بھروسہ/عارف خٹک

بڑے بوڑھوں کی کہی گئیں باتیں بالکل صحیح ہوتی  ہیں۔ ہمارے آبا ؤ اجداد جب ہمیں اپنے تجربات کی بِنا پر پندونصائح فرمایا کرتے تھے تو ہماری ہنسی چھوٹ جاتی کہ پرانے زمانے کے لوگ زمانہ جدید کے تقاضوں کو کیا جانیں، بیچارے سیدھے سادے ہیں۔ جیسا کہ دادا حضور فرمایا کرتے تھے کہ بیوی کو جس نے دوست بنا کر رکھا وہ ذلیل و رسوا ہوا۔ جس نے دل کی بات اپنے قریبی لوگوں سے کہہ دی سمجھو اپنی لٹیا ڈبو دی۔

ایک دن دادا ابو کی حسب ِ معمول دادی اماں سے لڑائی چل رہی تھی ہم اپنی گیند پکڑتے ہوئے دادا حضور کے کمرے  میں جا گھسے، جہاں گرما گرم گالیوں سمیت ایک دوسرے کے خاندانی شجرہ نسب کی اجتماعی طور پر آبرو ریزی کی جارہی تھی کہ دادا ابو کی  نظریں ہماری طرف اٹھیں، قریب بلاکر پیار کیا۔ آٹھ سال کا بچہ دادا کا ویسے ہی نور نظر تھا، سو سمٹ کر دادا کی گود میں بیٹھ گئے۔ دادا نے نفرت بھری نظروں سے دادی کو دیکھا جو ہاتھ نچا نچا کر دادا کو صلواتیں سنا رہیں تھی، دادا نے اپنا منہ ہمارے کان کے قریب لاتے ہوئے فرمایا۔
“بیٹا، یاد رکھو کسی بڑے اور لٹکے ہوئے پستانوں والی عورت پر بھروسہ مت کرنا۔ ”

وہ بات گویا ہمارے ذہن سے چپک گئی ۔ چھوٹے سے بڑے ہوتے گئے مگر جب بھی کسی بڑے اور لٹکے ہوئے پستانوں والی خاتون پر نظر پڑتی تو لامحالہ دادا حضور جنت مکانی کی بات کانوں میں گونجنے لگتی ہے ، اور ہم اپنا سر جھٹک کر دادا کی سوچ پر ہنس پڑتے ہیں۔

سال2005 میں اپنی ڈاکٹریٹ کے مقالے کے دفاع کے سلسلے میں  اٹلی کے تاریخی شہر “فلورنس” کی پبلک یونیورسٹی وارد ہوئے تھے جہاں ہمارے پنجاب کے کچھ لونڈے بسلسلہ تعلیم مگر حقیقتاً  کاروبار واسطے اپنا وقت ضائع کررہے تھے۔ ان میں اقبال کے شہر  سیالکوٹ کا ایک شاہین چوہدری بشیر عرف بشیرا حرامی تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان کے کردار کا نور بالآخر اس کے چہرے پر آجاتا ہے۔ سیاہ منہ اور چھوٹی چھوٹی آنکھیں، پھٹی پرانی جینز پر رنگین ٹی شرٹس پہن کر خود کو ٹام کروز سے کم سمجھنے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ میری پہلی ملاقات ان سے فلورنس یونیورسٹی کی لائبریری میں ہوئی۔ وہ ایک دراز قد البانوی حسینہ کیساتھ کسی کتاب کو دیکھنے سے زیادہ  سامنے بیٹھی خواتین کے سینوں پر نگاہ مرکوز کئے  ہوئے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ بچہ اپنا پاکستانی ہے کیونکہ جینز کیساتھ ہوائی چپل پہننا ہمارا ہی خاصہ تھا۔ سو مسکرا کر دیکھا تو بھاگتا ہوا آیا۔
“برادر، مائی نیم از چوہدڑی بشیڑ”۔
میں مسکرا اُٹھا کہ چلو شکر ہے کہ یورپ کے اس شہر میں کوئی اپنا بھی ہے۔ ۔گلے ملا،
چوہدری بشیر “ر” کو “ڑ” کہتا تھا اور جب باتیں کرنی شروع ہوجاتا تو مجال ہے کہ سامنے والا “اوف” بھی کرسکے۔ ایک دن میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا۔
“یاڑ خٹک پاجی میڑی بچی پسند آئی؟”۔
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“میں نے آپ کی بچی کو ٹیسٹ نہیں کیا ہے سو کیسے بتا سکتا ہوں کہ بچی اندر سے کیسی ہے؟”۔
خفت سے دیکھا اور گویا ہوئے۔
“یاڑ باہڑ سے چیک کڑسکتے ہو ناں”۔
ایمانداری سے جواب دیا۔
“تیری محبوبہ کے پستان حد سے زیادہ بڑے اور لٹکے ہوئے ہیں سو بھروسہ مت کرنا۔ ۔۔ میرے دادا حضور کا فرمان ہے”۔
ناراض ہوئے کہا
“اب ہڑ عوڑت تیڑی دادی تھوڑی ہوتی ہے”۔

ہوا یوں کہ البانوی لڑکی میک بولے کوکی اور چوہدری بشیر میں کسی بات پر بریک اپ ہوگیا۔ اب چوہدری بشیر صبح شام میرے کمرے میں دراز آنسو بہاتا اور میرے فائنل تھیسز کی ماں بہن ایک ہوجاتی۔ بالآخر تنگ آکر میں میک کے پاس گیا، کہ اب بس کرو۔ رات کو تم دونوں کا کینڈل نائٹ ڈنر میرے ذمے ہے۔ صلح صفائی کرلو ورنہ چوہدری بشیر نے اٹلی میں بانسری اٹھا کر بجانی ہے، اپنی بھی اور میری بھی اور اس وقت میں رانجھے نامی ہیرو کے جگری دوست کا کردار بالکل بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ میک بھی بشیرے کیلئے باولی تھی فرط جذبات سے اٹھ کر میرے گلے آ لگی اور بقول کرنل خان کے میڈم لوسی سے پہلے اس کے سینوں سے بھرپور معانقہ ہوا۔ دادا حضور یاد آگئے۔۔

مقامی ریستوران میں دونوں کا ایڈوانس بل چُکا کر میک کو میز پر لے آیا۔ تو دونوں ہیر رانجھا ایک دوسرے کے گلے لگ کر ایک دوسرے سے شکوے شکایتیں کرنے لگے اور میں باہر نکل آیا کہ جاکر مقالے پر کام کرسکوں۔

میں اپنے ہاسٹل سے دس قدم دور ہوں گا کہ پیچھے سے بشیر کے ہوائی چپلوں کی “پٹخ پٹخ” کی آوازیں سن کر میرے قدم من من بھر کے ہوگئے کہ وللہ میرے مقالے کا اب کیا ہوگا۔ مڑ کر دیکھا  تو چوہدری بشیر آنکھیں پونچھتا ہوا میرے گلے آکر اس زور سے  لگا کہ میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر بیٹھ گیا۔
“یاڑ پا عاڑف۔۔ ۔۔” ایک دفعہ پھر گلے لگ کر  سوں سوں کرنے لگا۔ زمین  سے اٹھ کر بشیر کو گلے لگایا
“جانی بتاؤ  تو سہی کیا میرے پیسے حرام کے تھے جو تو ڈنر چھوڑ کر بھاگا۔ ۔۔”

اس نے زخمی نظروں سے مجھے دیکھا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں گویا ہوا۔
“تیڑا دادا ولی اللہ تھے پاجی، واقعی بڑے اور لٹکے پستانوں والی عورت وفاداڑ ہو ہی نہیں سکتی۔ ۔۔ میک نے بتایا کہ بڑیک اپ کے بعد تین دن وہ ڈیوڈ کالے کیساتھ ڑہی کہ ۔۔۔ میرا غم بھلا سکے۔ ۔”

برسوں بعد چوہدری بشیر کیساتھ اتفاقاً  لبرٹی مال لاہور میں سر راہ ملاقات ہوئی۔ اس کی بیگم بھی ساتھ تھی۔
“پا عاڑف آپ یہاں کہاں؟”
میں نے مسکراتے ہوئے بھابھی کو سلام کیا۔۔۔۔ چوہدری کا پیٹ بالکل آگے نکل گیا تھا۔ بڑی سی توند بڑی مونچھیں مگر “ر” کو “ڑ” کہنا وہ ابھی بھی نہیں بھولا تھا۔ پیار سے میرا ہاتھ پکڑا اور سامنے ریستوران لے گیا۔ آرڈر دینے کے بعد ایک دوسرے کا احوال پوچھتے رہے۔ میں نے ایک دفعہ پھر بھابھی کو غور سے دیکھا۔ میری نظریں چوہدری بشیر سے چھپی نہیں رہ سکیں۔ بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا،

Advertisements
julia rana solicitors

“اماں کی پسند تھی مگڑ آج بھی مجھے تیڑے دادا کا قول یاد ہے۔۔۔ ۔ بس اس ڈڑ کیوجہ سے کہیں شہڑ سے باہڑ نہیں جاتا کہ یہاں ڈیوڈ تو نہیں ہیں مگڑ انعام ڑانا جیسے تو ہزاڑوں موجود ہیں ناں ۔”

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply