اللہ تعالی کے لیے ‘خدا’ کے اسم کا استعمال /ابو یحیی

پچھلے دنوں ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ گفتگو کے دوران میں انھوں نے یہ بیان کیا کہ میری کتابیں جب وہ بعض لوگوں کو دیتے ہیں تو وہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’خدا‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’خدا‘ کا استعمال اس کی توہین کے مترادف ہے، اس لیے وہ میری کتابوں اور تحریروں کو مفید سمجھنے کے باوجود دوسروں تک نہیں پہنچا سکتے۔ یہ صرف ایک ہی واقعہ نہیں ہے، بہت سے لوگ مجھ سے لفظ ’خدا‘ کے استعمال کے بارے میں ایسی ہی راے کا اظہار کرچکے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس اہم مسئلے پر تفصیل سے بات کی جائے۔
قرآن کا فیصلہ
اللہ تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں، کس نام کو اس کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اور کس کو نہیں، اس کا فیصلہ نزول قرآن کے وقت ہی ہوگیا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’الرحمٰن‘ بیان ہوا ہے۔ ’الرحمٰن‘ کا لفظ عربی زبان کا معروف لفظ تھا جس سے مشرکین عرب واقف تھے۔ تاہم ذات باری تعالیٰ کے لیے وہ ’اللہ ‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے، جب کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے طور پر ’الرحمٰن‘ کا لفظ زیادہ تر اہل کتاب میں استعمال ہوتا تھا۔ قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پر اس نام کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے طور پر استعمال کیا۔ مثلاًسورۂ رحمٰن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’الرحمٰن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔‘‘ (۵۵: ۱ -۲)
جب قرآن نے لفظ ’الرحمٰن‘ کو استعمال کیا تو مشرکین عرب، جو مخالفت پر تلے بیٹھے تھے، انھوں نے اس بات کو اچھالنا شروع کر دیا۔ قرآن کریم میں مشرکین کے ردعمل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں: الرحمٰن کیا ہے؟ کیا ہم اس چیز کو سجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دیتے ہو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھا تی ہے۔‘‘(الفرقان ۲۵ :۶۰)
یہ چونکہ توحید کا مسئلہ تھا، جس کی وضاحت قرآن کا بنیادی موضوع ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی کہ اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذات باری تعالیٰ کو پکارنا غلط ہے۔ فرمایا:
’’اے نبی، انھیں بتادو تم اللہ کہہ کر پکارو یا الرحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔‘‘( بنی اسرائیل ۱۷ : ۱۱۰)
یہ آیت ٹھیک اس مسئلے کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ دے دیتی ہے جو لفظ ’خدا‘ کے حوالے سے آج درپیش ہے۔ یہ نص قطعی ہے جو صاف بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف ’الرحمٰن‘ کہہ کر پکارنا درست ہے، بلکہ ہر وہ اچھا نام جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے لیے کسی زبان، علاقے یا قوم میں رائج ہے، اس نام سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص قوم یا علاقے کے رب نہیں، بلکہ رب العٰلمین ہیں۔ ان کا تصور ہر گروہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں، مگر ان سب ناموں سے مراد ایک ہی ہستی ہوتی ہے، جسے اہل عرب نزول قرآن کے وقت اللہ کہتے تھے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے زمین کا تصور ہر قوم ، گروہ اور علاقے میں پایا جاتا ہے، مگر اہل عرب اسے ارض، انگریز ارتھ اور ہم لوگ زمین کہتے ہیں۔ کیا ان تین مختلف ناموں سے زمین کے تصور میں تبدیلی آگئی؟ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کی ہے۔ اب صرف ایک سوال کا جواب باقی ہے کہ کیا ہماری زبان میں ’خدا‘ کوئی اچھا لفظ ہے یا نہیں؟ اس کا جواب ہمیں لغت میں مل جاتا ہے۔ ’’اردو ڈکشنری‘‘ بورڈ کی شائع کردہ اردو زبان کی سب سے بڑی اور مستند لغت میں ’خدا‘ کے لفظ کے تحت لکھا ہے:
’’بندے کے مقابل، خالق کائنات کا ذاتی نام اور خود اس کی ذات جس کے صفاتی نام ننانوے ہیں اور جو اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، وہ یکتا ہے اور اس کا مثل کوئی نہیں۔‘‘(۸/ ۴۶۰)
کیا اس وضاحت کے بعد لفظ ’خدا‘ کے استعمال کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے؟ اردو لغت والوں نے ’خدا‘ خدا کے یہ معنی گھر بیٹھے تخلیق نہیں کیے ہیں۔ اہل زبان جب کبھی لفظ ’خدا‘ کو زبان سے ادا کرتے ہیں؛ وہ جب خدا کی قسم کھاتے ہیں؛ وہ جب گواہ بناتے ہیں، ان کے ذہن میں اللہ کے سوا کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔ کسی زبان کی اصل سند اس کے اساتذہ کا کلام ہوتا ہے۔ دیکھیے کہ اردو زبان کے ائمہ کس طرح ’خدا‘ کے لفظ کو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میر کا شعر ہے:
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
غالب کہتے ہیں:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال کہتے ہیں:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
دور حاضر کے معروف نعت و ثناخواں شاعر مظفر وارثی کی حمد کا یہ شعر تو بچے بچے کو یاد ہے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے
یہ اشعار جب سنے جاتے ہیں تو ذہن میں، سواے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔
انبیا کا طریقہ
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۱۱۰ اس بحث میں فیصلہ کن ہے، مگر ذرا اور آگے چلیے اور دیکھیے کہ انبیا کا طریقہ کیا تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ’اسرائیل‘ تھا۔ یہ لفظ دو اجزا سے مرکب ہے: اِسر اور اِیل۔ قدیم عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کو ’اِیل‘ کے لفظ سے پکارا جاتا تھا، جب کہ اِسر کے معنی بندے کے ہیں۔ سو ان کے لقب اسرائیل کا مطلب ہوا: ’ایل‘، یعنی اللہ کا بندہ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔ ۸۶ برس کی عمر میں ان کی دعا کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹا عطا فرمایا تو آپ نے ان کا نام اسمٰعیل رکھا۔ اس نام کا مطلب ہے کہ ’اِیل‘، یعنی اللہ تعالیٰ نے سنا۔
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان انبیا کے زمانے میں اس بات پر کوئی ممانعت نہیں کی، بلکہ قرآن میں ان دونوں ناموں کو ذکر کرکے قیامت تک اس حقیقت پر مہر صداقت ثبت کر دی کہ کسی زبان میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو لفظ بھی رائج ہے، اللہ تعالیٰ کو وہ قبول ہے۔ چاہے وہ عربی لفظ ہو یا عبرانی، ہندی ہو یا یونانی، اردو ہو یا فارسی۔ اللہ کی کوئی زبان نہیں۔ ساری زبانیں اسی کی ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے لیے عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے لفظ کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وگرنہ لازماً قرآن ان پیغمبروں کے نام بدل کر استعمال کرتا یا انھی پیغمبروں کے زمانے میں ان کے ناموں کی تصحیح کرادیتا۔
لفظ ’خدا‘ کے استعمال کی مبینہ قباحتیں
عام طور پر یہ بیان کیا جاتاہے کہ لفظ ’خدا‘ میں بڑی شرعی قباحتیں ہیں۔ مثلاً یہ غیراللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ فارسی میں بدی کی طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
آئیے، لفظ ’خدا‘ پر ان اعتراضات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں لفظ ’خدا‘ جب تنہا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی ہستی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ہم نے اردو زبان میں ’خدا‘ کے معنی کے تحت بیان کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ بدی کی طاقت کے لیے فارسی زبان میں لفظ ’اہرمن‘ استعمال ہوتا ہے، نہ کہ ’خدا‘ کا لفظ۔ ’خدا‘ کا لفظ تنہا جب کبھی آتا ہے، اس کے معنی کبھی بدی کے خدا کے نہیں ہوتے۔ تاہم اردو اور فارسی زبان میں لفظ ’خدا‘ مالک، بادشاہ اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں اردو اور فارسی، دونوں زبانوں میں لفظ ’خدا‘ کے ساتھ کوئی اور لفظ ملتا ہے اور غیراللہ کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ جیسے فارسی میں بدی کی طاقت کو خداے اہرمن کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں میر تقی میر کو خداے سخن کہا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ’خدا‘ کے لفظ کی جمع بھی اردو زبان میں مستعمل ہے۔
مگر کیا ان وجوہات کی بنا پر لفظ ’خدا‘ کا استعمال غلط ہوگیا؟ ہرگز نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے عربی کا ایک ایسا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے، جس میں نہ صرف یہ ساری مبینہ قباحتیں پائی جاتی ہیں، بلکہ کچھ مزید قباحتیں ہیں، جو لفظ ’خدا‘ میں نہیں ہیں۔
قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کو ’رب‘ کہا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں منقول بے شمار دعائیں اس لفظ سے شروع ہوتی ہیں، مگر یہ لفظ انسان کے لیے عربی میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورۂ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام سے دو قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انھوں نے تعبیر دیتے وقت ان کے آقا کے لیے جو لفظ کہا، قرآن نے اس کے لیے ’رب‘ کا لفظ استعمال کیا:
اَمَّا٘ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا. (۱۲: ۴۱)
’’تم میں ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔‘‘
اسی آیت سے ذرا قبل ہی اس لفظ کی جمع ’ارباب‘، اہل مصر کے ان دیوی دیوتاؤں کے لیے استعمال کی گئی، جنھیں اہل مصر پوجتے تھے:
ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ. (یوسف ۱۲: ۳۹)
’’کیا بہت سے جدا جدا رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔‘‘
جمع کے علاوہ اس لفظ کی مونث بھی عربی میں مستعمل ہے، جب کہ لفظ ’خدا‘ کم از کم اس عیب سے تو بری ہے۔ ایک بہت مشہور حدیث جسے حدیث جبریل کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ ہیں۔
أن تلد الأمة ربتھا.(مسلم، رقم ۸)
’’( قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔‘‘
جب اس سب کے باوجود قرآن نے بلاجھجک اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے تو ’خدا‘ کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اردو زبان میں یہ لفظ اب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوچکا ہے۔ جسے اس بات میں شبہ ہو، وہ اپنے استاد، دفتر یا دکان کے مالک یا صدر مملکت کو اس لفظ سے پکارے اور دیکھے کہ اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
مسئلہ دعوت دین کا ہے
ہمارے ہاں بغیر کسی معقول اور روشن دلیل کے یہ نقطۂ نظر قائم کرلیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ ہمارے نزدیک اس قسم کا نقطۂ نظر اللہ تعالیٰ کو اپنا قومی معبود قرار دینے کے ہم معنی ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی دعوت کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ اس کے بعد ایک مسلمان جب دعوت دین کے لیے اٹھے گا تو وہ کسی انگریز عیسائی کو یہ بتائے گا کہ تم جس ہستی کو God کہتے ہو، بالکل غلط ہے۔ تمھیں میرے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اسی طرح وہ ایک ہندو سے کہے گا کہ تم ایشور (سنسکرت میں اللہ تعالیٰ کا نام) کے ماننے والے ہو، جب کہ تمھیں اللہ کو ماننا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں دوسرا فریق یہ سمجھے گا کہ مجھے میرے معبود سے ہٹا کر کسی اور معبود کی طرف لایا جا رہا ہے۔ پھر اس کے دل میں ایک اجنبیت اور وحشت پیدا ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہی اجنبیت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔
یہی سبب ہے کہ انبیا کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ کبھی نام پر بحث نہیں کرتے، شرک پر بحث کرتے ہیں۔ ان صفات پر بحث کرتے ہیں جو اللہ سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔ آپ قرآن میں کبھی اس گفتگو کو پڑھیے جو انبیا و رسل اور ان کی اقوام کے بیچ میں ہوئی ہے۔ اس میں سارا زور توحید کو منوانے پر ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ تمام رسول اپنی قوم کی زبان ہی بولتے تھے (ابراہیم ۱۴: ۴)۔ ان رسولوں کی اقوام اپنی زبان میں یقیناً اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پکارتی ہوں گی۔ وہ رسول بھی اسی نام سے اللہ کو پکارتے تھے، مگر وہ کہتے تھے کہ تم جسے رب العٰلمین مانتے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تنہا اسی کی عبادت کرو۔
آج ہمارے لیے بھی یہی طریقہ آئیڈیل ہے۔ اور ہم اس طریقے پر تب ہی عمل کرسکتے ہیں جب ہم ظواہر پرستی سے باہر نکل کر یہ جان سکیں کہ اللہ ایک ہے اور سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔ پھر یہ ممکن ہوگا کہ ایک امریکی کو ہم یہ بتا سکیں گے کہ تم ’ God‘ کی عبادت کرتے رہو، لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیراؤ۔ کسی کو اس کا بیٹا اور بیوی نہ قرار دو۔ ایک ہندو کو ہم بتا سکیں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خالق کائنات ’ایشور‘ ہی ہے، مگر دیکھو اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا یا اوتار کو معبود نہ مانو۔
اس کے بعد وہ شخص جب اسلام قبول کرکے نماز پڑھے گا، قرآن پڑھے گا، دین کے مقرر کردہ دیگر اعمال ادا کرے گا تو وہاں وہ اللہ ہی کا نام لے گا، مگر یہ حق کسی کو نہیں کہ وہ اس کی زبان بدلوانے کی کوشش کرے۔ اسے اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان میں اللہ کو جو چاہے کہہ کر پکارے، کیونکہ سارے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں۔ یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور کوئی اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بُک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply