• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ہماری ترجیحات۔۔سید عمران علی شاہ

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ہماری ترجیحات۔۔سید عمران علی شاہ

دنیا جس رفتار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے وہ نا صرف حیران کن ہے بلکہ کسی حد تک تشویشناک بھی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ترقی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔
اگر اس برق رفتار ترقی کا احاطہ کیا جائے تو تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کے اثرات نمایاں دیکھنے میں آتے ہیں،
جدید ٹیکنالوجی نے سفر کو آسان بنا دیا، ٹیلی کمیونیکیشن کی جدت نے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں کو سوشل میڈیا، موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت ایک دوسرے کے قریب کر دیا،
جدید ٹیکنالوجی کے فروغ نے کاروبار کا نہ صرف انداز بدل دیا بلکہ اس کو مزید سہل اور پہلے سے کہیں مؤثر بنادیا ہے،
جی پی ایس کے استعمال نے سمندروں، دریاؤں، صحراؤں، ریگزاروں اور کوہساروں کے تمام اونچ نیچ اور خدوخال کو با آسانی ماپ لیا ہے،
سائنسی ترقی نے انسان کی زندگی کو تقریباً آن لائن کردیا ہے گھر کی سبزی سے لے جہاز کے ٹکٹ کی بکنگ تک  سب آن لائن مل جاتا ہے،
مگر اس ترقی کے ثمرات تیسری دنیا کے ممالک تک اتنے مؤثر انداز میں نہیں پہنچ پائے, اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں سب سے اہم کمزور اور قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت ہے،
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت روز اول سے ہی مشکلات کا شکار رہی،
اس وقت پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کے چیلنج کا سامنا ہے، کہ جس وجہ سے جہاں صحت کے بے تحاشا مسائل نے  جنم لیا ہے وہیں معیشت، کاروبار اور دیگر عوامل بھی شدید متاثر ہوئے ہیں،
جس میں خوراک کی قلت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو کہ دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو درپیش ہے،
پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بدترین انداز میں متاثر ہوئی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی جیسی اس دور میں ہے اس کی نذیر تاریخ انسانی میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، کچھ ممالک میں صرف اور صرف سردی ہوتی ہے تو دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں کہ جہاں کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے،
جنوبی ایشیا میں زیادہ تر گرم مرطوب آب و ہوا کا دور دورہ رہتا ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بدلتے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے بہترین مفاد میں بہت زبردست حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور اس ضمن میں نہایت ٹھوس اقدامات کیے، جیسے کہ موسمی اثرات سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کیا، اپنے رہن سہن کو ڈھالا، آبی ذخائر میں اضافے حصول جدید خطوط پر ڈیمز کی تعمیرات کیں ، زرعی شعبہ جات میں تحقیق اور عرق ریزی کر کے موسمی حالات سے مقابلے کے حامل ہائیبرڈ بیجوں اور فصلات کی تیاری کو یقینی بنایا، اور ان سب سے بڑھ کر جنگلات کی پیداوار میں اضافہ کیا اور عالمی میعار کے مطابق موجود رقبے کا کل 25 فیصد سے پر جنگلات کو اگایا، جو ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور بنی نوع انسان کے سب سے بہترین دوست ہیں، درختوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ یہ ماحول میں موجود آلودگی کو اپنے اندر سمو کر اس ماحول کے انسانوں کے جینے کے لائق بناتے ہیں،
پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے 73 سال کا عرصہ ہوا ہے، پاکستان کو پروردگار عالم نے قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال کیا ہے، ایشیاء کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے ملک میں ہے، جو کسی بھی زرعی ملک کے لیے سب اہم ترین جزو ہے، کیونکہ زراعت کا دارومدار ہی مؤثر نظام آبپاشی پر منحصر ہوتا ہے، پاکستان زرعی ممالک میں سے چاول، چنا اور گندم کی بہترین فصلات کے ساتھ ساتھ آم کی ایکسپورٹ میں بھی ایک مقام کا حامل رہا ہے، اس باوجود بجائے کے ہم زراعت میں ترقی کرکے اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی ثابت کرتے، اس کے بر عکس ہی ہوتا رہا ہے،
پاکستان کا کسان وقت کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی فصل سے منافع تو دور کی بات ہے، لاگت تک بمشکل پوری ہو پاتی ہے،
جب ایک زرعی ملک میں کسانوں کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہوگا تو نتیجتاً، کسان یا تو اپنی زمین بیچ دے گا یا پھر اسے رہائشی کالونی میں بدل دے،
گزشتہ چند سالوں پاکستان میں زرعی زمینوں پر کاشت کو ختم رہائشی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا، جس سے اوسط قابل کاشت رقبے میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے، اس کا سب سے بدترین اثر یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان غذائی قلت کا مزید شکار ہوتا ہوا دکھائی دے گا،
دنیا میں تو باقاعدہ آئین سازی کی جاچکی ہے کہ جو زمین زراعت کے لیے مخصوص ہے وہاں کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی اور خلافت ورزی کی صورت میں سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں،
اب ہمیں بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا،
پاکستان کے ہر ایک شہری کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا،موسمیاتی تبدیلی فرد واحد نہیں بلکہ پورے خطے کو متاثر کررہی ہے،
اس وقت شجرکاری مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے، ملک کے ایک فرد کو اپنے خاندان کے افراد کو اس قومی فریضے میں شامل کر کے نہ صرف شجرکاری کرے بلکہ ان پودوں کو پروان چڑھانے کے لیے انکی بھرپور حفاظت کی ذمہ داری بھی لے،ماہرین کی پیشن گوئیاں ہیں کہ آنے والے وقت میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مزید خطرناک ہوسکتے ہیں، جن جی وجہ سے بہت ساری قدرتی آفات انسانی زندگی کا تہہ تیغ کر سکتی ہیں، چنانچہ حکومت پاکستان، وزارت ماحولیات اور محکمہ جنگلات کو مؤثر عوامی رابطہ سازی مہم چلاکر شجرکاری کو یقینی بنانا ہوگا، اور مستقبل کو سامنے رکھ کر موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے لیے، اسے اولین ترجیح بنانا ہوگا تاکہ پاکستان ترقی کی منازل طے کر پائے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply