دہشت گردی ، ایمل ولی کا سوال اور کچھ پس منظر/حیدر جاوید سیّد

عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان کا یہ سوال بجا طور پر درست ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں 130سے زیادہ دہشت گردوں کی صدارتی فرمان پر رہائی سے قبل اس بات پر غور کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ان اہم کمانڈروں کی رہائی سے جنگجوؤں کے حوصلے بڑھیں گے اور ریاست کی کمزوری عیاں ہوگی؟
ایمل ولی یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر عارف علوی، عمران خان، سابق وزیراعلی محمود خان اور سابق صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف خیبر پختونخوا کے عوام کے مجرم ہیں۔ غالباً ایمل ولی خان بھی بعض دوسرے پشتون رہنماؤں کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چار افراد اور پشاور کے سابق کور کمانڈر ریٹائر جنرل فیض حمید نے کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے کابل مذاکرات کے نام پر سہولت کاری کی۔
ضروری نہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ سے پشتون حلقوں میں ٹی ٹی پی کے سہولت کاروں کے حوالے سے جن چار پانچ افراد کے نام لئے جارہے ہیں ان سے اتفاق کرلیاجائے لیکن یکسر مسترد کردینا بھی ممکن نہیں ہوگا ۔
عمران خان کے ایک سے زائد بیانات اور دیگر انٹرویوز کے کلپس موجود ہیں جن میں وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو قومی دھارے میں لانے کے اپنے موقف کی وضاحت کررہے ہیں۔ عمران خان نے گزشتہ روز کہا خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کا میں ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ اب میں حکومت میں نہیں۔
بالفرض اگر ہم اس بات کو اصول کے طور پر درست سمجھ لیں تو پھر خیبر پختنخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ تک جو دہشت گردی ہوئی اس کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان ہوں گے؟
میرے خیال میں براہ راست ذمہ داری کے حوالے سے الزامات کی بجائے ہمیں تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے طالبانائزیشن کے حوالے سے مجموعی رویہ کو دیکھنا چاہیے۔
عمران خان ماضی میں طالبانائزیشن کے خلاف ریاستی آپریشن کے ناقد رہے۔ افغان جنگ اور افغان پالیسی ہر دو کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ جن لوگوں نے امریکہ سوویت جنگ کے زمانہ کے جنگجوؤں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کے حوالے سے سی آئی اے کی پالیسی پر 48لاکھ ڈالر کے عوض سرتسلیم خم کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے لئے پاکستانی سیاست میں گنجائش بنانے اور اقتدار میں لانے کے لئے مینجمنٹ کی۔
2018ء سے قبل عمران خان ریاست کی افغان پالیسی کے ناقد تھے مگر اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے افغان پالیسی پر پارلیمان میں کھلی بحث کے ساتھ جامع خارجہ پالیسی کو پارلیمان کے طابع لانے کے لئے کیا کیا؟ سادہ سا جواب ہے زیرو جمع زیرو اور نتیجہ زیرو۔
آج کےکالم میں ہم چار سوا چار عشروں پر پھیلی افغان پالیسی پر بات آگے بڑھانے کی بجائے اگست 2021ء سے قبل کے تین مہینوں مئی جون جولائی کے ایام میں اٹھائے گئے بعض اقدامات اور پھر افغانستان میں طالبان کی فتوحات مسلسل کے نتائج کے ساتھ کابل کے ایک ہوٹل سے وائرل ہونے والی جنرل فیض حمید کی تصویر کے تباہ کن نتائج پر بات کریں تو اس کے لئے بھی کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ۔
اس کالم کے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ افغانستان سے امریکہ و اتحادیوں انخلاء کے دنوں میں میں نے 20اقساط کی ایک سیریز میں افغان پالیسی، قلابازیوں اور خواہشات پر تفصیل سے معروضات پیش کی تھیں ، یہ بھی عرض کیا تھا کہ امریکی انخلاء کے دنوں میں افغان پالیسی پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا تاثر پاکستان کے لئے مستقبل میں مسائل پیدا کردے گا۔
جنرل (ر) فیض حمید کی چائے کے کپ کے ساتھ کھینچوائی اور وائرل کی گئی تصویر کو ایک جرم کے طور پر لیا سمجھا جائے گا مزید عرض کیا تھا کہ اس تصویر کی اشاعت کے لئے آئی ایس پی آر اور وفاقی محکمہ اطلاعات نے جو کوششیں کیں ان کی ضرورت نہیں تھی۔
اسی طرح جب کابل پر افغان طالبان کے قبضے پر عمران خان کہہ رہے تھے کہ یہ پاکستان کے لئے ایک اچھا دن ہے پاکستان کے افغان طالبان سے نظریاتی اختلافات نہیں تو عرض کیا تھا منتخب افغان حکومت کی جگہ طالبان کو لانے میں عملی معاونت مستقبل میں گلے پڑسکتی ہے۔
کم از کم مجھے ایسا لگتا تھا کہ ” عمران خان افغان طالبان کے توسط سے کالعدم ٹی ٹی پی کو ایک قوت کے طور پر اپنے اتحادیوں کی صف میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں ”
اس لئے جب اکتوبر 2021ء میں افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لئے سہولت کاری پر آمادگی ظاہر کی تھی تو عرض کیا تھا یہ سہولت کاری کالعدم ٹی ٹی پی کی فرمائش پر نہیں بلکہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے افغان طالبان سے رابطوں اور خواہش پر کی گئی۔
دستیاب معلومات کی بنیاد پر میں یہ سطور لکھتے ہوئے اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ اس وقت جن لوگوں نے افغان طالبان سے پاکستان اور ٹی ٹی پی میں مذاکرات کے لئے تعاون کے لئے کہا ان میں اسد قیصر (اس وقت کی قومی اسمبلی کے سپیکر) خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور جنرل فیض حمید شامل تھے۔ چند پردہ نشین بھی اس کے لئے کوشاں ہوئے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ عمران خان کے ایما پر شروع ہوا۔ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کو اپنے اتحادی کے طور پر کیوں دیکھنا چاہتے تھے اس کی صاف سیدھی وجہ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کے اقتدار کے دو ادوار ہیں ان دو ادوار میں تعمیروترقی کا پروپیگنڈہ تو بہت ہوا مگر زمینی حقائق یکسر مختلف تھے۔
عمران خان کی خواہش یہی تھی کہ خیبر پختونخوا کی سیاست میں اگر طالبان فیکٹر ان کا اتحادی ہوگا تو وہ اپنے تین چار بڑے مخالفین کے ساتھ آسانی سے نمٹ سکیں گے۔ اس ’’کارروائی‘‘ کا ملبہ طالبان پر گرے گا۔
میں ان سطور میں قبل ازیں عرض کرچکا کہ کابل مذاکرات میں خیبر پختونخوا حکومت کے (سابق حکومت) ترجمان بیرسٹر سیف کو فعال رکن کے طور پر اہمیت دینے کا فیصلہ خالصتاً عمران خان کا تھا۔
کابل مذاکرات کے دوران یہ طے پایا تھا کہ جب تک وفاقی حکومت طالبان کے 6نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک ٹی ٹی پی کے مطالبات پبلک نہیں ہوں گے لیکن ہوا اس کے برعکس، ٹی ٹی پی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے 6نکات سوشل میڈیا پر آگئے۔
بعدازاں ٹی ٹی پی نے تصدیق کردی کہ یہ ہمارے مطالبات ہیں اس وقت حکومت نے 130سے زائد جنگجوؤں کی رہائی کا فیصلہ کیا اوراس کے لئے صدارتی فرمان جاری ہوگیا۔
گزشتہ کالم اور اس سے قبل بھی عرض کرچکا کہ بعض اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کو ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی رقم بھی دی گئی۔ جنگجوؤں کی رہائی کے لئے صدارتی فرمان ریکارڈ پر ہے۔ پیسوں کی ادائیگی کی پی ٹی آئی نے کبھی سرکاری طور پر تردید نہیں کی۔
تیسری بات یہ ے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پی ٹی آئی کے دور میں واپس آئے تھے ۔ کابل مذاکرات اور ٹی ٹی پی کی کارروائیاں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ تحریک انصاف ابھی حکومت میں ہی تھی (صوبہ خیبر پختونخوا میں) جب یہ معاملہ سامنے آیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کے بعض بڑوں اور خود وزیراعلیٰ کے خاندان نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو لگ بھگ سات سے گیارہ کروڑ روپے کا بھتہ ادا کیا ہے۔
شہرام ترکئی نے ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتہ طلب کرنے والے خط کو پبلک کردیا۔ صوبائی کابینہ کے کتنے ارکان نے بھتہ دیا اس پر طالبانائزیشن کے حوالے سے رپورٹنگ اور تجزیوں کی ساکھ رکھنے والے پشتون صحافی عقیل یوسفزئی کی رپورٹس موجود ہیں۔
اب آجایئے پشاور میں ہوئی دہشت گردی کی حالیہ افسوسناک واردات پر، پولیس لائنز کی مسجد میں ہوئی اس واردات میں لگ بھگ 104افراد شہید اور 221 سے زائد زخمی ہوئے۔ صوبے میں پہلی بار خود پولیس اہلکاروں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔
ان مظاہروں میں جو نعرے لگائے گئے وہ حیران کن ہرگز نہیں۔ البتہ دستیاب معلومات کی بنیاد پر گورنر غلام علی اور چند دیگر نابغوں کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ اس احتجاج کو تحریک انصاف یا پشتون تحفظ موومنٹ نے منظم کیا۔
میری دانست میں یہ ڈھمکیری حقیقت سے آنکھیں چرانے کی بھونڈی کوشش ہے۔ خیبر پختونخوا میں یہ نعرے پچھلے چند برسوں سے زبان زد عام ہیں
جہاں تک معروف صحافی ایاز مہمند کے اس موقف کا تعلق ہے کہ جامعہ مسجد پولیس لائنز پشاور کے خودکش حملہ آور کو اس کی امن دشمن سرگرمیوں کے باعث چند ماہ قبل مہمند ایجنسی کے ایک لوکل جرگے نے گرفتار کرکے ایجنسیوں کے حوالے کیا تھا پھر وہ خودکش حملہ آور کے طور پر نمودار کیسے ہوا؟ ایاز مہمند کی خبر یقیناً ان کے ذرائع سے ہوگی لیکن انہیں پھر سے کنفرم کرلینا چاہیے کہ کیا اس شخص کو وفاقی ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا یا پولیس اور سی ٹی ڈی کے؟ بہرطور ایجنسیوں یا پولیس اور سی ٹی ڈی جس کے حوالے بھی کیا گیا تھا رہائی کیسے ہوئی یہ اہم سوال ہے اور کیا رہائی سے قبل مہمند ایجنسی کے اس جرگے کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply