قصّہ شہر بدری کا(2)-شکور پٹھان

تم بس دن بھر آرام کیا کرو اور شام کو فلم دیکھنے چلے جایا کرو۔چچا نے کہا۔

اور میں نے یہی کیا۔ ایک سعادتمند بھتیجے کی طرح چچا کی بات پر پوری طرح سے عمل کیا۔ سارا دن سوتا رہا یا بچوں سے کھیلتا رہا، بھابی یعنی چچی سے گپ شپ کرتا رہا۔ شام کو چچا آئے۔ کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجھے فلم والی بات یاد آئی۔

“ سنیما یہاں سے کتنی دور ہے” میں چچا کو فلم کی طرف لانا چاہ رہا تھا۔
“ یہاں سب کچھ پیدل فاصلے پر ہے۔ تم آرام سے ٹہلتے ہوئے جاسکتے ہو” چچا نے کہا اور سامنے بنے ہوئے شیلف پر کچھ تلاش کرنے لگے۔ اب ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا۔ چچا اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔

“ اس وقت صرف “ لولوء” میں فلم مل سکتی ہے۔” چچا گھڑی دیکھتے ہوئے بولے۔
“ کونسی فلم لگی ہے وہاں” چچی نے پوچھا۔
“ گائے اور گوری۔ تم دیکھو گے؟ جیا بھادری اور شتروگھن سنہا ہیں” چچا نے پوچھا۔

کون جیا بھادری اور کون سا شتروگھن سنہا ؟ مجھے بھلا کیا خبر کہ  یہ کیسے اداکار ہیں اور دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔ مجھے تو فلم دیکھنے سے مطلب تھا۔ “انڈین فلم” جسے دیکھ کر اپنے پہلے ہی خط میں دوستوں کو فخر یہ بتاؤں گا۔

“ جلدی سے کھانا کھالو ، تمہیں وہاں چھوڑ آتا ہوں “ چچا نے ہدایت کی۔
اور میں یہ بھول گیا کہ میں کراچی سے یہاں کیوں آیا ہوں۔ نوکری سے متعلق اب تک چچا سے ایک سوال بھی نہیں کیا تھا۔ کچھ پوچھا تھا تو صرف فلموں کے بارے میں۔ اور یہ سن پچھتر کی بات تھی جب میں اکیس سال کا تھا اور دو دن بعد بائیس کا ہونے والا تھا۔

ایک قدیم حویلی نما عمارت کے سامنے چچا نے اتار کر میرے ہاتھ میں بہت سارے دینار تھما دئیے۔ ایک جانب اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں سے ٹکٹ ملے گا۔
“ واپسی میں یہاں سے سیدھا چلتے ہوئے آؤ۔ جامع مسجد سے پہلے والی گلی میں اپنا گھر ہے۔ گھر یاد ہے ناں کہاں ہے؟” چچا نے راستہ سمجھایا۔
“ جی، جی، فکر نہ کیجئے۔ میں پہنچ جاؤں گا” میری توجہ ٹکٹ گھر کی طرف تھی۔
۴۰۰ فلس۔۔
ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے اوپر لکھا ہوا۔ میں نے پہلی بار بحرینی دینار کی طرف دیکھا۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ چار سو فلس کتنے ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ میں دینار دیکھ کر کھڑکی کے پیچھے بیٹھے شخص نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے دینار اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ سامنے رکھی مشین پر ایک بٹن دبا کر اس نے ہمارے ریل کے ٹکٹ جیسا ٹکٹ برآمد کیا اور چھ سّکے میرے حوالے کیے۔ یہ سو سو فلس کے سکے تھے۔ میں نے اب تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ ایک دینار میں کتنے فلس ہوتے ہیں۔

فلم شاید پہلے ہی شروع ہوچکی تھی۔ یہ بہت ہی پرانا سنیما تھا۔ ایئرکنڈیشنڈ تو دور کی بات ، اس میں پنکھے بھی نہیں تھے۔ سردیوں کے دن تھے اور پنکھوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہال میں لوگ بے دھڑک سگریٹ پی رہے تھے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ گرمیوں میں یہ سنیما برابر کے بغیر چھت کے ہال میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہاں صرف ایک شوہوتا تھا۔ سات سے دس بجے تک کا۔

کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فلم میں کیا ہورہا ہے۔ اسکرین پر نیچے کی جانب عربی اور انگریزی سب ٹائٹل دکھائے جارہے تھے۔ میری توجہ عربی تحریر پر تھی۔ سوچا کہ اس طرح عربی سیکھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ فلم ایویں سی تھی۔ یا شاید کہانی میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ہیروئن بہت زیادہ خوبصورت تو نہیں تھی لیکن اداکاری اچھی لگ رہی تھی۔ ہیرو بڑا عجیب و غریب تھا۔ پاکستان میں وحید مراد، محمدعلی، ندیم، شاہد، درپن جیسے خوبصورت ہیرو دیکھے تھے۔ اس ہیرو کی نہ تو کوئی شکل وصورت خاص تھی نہ ہی رنگت صاف تھی۔ یہ ہیرو کم ولن بلکہ بدمعاش زیادہ نظر آرہا تھا۔ فلم میں کوئی زیادہ مزہ نہ آیا البتہ ہندوستانی فلم دیکھنے کی ٹھرک پوری ہونے کی خوشی تھی۔

سنیما سے باہر نکلا تو باہر بارش ہورہی تھی۔ گیٹ پر کھڑا ہوکر سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ پیدل چل دوں یا بارش رکنے کا انتظار کروں ؟ اچانک کسی کار کے ہارن کی آواز سنائی دی۔دائیں جانب سڑک کنارے کھڑی کار کی کھڑکی سے چچا اپنی طرف بلا رہے تھے۔

“ باب البحرین”
“ بس اسے یاد رکھنا “چچا نے ایک بڑی سی محراب نما عمارت دکھائی۔ “ یہاں سے بڑی مسجد کی جانب چلو گے تو اپنا گھر آجائے گا”۔
باب البحرین ، منامہ کا مرکز تھا۔ منامہ بحرین کا دارلحکومت ہے۔ باب البحرین کے سامنے پوسٹ آفس تھا جس کے عقب میں اور دائیں بائیں بازار تھا۔ دوسری جانب ایک سڑک چھوڑ کر سمندر تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بینک، ہوٹل اور کچھ جدید عمارات تھیں۔

اگلی دن شام کو میں اکیلا ہی باہر نکل گیا۔ جیب میں چچا کے دئیے ہوئے دینار وافر مقدار میں تھے۔ گھر اور مسجد کے درمیان والی سڑک پر چلتا ہوا ایک چوک کی جانب جا نکلا جہاں بہت ساری سڑکیں آپس میں مل رہی تھیں۔ دائیں جانب “ الحمرا” اور “ النصر” سنیما تھے۔ یہ بھی بہت پرانے تھے لیکن “ لولو” سے بہتر اور بڑے نظر آرہے تھے۔ بائیں جانب ایک پُررونق گلی چلی جارہی تھی۔ گلی میں کچھ دور چل کر “ بحرین “ سنیما تھا۔ اس کی بھی چھت نہیں تھی۔ لیکن اس کے مقابل ایک جدید ترین اور خوبصورت سنیما “ اوال” تھا۔

یہاں سنیماؤں کے باہر فلموں کے بورڈ نہیں لگے ہوتے تھے۔ہرروز نئی فلم لگتی تھی۔البتہ اوال سنیما میں نئی فلم تین دن کے لیے بھی لگتی تھی۔ بحرین سنیما کمپنی ایک پندرہ روزہ کتابچہ جاری کرتی تھی جو مفت دستیاب تھا جس میں ہر پندھرواڑے کی آنے والی فلموں اور سنیماؤں کی تفصیل ہوتی تھی۔ چچا نے اسی میں دیکھ کر مجھے “ گائے اور گوری “ دیکھنے بھیجا تھا،۔ٹکٹ گھر کے ساتھ ایک بورڈ پر اندر چلنے والی فلم کی تصویریں تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر تصویریں ملاحظہ کرنا شروع کیں۔ یہ بلیک اینڈ وہائٹ تصویریں “ چوری چوری” فلم کی تھیں۔ اداکار تھے نرگس اور راج کپور۔

پاکستان میں تھے تو ہندی فلموں میں صرف دلیپ کمار کے نام سے آشنا تھے۔ راج کپور اور دیوآنند کے بھی نام سنے ہوئے تھے لیکن یہ کس قسم کی چیزیں ہیں کچھ زیادہ علم نہ تھا۔ اپنے سے بڑے دوستوں سے دلیپ کمار کی تو بہت تعریفیں سنتے لیکن راج کپور کے بارے میں کبھی اچھی باتیں نہ سنیں۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ فلم دیکھوں یا نہ دیکھوں۔
“ دفع کرو” دل میں سوچا اور سنیما سے باہر آکر بازار کی جانب چل دیا۔

اپنی شان استغنا پر غور کرتا رہا کہ کراچی میں کبھی یہ نہ سوچا کہ فلم اچھی ہے یا بری۔ بس فلم دیکھنے کا موقع مل جائے چاہے وہ ندیم م وحید مراد کی ہو یا مصطفی قریشی اور سلطان راہی کی۔ اور آج میں انڈین فلم کو چھوڑ رہا تھا۔ اس کی وجہ شاید راج کپور تھا۔ اس کے بعد میں نے شاید بحرین میں راج کپور کی صرف ایک یا دو فلمیں ہی دیکھیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا فلم اور سنیما کی باتیں لے بیٹھا اور کیا میں واقعی اس قدر فلموں کا شوقین تھا۔ دراصل بحرین کے شروع کے تین چار دن صرف فلمیں دیکھتے ہی گزرے اور وہ اب تک ذہن کے پردے پر نقش ہیں۔ بے شک ان دنوں فلموں کا شوق جنون کی حد تک تھا لیکن اب تیس سال ہوگئے ہیں کوئی فلم سنیما میں نہیں دیکھی۔اب بھی ٹی وی یا یوٹیوب پر مارے باندھے کوئی فلم دیکھوں بھی تو کئی قسطوں میں دیکھتا ہوں۔ اور فلمیں بھی وہ دیکھتا ہوں جنہیں کوئی اور نہیں دیکھتا یعنی آرٹ فلمیں اور سستے بجٹ کی چھوٹی چھوٹی فلمیں۔

اور اب بازار میں چلتے ہوئے میں نے پہلی بار بحرین کو ایک سیاح کی نظر سے دیکھنا شروع کیا۔اوال سنیما کی وجہ سے گلی بہت روشن تھی۔ لیکن بازار میں آکر باب البحرین کی جانب چلتے ہوئے ، نیم تاریک گلیوں اور سڑکوں پر بنے پرقدیم طرز کے مکان ، دکانیں اور قہوہ خانے ایک اور ہی دنیا میں لے گئے۔

یہ ایک عجیب سی الف لیلوی اور افسانوی سی گلیاں تھی۔ شاید وہ جنہوں نے دلی اور لاہور کے پرانے محلوں اور کٹڑوں میں بنے چوباروں کو دیکھا ہو یا وہ جن کی زندگی دلی کے محلہ چتلی قبر، اندرون لاہور اور پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گذری ہو وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیسا پر فسوں ماحول ہوگا۔ یہ آج سے پینتالیس سال، یا یوں کہیں کہ تقریباً نصف صدی پہلے کا بحرین تھا۔ پورے منامہ میں گنتی کی جدید عمارات تھیں ورنہ تو یہ قدیم کہانیوں والا شہر لگتا تھا جس کے کوچہ و بازار ، مکانوں اور ان کے درودیوار سے قدامت اور کہنگی ٹپکتی تھی ۔

اور یہ ماحول مجھے بہت بھایا۔ اگر جدید شہر دیکھتا تو شاید مرعوب ہوجاتا، احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا لیکن دل میں کوئی دوستانہ جذبات پیدا نہ ہوتے۔ یہ شکستہ سے پرانے گھر، تنگ سی نیم اندھیری گلیاں ، پرانی طرز کے قہوہ خانے جن کے باہر ملگجی سی روشنی میں عربی طرز کی بینچوں پر بیٹھے بوڑھے عرب شطرنج اور دمنہ ( ڈومینو) کھیلنے میں مصروف تھے۔ ان کے قریب شیشہ ( حقے) اور چھوٹے چھوٹے دلہ اور فنجان دھرے ہوئے تھے۔ ایک عجیب بے فکری اور سکون کا عالم تھا۔ گلیوں اور سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی کم تھا اور ہارن کا شور تو بالکل ہی نہیں تھا۔

ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ دیکھ کر جی چاہا کہ چلو آزما کے دیکھتے ہیں۔ ملباری پراٹھا تو خوب تھا، لیکن سالن میں وہ مزہ نہیں تھا۔ البتہ چائے زبردست تھی اور وہ دن ہے جب سے ملباری چائے کے عشق میں مبتلا ہوں۔ ایک اور جگہ ٹھہر کر ایک جوس پیا۔ جیب میں اب بھی کچھ دینار موجود تھے۔ اب یہ بھی علم ہوگیا کہ ایک دینار میں ہزار فلس ہوتے ہیں لیکن سو فلس کو یہاں ایک روپیہ ہی کہا جاتا ہے۔ اور آگے چل کر یہ بھی پتہ چل گیا کہ کسی چیز کی قیمت کم بتانی ہو تو دینار میں بتائی جاتی کہ ڈھائی دینار کی ہی تو ہے۔ لیکن اگر یہی قیمت زیادہ بتانی ہو تو کہتے کہ پچیس روپے کی ہے۔ یہ پچیس روپے اور ڈھائی دینار ایک ہی چیز تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح کی اور بھی بہت سی باتوں کا علم ہونا تھا لیکن ساری باتیں آج تو نہیں بتا سکتا۔ آگے اور بھی بہت کچھ ہے اس وادئ ندا میں جہاں سے پلٹ کر کوئی واپس نہیں آتی۔
جاتی ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply