مزیّن ہیں میرے خواب/شیخ خالد زاہد

سماجی ابلاغ کی مرہونِ منت لکھنے والوں کے آپسی جان پہچان کو بہت تقویت پہنچی ہے ، پذیرائی کا عنصر بھی بڑھ گیا ہے جسکی وجہ سے لکھنے والوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، کورونا اس میں مزید عمل انگیز ثابت ہوا ۔ کورونا میں آن لائن ملاقاتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو کہ اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے اور باقاعدہ ایک طرز ملاقات بن گیا ہے ۔ وقت کی قلت کو مدِ نظر رکھیں تو یہ اچھا عمل ثابت ہوا ہے ۔ آج دنیا میں نقل و حرکت کی مختلف پریشانیوں سے بچنے کیلئے جدید دنیا نے اس نظامِ ملاقات کو بہتر سے بہترین بنانے کی ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جا رہی ہے ۔

وقت اور حالات انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں یہ انسان کے جاننے کیلئے کبھی بھی ضروری نہیں رہا وہ تو بس کسی بہتے پانی کے بہاءو کی مانند چلتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کے وہ ابدی سمندر کا حصہ بن جاتا ہے ۔ قدرت نے احساس کے جذبے سے سرشار کچھ خاص لوگ بنائے ہوئے ہیں جن کا کام غیر مرئی مخلوق کی طرح نہ دیکھائی دینے والے خیالات کو لفظوں کا لبادہ اڑھا کر قلم سے قرطاس کی زینت بناتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وقت کی بے رحمی کو بھی کھلے دل سے قبول کرتے ہیں اور اس ساتھ نبھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی لغت میں لفظ بھاگنا نہیں ہوتا یہ ساتھ رہنے اور رکھنے پر یقین رکھتے ہیں جس کے لئے یہ اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ایسے لوگ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ، بس مل جاتے ہیں ۔

مارچ ۲۲۰۲ بہار کے موسم میں جب قدرت اپنی رعنائی کے جلوے ہر طرف بکھیر رہی ہوتی ہے اور ماحول بغیر کسی بشری محنت کے رنگوں اور خوشبوءوں سے آراستہ ہوا ہوتا ہے ۔ ایسے موسم میں رنگوں اور خوشبوءوں جیسے لفظوں سے آراستہ ایک کتاب کی رونمائی کی اطلاع نے ماحول کو مزید پروقار بنادیا ۔ شعر الفاظ سے ترتیب پاتے ہیں جو الفاظ کا تعلق احساس کی شدت اورسوچ کی گہرائی و گیرائی کا مرکب ہوتے ہیں ، پھر لکھنے والے کا الفاظ کا چناءو ایک طرف تو اسکے مطالعے کا پتہ دیتی ہے تو دوسری طرف لکھنے والے کی معاشرے سے گہرے تعلق کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔ محترمہ نزہت جہان صاحبہ کا تعلق شہرِ قائد سے ہے ۔ آپ کا تعلق بھی درد دل رکھنے والے قبیلے سے ہے اور اس قبیلے کے لوگ بس محبت اور بندگی پر یقین رکھتے ہیں اور زادِ راہ کی فکر سے ماوراء چلتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ ناز صاحبہ انتہائی خوش اخلاق اور دیہمے مزاج رکھنے والی خاتون ہیں ،مسکراتی رہتی ہیں کہ کہیں لوگ دکھ کا اندازہ نا لگا بیٹھیں اور ہمدردیاں نا لے بیٹھیں ۔

نزہت جہاں صاحبہ کے والدین نے پاکستان کیلئے حیدرآباد دکن سے ہجرت کی جو علم و فن اور تہذیب و تمدن کا مستند گہوارہ تھا، یعنی ناز صاحبہ کی مٹی میں ادب کی ملاوٹ بہت خوب ہوئی تھی ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ خاندان کے افراد شعر و ادب سے خوب شغف رکھتے تھے ۔ جن میں سرِ فہرست ہندوستان کے گراں قدر شاعر و ادیب ، محقق و مورخ، نقاد اور بانی ادارہ ادبیات اردو جسکا نیا نام ایوان اردو ہیں ، آپ کو بے پناہ ادبی خدمات کی مد میں انہیں ماہرد کنیات کے لقب سے نوازا گیا ۔ محترم ڈاکٹر سید محی الدین قادری صاحب ہیں ۔ نزہت صاحبہ کے پر نانا نواب سر نظامت جنگ صاحب جو بیک وقت عربی، اردواور انگریزی کے شاعر تھے اسکے ساتھ ہی ایک جج اور معاشرے کی اصلاح کرنے کا کام سرانجام دیتے رہے ۔ بہت سارے شاعر و شاعرات آپکے انتہائی قریبی قرابت داروں میں رہے ۔ والدہ کا تعلق تعلیم کی ترویج سے رہا جس کی بدولت کتابوں سے محبت کا ہونا ایک لازمی جز تھا ۔

نزہت جہاں ناز صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ صلاحیتیں تمام تر اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں تو شوق بھی اوائل عمری سے ہی پروان چڑھتا ہے ۔ ہم نے بھی بچپن میں اپنے ہاتھوں سے تحریر شدہ بچوں کا رسالہ نکالا جس میں زیادہ تر اپنی ہی لکھی کہانیاں اور نظ میں ہوتی تھیں ۔ وقت کی برق رفتار سواری نے ہمارے شوق کو کہیں معدوم کردیا ۔ البتہ! گریجویشن کے بعد ریڈیو سے منسلک ہوکر کمپئرنگ اور صداکاری شروع کردی ۔ اس کے بعد ایک عام سی لڑکی کی طرح خود کو زندگی کے حوالے کردیا اور پھر زندگی کے سمندر میں غوطہ زن رہے اور پھر لہروں کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی سکت صلب ہوتی محسوس ہوئی تو اس سمندر نے خشکی پر جیسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ۔ پھر قلم اور کاغذ کا تال میل بنانا شروع کیا لفظوں نے خیالوں کا ساتھ نبھایا اور وہ بہت دیرینا کہیں پوشیدہ خواب تھا اپنے تکمیل کیلئے جدوجہد کرتا نکل کھڑا ہوا ۔ شہر کہاریاں سے تعلق رکھنے والے ادب کے قدردان محترم گل بخشالوی صاحب نے حوصلہ افزائی کی اور دریچہ ادب پاکستان کے قمر ہمدانی صاحب نے بھی ہماری ادبی خدمات کو سراہا ۔ اس طرح سے ہم نے اپنے لکھے گئے کلام کو ایک جگہ جمع کیا اور مزین ہیں میرے خواب تخلیق پاگئی ۔

یوں تو لکھنے والے کو جو اپنے دل اور روح کی تسکین کیلئے لکھتے ہیں انہیں کسی پذیرائی کا قطعی کوئی انتظار نہیں ہوتا یہ لوگ اپنے آپ میں انجمن ہوتے ہیں لیکن جب بات عوامی رد عمل کیلئے پیش کی جائے تو کچھ ایسے حوالے ضرور پیش کئے جاتے ہیں جن سے بات میں وزن بڑھ جائے اسی طرح سے کتاب کا وزن بڑھانے کیلئے اپنے افکار و اشعار کی ترجمانی کیلئے قدآور شخصیات کی رائے کو شامل ضرور کیا جاتا ہے ۔ نزہت ناز صاحبہ کی کتاب پر جن قابل احترام اہل قلم نے اپنی قیمتی رائے سے نوازا ہے ;234;

محمود شام صاحب نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں نزہت صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نزہت جہاں ناز کے جہانِ ناز میں سیاحت کا پہلا اتفاق ہے مگر حیرتیں ہر قدم دامن دل تھامتی ہیں ، تشبیہات ہاتھ پکڑ لیتی ہیں ، تلمیحات کچھ لمحے رکنے کا تقاضا کرتی ہیں ، استعارے تو ساتھ لے اڑنے کی مسلسل دعوت دیتے ہیں ، زبان بہت سادہ ہے ، مضامین کی وسعتیں لامحدود، بے حد خوشی ہورہی ہے کہ اقلیم سخن میں ایک اور فرمانروا داخل ہورہا ہے ۔

نہ جانے کب سے ادھورے ہیں خواب آنکھوں میں
تمہاری چاہتوں میں سب حدوں سے ہم گزر جائیں

پلک تلے جو ترستی ہے سمگیں خواہش
کریں گے پار ہم دریا کبھی صحرا محبت میں

پروفیسر اعتبار ساجد صاحب لکھتے ہیں کہ کئی گل بہ گل دریچوں نے اپنی مسحور کن خوشبو سے مجھے ایسا رارفتہ کیا کہ بے ساختہ میں نے دل کی آواز کو قلم کی زبان دے دی ۔ جدید شاعری میں اپنا ایک الگ مقام رکھنے والے فرحت عباس شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے ناز صاحبہ کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے ان کی شاعری کیساتھ لگن قابل قدر ہے ان کی شاعری میں جذبات کا اظہار بہت سادگی اور معصومیت کے ساتھ غزلوں میں ڈھلتا ہے ۔ انجم عثمان صاحب نے کیاخوب لکھا کہ نزہت کو نہ صرف یہ کہ لفظیات برتنے کا فن آتا ہے بلکہ ان کا فکری اثاثہ بھی قابل ذکر حیثیت کا حامل ہے ۔ دریچہ ادب پاکستان کے بانی محترم قمر ہمدانی صاحب کہتے ہیں کہ مزین ہیں مرے خواب میں شامل غزلوں اور نظموں کو پڑھا تو احساس ہوتا ہے کہ نزہت کی غزلوں میں الفاظ، علامات اور استعاروں کا توازن اور خوبصورت مزین امتزاج پایاجاتا ہے ۔ نزہت صاحبہ کے آباواجداد کے وطن حیدرآباد دکن سے سید مسرور عابدی صاحب نے بہت ہی نفیس انداز میں نزہت صاحبہ کے فن کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ جب تک روح میں پگھلاءو نہیں آتا ، الفاظ کے جگنو نہیں چمکتے ۔ شاعری میں درد خواہی کی منزل سے گزرنا ضروری ہے ;234; درد انسان کا تہذیبی سرمایہ ہے بلکہ اس کی شخصیت میں سدا بہار اضافہ ہے ۔ جب شاعرکی آنکھ اپنے تصورات کا دائرہ کھولتی ہے تو لب دریائے سخن ، لفظوں کے سفینے رکنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا مختصر اقتباس یہ ہے کہ جس شاعرہ کی غزلیں ناز بردار استعاروں کا، لفظی قرینوں کا، متعدد سلیقوں کا گلدستہ ہو اور فکر و فن میں انتہا کا توازن ہو، جس کے فکری منطقے اور فنی زاوئے اپنی مثال آپ ہوں وہ کرشمہ ساز نہیں تو پھر کیا ہے ۔ گل نوخیز اختر صاحب نے لکھا کے مجھ ذاتی طور پر شاعری میں ندرتِ اظہار بہت پسند ہے ۔ بات کہنے کا نیا انداز اور مصرعوں کا نیا دور و بست ہمیشہ مجھے محظوظ کرتا ہے ۔ نزہت جہاں ناز کے ہاں یہ تازگی جا بجا ملتی ہے ۔

بے چین ہو جو دل تو سکوں خاک رہے گا
گر ہو نہ رفو زخمِ جگر چاک رہے گا

کٹ تو گیا سراب کی جانب سفر مگر
اک ریگزارِ ہجر کہ حدِ نگاہ تھا
محرمِ راز بنا تھا وہ جو تنہائی کا
ہر بھرم توڑ دیا اس نے شناسائی کا

مزین ہیں مرے خواب کی رونمائی آرٹس کونسل کراچی کے حسینہ معین ہال میں ایک پر رونق و باوقار تقریب میں ہوئی جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری صاحب نے کی ، مہمانِ خصوصی پروفیسر شاداب احسانی صاحب ، مہمانِ اعزازی جناب فراست رضوی صاحب نے تقریب میں شرکت کی اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت اور حالات جنہیں پسپہ نہیں کرپاتے نزہت جہاں ناز صاحبہ بھی ان میں سے ایک ہیں ۔ ہ میں امید ہے مزین ہیں مرے خواب کا سلسلہ جاری و ساری رہیگا اور شعر ادب کی زمین میں نزہت ناز صاحبہ یونہی محبتوں کے بیج بوتی رہینگی ۔ تقریب کی کچھ تصویری جھلکیاں ۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply