کیا طلاق ایک منفی رجحان ہے؟۔۔سیدہ نیّر عامر

کیا  واقعی طلاق ایک منفی رجحان ہے؟
جبکہ خصوصی طور پر ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعے شادی سے پہلے یہ معلوم کیا جا سکے یا کم ازکم اندازہ لگایا جا سکے کہ اس جوڑے کے درمیان ازدواجی ہم آہنگی پیدا ہو سکے گی یا نہیں ۔؟
یا یہ فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کی ایک کڑی ہے۔؟

کچھ عرصہ قبل عدالتی کاغذ پر، ایک خلع نامہ کی تحریر نظر سے گزری۔ اس کی چبھن آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ لکھا تھا، “میں نے بہت کوشش کی کہ یہ تعلق قائم رہے لیکن میری بیوی راضی نہیں ہے لہٰذا اس کا سارا “وبال” میری بیوی فلاں بنت فلاں پر ہو۔

“وبال” یعنی”عذاب”, “گناہ”, “قہر”۔۔

مگر کیوں؟ ایک اعصاب شکن مرحلے سے گزرنے کے بعد لڑکی نے اس تکلیف دہ رشتے کو مزید نہ جھیلنے کا فیصلہ کر لیا، تو وہ کسی عذاب یا گناہ کی مستحق کیوں ٹھہری۔ ؟

شاید اس طرح اس آدمی نے (بلکہ اس کے کسی عزیز یا سرپرست نے) اپنی بھڑاس نکالی تھی۔

ہمارے معاشرے میں طلاق کا فیصلہ کرنے والے مرد یا عورت کے بارے میں منفی تاثر پایا جاتا  ہے،   اسے ظالم اور فریقِ  ثانی کو مظلوم گردانا جاتا  ہے۔ حالانکہ اکثر طلاقیں بے جوڑ شادیوں، غلط معیارات اور ترجیحات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شادی کے وقت بہت سی اہم باتوں کو یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لڑکی کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے۔۔۔ لیکن کسی انسان کے، نئے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے اور اس کی پوری شخصیت کو مسخ کر دینے کی خواہش میں فرق ہوتا ہے۔

اگر شادی کے وقت ہی اس شخصیت کے حامل لڑکے یا لڑکی کا انتخاب کر لیا جائے جو آپ کے مزاج اور ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں تو بعد کے بہت سے مسائل اور الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنا چاہتے ہیں ،تو ہمیں ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی جن کے ذریعے شادی سے پہلے ہی نزدیک ترین اندازہ لگایا جا سکے کہ دو افراد کے درمیان ایسی مضبوط بونڈنگ قائم ہو سکے گی یا نہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کے لیے جسمانی و روحانی آسودگی کا باعث بنیں، اور ایک دوسرے کی معیت میں اپنی تخلیقی اور دیگر صلاحیتوں کو مزید نکھار کر ان کا بھرپور اظہار کر سکیں۔ یہی مضبوط بونڈنگ آگے چل کر اس پختہ حصار اور سائبان کا کردار ادا کرتی ہے، جس کے سائے میں ذہنی و جسمانی طور پر مکمل تندرست و توانا نسل پروان چڑھ سکے۔ نیز معاشرے کو ہر طرح کی محرومی سے آزاد، مستعد اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد حاصل ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اپنے معیارات اور ترجیحات کو بدلنا ہو گا۔ جوانوں کو ان کے فیصلے کرنے کا اختیار دینا ہو گا۔ بزرگ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں مشورہ ضرور دیں لیکن ان کی رائے لیے بغیر، فیصلوں کو ان پر مسلط نہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply