میری ادب سے وابستگی جتنی پُرانی ہے بانو قُدسیہ کے لیے میری محبت بھی اُتنی ہی پُرانی ہے ،بانو قُدسیہ کی لکھاوٹ میں انسان کی پروا کم اور ماں کی پروا زیادہ ہے۔ایک عرصہ دل میں خواہش رہی کہ اِس ممتا سے بھری شخصیت سے روبرو کلام ممکن ہو ،لیکن خواہشات اور اِن کے امکانات میں فرق ہوتا ہے۔
بانو قدسیہ لکھتی ہیں۔
اگر کسی کے سات بیٹے ہوئے، 6 جنت میں گئے اور ساتواں دوزخ میں گیا تو ماں کو جنت میں تلاش نہ کرنا
“وہ ساتویں کے ساتھ دوزخ میں ملے گی”
بانو قُدسیہ 28 نومبر 1928کو فیروزپور(پنجاب )برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے وقت اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ پاکستان تشریف لائیں۔بانو قدسیہ کے سر سے اُن کے والد کا سایہ محض تین سال کی عمر میں اُٹھ گیا اُنکی تربیت اُنکی والدہ نے تن تنہا کی۔بانو قدسیہ نے لکھنا بہت کم عمری میں شروع کیا ۔وہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں جب اُنھوں نے سکول میں ہونے والے ایک مقابلے میں بچوں کے ایک ڈرامے کو الفاظ بخشے۔
بانو قدسیہ کی زندگی کا بہترین پہلو اشفاق احمد ہیں جو ناصرف اُن کے محبوب اور شوہر تھے بلکہ اُستاد بھی تھے۔
بانو قدسیہ کہتیں ہیں کہ
” میں نے لکھنے میں اصلاح کسی سے نہیں لی مگر شادی کے بعد میرے اُستاد اشفاق صاحب ہی رہے ،اُنھوں نے مجھے ایک اُستاد کی طرح ہمیشہ رہنمائی بخشی۔“
بانو قدسیہ نے اُردو اور پنجابی زبانوں میں کئی مقبول ڈرامے لکھے۔ بانو قدسیہ کی مشہور کتابوں میں آتش زیرپا، آدھی بات، ایک قدم، امربیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، دست بستہ، دوسرا دروازہ، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام، کچھ اور نہیں، موم کی گلیاں، ناقابلِ ذکر، پیا نام کا دیا، شہرِ بے مثال، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔
1981میں انہوں نے شہرہ آفاق ناول ’’راجہ گدھ‘‘ تحریر کیا جسے دُنیا کے مقبول ترین ناولوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
اور بانو قدسیہ کی وجہ شہرت بھی ان کا یہی معرکتہ الآراء ناول ’’ راجہ گدھ ‘‘ ہی تھا۔ جس نے حرام اور حلال کے فلسفے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔
راجہ گدھ سے ایک اقتباس ہےـ
’’محبت ،نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے، محبت سادہ لباس میں ملبوس عمر وعیار ہے، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ہے، اُس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشاں گِرا ہوتا ہے، محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ اور کچھ سزا نہیں ہوتی، ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے، محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے، کہیں ٹکتا نہیں، محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے، جب تک روز اُس تصویر میں رنگ نہ بھرو، تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے، روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا۔ اِسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو، رات رہتی ہے۔‘‘
اُردو ادب کی لازوال خدمات پر انہیں 2003ء میں ستارہ امتیاز اور2010ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
بانو قدسیہ نے محبت کو نا صرف لفظوں میں پروایا بلکہ محبت جیسے قد آور پودے کی مہربان لفظوں اور سوچ سے آبیاری کی ہے۔
بانو قُدسیہ لکھتی ہیں۔۔
”محبت کے خواب صرف ان ہی کے پورے ہوتے ہیں ،جو اپنے لئے کچھ طلب نہیں کرتے۔ جو محبت کرتے ہیں، مانگتے نہیں۔“
(بانو قدسیہ۔ ’’امربیل‘‘ سے اقتباس)
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ بانو کہتی ہے کہ
” محبت میں کسی کو چھوڑنا اُسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔“
اُردو ادب کی اِس ماں کا انتقال 88 برس میں 4 فروری 2017 کو لاہور میں ہوا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں