طرح تھیں جیسی آج ہیں۔ یہی دیکھئیے کے کسی لکھا پڑھی، کسی کاغذی کاروائی کے بغیر میں نے یو بی ایل میں کام شروع کردیا۔ انہوں نے یہ تک نہیں پوچھا کہ میں کس کے اور کس قسم کے ویزے پر ہوں۔ اور میری بے فکری دیکھئیے کہ میں نے تنخواہ کے بارے میں ایک سوال نہیں کیا کہ کتنی ہوگی، کیسے اور کب ملے گی ؟۔
تنخواہ پر یاد آیا کہ یہاں آنے کے بعد چچا نے مجھے پہلے دن دس دینار دئیے تھے جنہیں میں نے کھا، پی کر، فلمیں دیکھ کر اور چھوٹی موٹی خریداری کرکے دودن میں ٹھکانے لگادیا۔ چچا نے دو ایک دن بعد پوچھا کہ پیسے ہیں یا اور چاہئیں ۔ میں نے بتایا کہ وہ تو کب کے ختم ہوگئے۔ انہوں نے مجھے اور پیسے دے دئیے۔ ان پیسوں کے ساتھ بھی میں نے وہی سلوک کیا جو بادشاہ کرتے ہیں، یعنی عیاشی۔ جب تیسری بار چچا نے پوچھا تو مجھے پہلی بار کچھ شرم سی آئی کہ اب تو میری نوکری شروع ہوگئی ہے۔ مجھے یہاں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے تھے۔ میں نے چپکے سے چچی سے پوچھا کہ یہ ایک دینار میں کتنے روپے ہوتے ہیں۔ پتہ چلا ایک دینار پاکستانی پچیس روپے کے برابر ہے ( آج ایک دینار سوا چارسو روپے کے برابر ہے)۔ یعنی میں نے ہفتہ بھر سے بھی کم دنوں میں پاکستانی پانچ سو روپے اڑا ڈالے تھے۔
بحرین آنے سے پہلے کراچی میں جو سرکاری نوکری تھی جہاں میں اکاؤنٹنٹ کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھا، میری تنخواہ چار سو پینتیس روپے دس آنے تھی۔ اور یہ تنخواہ بہت اچھی مانی جاتی تھی اور یہ ساری کی ساری میں امی کے ہاتھ پر رکھتا تھا اور اس میں سے کچھ روپے مجھے مل جاتے تھے جن سے میں عیاشی کرتا تھا، یہ بہت زیادہ نہیں یہی کوئی بیس پچیس روپے ہوتے تھے۔ اور بابو جی نے بحرین میں چار پانچ دن میں پانچسو پاکستانی روپے خرچ کر ڈالے تھے۔
اگلے دن مبین بھائی سے دبے لفظوں میں پوچھا کہ مجھے تنخواہ کیا ملے گی۔ عارف صاحب یا امتیاز صاحب سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ قدوس صاحب سے اس لئے نہیں پوچھا کہ مجھے یقین تھا کہ انہیں کچھ خبر نہیں ہوگی۔ مبین صاحب کو بھی نہیں پتہ تھا لیکن انہوں نے کچھ دیر بعد اوپر آکر سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ مجھے پینسٹھ دینار ملیں گے۔ کان میں اس لئے بتایا کہ پاکستان سے آئے ہوئے کلرکوں کو پینتالیس اور پچپن دینار کے درمیان تنخواہ ملتی تھی۔( انہیں رہائش بنک کی جانب سے ملی تھی اور ویزا وغیرہ بنک کا تھا۔ چونکہ میری رہائش اور ویزا وغیرہ کے کوئی اخراجات نہیں تھے چنانچہ مجھے دیگر لوگوں سے دس دینار زیادہ ملنے تھے۔ ) اور یہاں پروا بھی کسے تھی۔ پچپن ملیں یا پینسٹھ، اصل بات یہ تھی کہ تنخواہ ملے گی اور میرے لئے یہی بہت تھا۔ کراچی میں فرحت بھائی کے ہاں کی بیگار سے تو یہ لاکھ درجہ بہتر تھی۔
مبین صاحب نے اگلے دن مجھے کام تفصیل سے سمجھایا۔ سارا دن میرے ساتھ رہ کر کام کیا، شام کو سارے اکاؤنٹس بیلینس کئے اور “ڈیلی رپورٹ “بنانا سکھایا۔اس کے بعد میرا کام ختم ہوجاتا تھا۔ گویا شام کو میری چھٹی کا انحصار میرے کام ختم کرنے پر تھا۔ قدوس صاحب یوں نشچنت ہوکر بیٹھے تھے جیسے اس سارے معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ بعد میں بھی سوائے رپورٹوں اور ضروری واؤچر وں پر دستخط کرنے کے علاوہ انہیں کچھ نہیں کرتے دیکھا۔ ان کا یہاں ریسٹورنٹ تھا جہاں دن کے وقت ان کا چھوٹا بھائی بیٹھتا تھا اور سارا دن فون پر اسے ہدایات دیتے رہتے۔
“اؤئے چولاں (چاولوں) دی آج کنی بوریاں آئیں؟۔”
“ گوشت کی بھاؤ ملیا ؟”
“ ویٹراں (ویڑوں) دے بتاکے (بطاقہ) دا کی ہویا”۔( بیروں کے ورک پرمٹ کا کیا ہوا)۔
“ جیرے نوں کہیں کہ سالناں وچ مرچی کم پایا کرے۔ عربی کسٹمر شکیت لاندے آں”( جیرے کو کہو کہ سالنوں میں مرچ کم ڈالا کرے، عرب گاہک شکایت کرتے ہیں) وغیرہ وغیرہ
مجھے ان سے کچھ پوچھنے کے لیے پندرہ پندرہ بیس بیس منٹ انتظار کرنا پڑتا ۔ میں صدیق سے پوچھتا یا نیچے جاکر مبین بھائی سے پوچھ آتا۔ یا پھر وہ صدیق سے سیاست، مذہب، تاریخ اور دیگر امور پر تبادلہ خیالات کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ میں سچ مچ کا پٹھان ہوں۔میرے چچا کی دبنگ شخصیت کی وجہ سے وہ مجھے بھی پختون سمجھتے تھے چنانچہ بے فکر ہوکر مہاجروں اور سندھیوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے جو کہ اس قدر خوشگوار نہیں ہوتے۔
بحرین کے یہ ابتدائی دن بہت مزے کے تھے۔ شام کو اگر کام جلد ختم ہوجاتا اور گھر واپسی پر بچوں سے کھیلتا، یا چچا چچی سے گپ شپ کرتا۔ چچا تقریباً ہرروز ہم سب کو لے کر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے۔ مجھے بحرین کے مختلف علاقے دکھاتے۔ “ یہ اوال ہے۔ یہ “باپکو” والوں کے گھر ہیں۔ یہاں انگریز زیادہ بستے ہیں۔ یہ عیسی ٹاؤن ہے۔ نئی آبادی ہے۔ یہ محرق ہے۔ یہاں ایرانی ، عربی کا جھگڑا رہتا ہے۔ یہ غدیبیہ ہے، یہ بدئیہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ چلتے پھرتے کہیں سے کباب، تو کہیں سے شو راما لیکر ڈنر کرلیتے۔ یا پھر کسی دوست کے گھر بیٹھ کر کافی پیتے اور گپ شپ کرتے۔ چچا کے دوست سارے بڑے باذوق اور محفل آرائی کے شوقین تھے۔ ان کی باتوں میں بڑا مزہ آتا۔ شروع میں کچھ عرصہ میں خاموش ان کی باتیں سنتا رہتا لیکن جلد ہی یہ جھجک دور ہوتی گئی۔
چچا کی سب سے بہت اچھی دوستی تھی اور بے تکلفانہ تعلقات تھے لیکن افضل نجیب ان کے سب سے قریبی دوست تھے۔ نجیب صاحب بحرین حکومت میں لینڈ دیپارٹمنٹ میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ بعد میں ان کا عہدہ وزیر تک جا پہنچا تھا۔ میں ان کے ویزے پر ہی یہاں آیا تھا۔ ان کی بیگم نہایت ہی خوش خلق، خوش اطوار، خوش کلام اور خوش جمال خاتون تھیں۔ کہنے لگیں یہ تو بالکل میرے چھوٹے بھائی کی طرح دکھتا ہے۔ اس کے بعد سے آج تک انہوں نے مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح ہی رکھا ہے۔ اب بھی جب کبھی میں بحرین جاتا ہوں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور وہ اسی محبت اور شفقت سے پیش آتی ہیں۔
کبھی یوں بھی ہوتا کہ کام ختم کرکے ہم چند دوست سیدھے سینیما چلے جاتے۔ ان دنوں یہ سب سے بڑی ، بلکہ واحد تفریح تھی۔ مراد علی دن بھر مجھے شام کو لگنے والی فلموں کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتا جس کی روشنی میں ہم رات کا پروگرام طے کرتے۔ وہ مجھے یہ بتانا کبھی نہیں بھولتا کہ ،پران ،بلوچ ہے۔ اگر شام کو پران یا ،راجکمار، کی کوئی فلم لگنے والی ہو تو پھر اس کا اصرار ہوتا کہ بس کوئی اور فلم نہیں دیکھنی۔ اس کی بات سمجھنے میں دوبار سوچنا پڑتا تھا کہ وہ خون کو حون، رحمان کو رخمان کہتا تھا۔ ہ/ح کو خ اور خ کو ح/ہ وہ کس کلیے کے تحت ادا کرتا تھا وہ میری کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔
جمعہ کے دن یوسف صبح سویرے آجاتا اور ہم ناشتہ کرکے گھومنے نکل جاتے۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ رہائش پذیر ایک اور قدوس اور اشرف صاحب بھی ہوتے۔ یہ دونوں پنجاب کے تھے اور شام کو باہر جانے سے پہلے سوٹ اور ٹائی پہننا نہیں بھولتے تھے۔ دونوں کہیں الیکٹریشن یا ٹیکنیشن تھے۔ یہیں ، پر سی، بھی رہتا تھا جو کہ کراچی کا رہنے والا پارسی تھا اور رمضان میں بڑے مزے کی چیزیں بناتا تھا۔ یوسف ، قدوس اور اشرف وغیرہ کے ساتھ گھومتے ہوئے ایک دن “ امرجیت سنگھ” بھی ہمارے ساتھ تھا ۔ اور میرے اس پہلے سکھ دوست کی وجہ سے سرداروں کے بارے میں میرا تاثر یکسر غلط ثابت ہوا کہ یہ سردار پڑھا لکھا تھا اور انگریزی ہم سب سے اچھی بولتا تھا۔
پہلے پہل تو میں بنک سے سیدھا باب الببحرین اور وہاں سے دائیں مڑ کر گھر کی جانب جایا کرتا لیکن کچھ دنوں بعد بنک کے عقب سے ،بندرابن کی کںج گلیوں ، کی مانند، ٹیڑھی میڑھی، تنگ اور کچی گلیوں سے گھر کا شارٹ کٹ سمجھ آگیا۔ یہاں بہت پرانے طرز کے عربی مکانات تھے جن کی گلیوں میں عربی، ایرانی، ہندی اور پاکستانی بچے کھیلتے اور عورتیں زور زور سے بولتی، لڑتی جھگڑتی نظر آتیں۔ ان گلیوں کا اپنا ایک سحر تھا۔ مجھے یہ گلیاں بڑی رومان انگیز لگتیں جہاں کبھی کبھی کسی دروازے میں کوئی خوشنما چہرہ راہ گیروں کو تکتا نظر آتا اور دل چاہتا کہ یہ شارٹ کٹ کبھی ختم نہ ہو۔
بنک میں کام شروع کئے ہفتہ دس دن ہی ہوئے تھے کہ پھر دودن کی چھٹیاں آگئیں ۔ یہ نویں اور دسویں محرم یعنی یوم عاشور کی چھٹیاں تھیں۔ بحرین میں اہل تشیع کی اکثریت ہے لیکن یہاں وہ کراچی والا نقشہ نظر نہیں آتا تھا۔ کسی گلی میں کوئی سبیل نہیں تھی۔ نہ کوئی ہرے کپڑے اور سرخ کلاوے پہنے امام حسین کا فقیر نظر آتا۔ نہ ہی عاشور والے دن کہیں سے کوئی تعزیہ یا ذوالجناح کا جلوس برآمد ہوا۔ البتہ یوسف مجھے بازار میں،ماتم گساراں کا ایک خاص جتھہ دکھانے لے گیا۔ یہ پندرہ بیس عزا داران تھے جنہوں نے سر منڈا رکھے تھے اور سفید براق جبے پہن رکھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تیز دھار تلواریں تھیں جو وہ اپنے سروں پر رگڑتے تھے اور “حیدر، حیدر” پکارتے تھے۔ کراچی میں زنجیروں کا ماتم دیکھا تھا اور آگ پر ماتم بھی دیکھا لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی ماتم دیکھا۔ ماتم گساراں کا سر، چہرہ، اور سفید لباس خونم خون ہوجاتا تھا۔ ہم تو ماتم دیکھنے کے عادی تھے، گورے اور گوریاں اسے بڑی دلچسپی اور حیرت سے دیکھتے تھے۔ ایک نوجوان گورےنے اپنی گوری کو کاندھوں پر بٹھا رکھا تھا کہ وہ آسانی سے دیکھ سکے۔ اور میں ان گورے ،گوری کو دیکھتا تھا۔
ابھی اور بہت کچھ دیکھنا تھا۔ باقی کی باتیں بشرط زندگی آئندہ

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply