مزید آگے بڑھنا ہے

انعام رانا صاحب کی باتیں پڑھ کر مجھے کچھ مایوسی کی بو سی آنے لگی ۔مجھے ایسا لگا جیسے رانا صاحب اشاروں کنایوں میں کہنا چاہ رہے ہو کہ مکالمہ کو اب بند کردینا چاھیئے۔ لوگوں میں برداشت کی حد ختم ہوگئی ہے ۔جب بھی کسی موضوع کو زیربحث لایا جاتا ہے۔بجائے اس پر علمی بحث کرنے کے پڑھنے والے قاری حضرات اسے کسی اور موضوع کی طرف موڑ دیتے ہیں۔پھر کمنٹس میں گالی کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ لکھنے والا سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں نے انھیں ایک علمی بحث دی تھی یہ اسے کہاں لے گئے۔ان موضوعات پر دست و گریباں ہونے والے کوئی انوکھی مخلوق نہیں ہم لوگ ہی ہوتے ہیں۔
آگے انعام رانا صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس سلسلے کو روک نہیں سکتے۔یہ سلسلہ طویل تو ہوسکتا ہے لیکن ختم نہیں ہوسکتا۔
مجھے مکالمہ سے جڑے قریباً سال ہونے کو ہے۔اس سے پہلے میری اپنی تحریریں ڈائری یا رجسٹرڈ تک محدود رہتی تھی۔اس کی وجہ ایک تو میری تحریروں میں وہ جان نہیں تھی جسے میں آگے کسی اخبار یاجرائد سے جوڑتا اور نہ ہی ایسے تعلقات تھے کہ اپنی تحریروں کو آگے جگہ دے پاتے ۔پھر اچانک سے ایک دن سوشل میڈیا پر مکالمہ سے شناسائی ہوئی مجھے یہ پلیٹ فارم بہت پسند آیا اور میں نے یہاں سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا ۔ جب میری پہلی تحریر کو مکالمہ پر جگہ دی گئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔اس کے بعد مجھے کافی حوصلہ ملا اور مجھے مزید صلاحیتیں ابھارنے کا موقع ملا۔حالانکہ میری تحریروں میں اتنی جان نہیں ہوتی کہ ان پر بحث کی جائے۔لیکن میں انعام رانا صاحب کا شیدائی ضرور ہوگیا ہوں کہ جنھوں نے ہم جیسے نکمے نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے ہم اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔میں نے ہمیشہ انعام رانا کو دعائوں میں یاد کیا کہ جنھوں نے ہمیں سنجیدہ بحث کے لیئے ایک خوبصورت جگہ دی۔انعام رانا صاحب سے لاکھ اختلافات سہی لیکن میں انھیں اپنا محسن مانتا ہوں۔لیکن جب رانا صاحب ایسی باتیں کریں گے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ ہم مزید نہیں چل سکتے یا ہم ایسی تحریروں سے اجتناب برتیں گے جس سے مکالمے میں بد مزگی پیدا ہو۔
میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ تحریر کوئی بھی ہو ،چاہے وہ مسلکی اعتبار سے ہو یا سیاسی اعتبار سے۔لسانیات کی بنیاد پر ہو یاحب الوطنی کی بنیاد پر۔اس پر بحث ہوگی اور ضرور ہوگی کیونکہ ہر انسان اپنی ایک الگ سوچ رکھتا ہے ۔ہاں،اگر اختلاف ہے تو وہ کمنٹس کرنے والے کی اخلاقیات پر ہے کہ وہ اپنی رائے کس پیر ائے میں زیر قلم کرتا ہے۔رہی بات گالی گفتار کی تو جناب تحریر پر تبصرہ کرنے والے کوئی دودھ بیچنے والے یا مٹھائی بیچنے والے یا سبزی فروش یا مرغی فروش نہیں ہوتے بلکہ تبصرہ کرنے والے آپ اور ہم ہی ہوتے ہیں۔یہاں ہم اپنی اخلاقیات کے پرخچے اڑارہے ہوتے ہیں۔اس کی ایک سادہ سی مثال یوں لیجئے کچھ ماہ قبل ” ہم سب “پر مولانا احمد لدھیانوی صاحب کا انٹرویو نشر ہوا تھا اس پر قاری اور لکھاری نے جو تماشہ کھڑا کیا تھا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔اس وقت ہم پڑھے لکھو کی ٹالرنس کہاں گئی۔ہونا تو یہ چاھیئے کہ ہم سمجھیں کہ ایسے مکالموں سے مسلکی تنائو کو کم کیا جاسکتا ہے۔
آگے انعام رانا صاحب ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ اس تحریر کے کچھ دنوں بعد مجھے ایک دوردراز علاقے سے کال آئی کہ جناب ہاسٹل یونیورسٹی میں کیا کچھ ہوتا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے ۔لیکن اگر یہ بات میرے والدین تک پہنچی تو وہ میری تعلیم ختم کردیں گے۔جناب انعام رانا صاحب آپ جس تحریر کا حوالہ دے رہے ہو یہ محترمہ نجمہ سلطانہ صاحبہ نے یہ تحریر لکھی تھی جسے پہلی قسط قرار دے کر ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔کچھ ساتھی دوسری قسط کے انتظار میں ہی رہے ۔لیکن دوسری قسط سے پہلے ہی اس پر ایسے نشتر برسائے گئے کہ دوسری قسط کی نوبت ہی نہ آئی۔اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ تحریر اجاگر کرنے سے زیادہ اس میں ابھار تھا تحریر کو اس انداز سے لکھا گیا تھا جیسے معلومات سے زیادہ گلیمر پڑھا جارہا ہو۔یہ بات درست ہے کہ اس تحریر کو بہت پڑھا گیا لیکن صرف چسکے کی حد تک۔
اس تحریر میں کہاں تک سچائی یا درستگی تھی ؟ میرے علم میں نہیں۔لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یونیورسٹیوں اور ہاسٹلز میں جہاں لڑکیاں ایک ساتھ رہتی ہیں۔وہاں غالب امکان ہےکہ ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہونگی۔لیکن ایک محدود حد تک ۔اگر مردوں میں ہم جنس پرستی ہوسکتی ہے تو عورتیں بھی لیزبین ہوسکتی ہے۔ رہی اس خاتون کی بات کہ اگر اس تحریر کو والدین پڑھ لیں تو ہماری تعلیم رک جائے گی۔تحریر کوئی بھی ہو اگر وہ معلومات بر مبنی ہوتو سونے پر سہاگہ اس کی وجہ علم میں اضافہ ہے۔اب تحریریں بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک تحریر وہ ہوتی ہے جو معاشرے میں پنپنے والی وہ کہانیاں ہوتی ہیں،جنھیں منظرعام پرلانا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔دوسری قسم کی تحریریں وہ ہوتی ہیں جو معاشرتی اتار چڑھاؤ سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔رہی بات والدین کی تو والدین اگر یونیورسٹی بھیج سکتے ہیں۔تو وہ سب کچھ جانتے بھی ہیں۔وہ اپنی باطنی آنکھ سے سب تماشہ دیکھتے ہیں۔جہاں چپ رہنا ہوتا ہے وہاں چپ رہتے ہیں۔جہاں ضرورت ہوتی ہے بولنے کی بولتے ہیں۔والدین ہم سے دور رہ کر ہم سے غافل نہیں رہتے وہ ہماری خبر گیری رکھتے ہیں۔لہٰذا اگر ایک معلوماتی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو اس پوسٹ سے کئی لوگوں کوفائدہ بھی پہنچتا ہے۔معلومات کی شکل میں۔
رہی بات مسلک و فرقہ واریت کی کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں۔یہ بات تو درست ہے کہ ہم مسلکی اعتبار سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں۔لیکن اسی فرقہ واریت اور مسلک میں لپٹی قوم پر جب برا وقت آتا ہے ۔تو یہ یک جاں ہوکر اس مشکل وقت کا مقابلہ کرتی ہے وہ بھی شیر وشکرہوکر۔اس قوم کو اگر ان فرقہ واریت اور مسلکی لڑائیوں سے نکال باھر کرنا ہے تو پھر ہمیں قربانی دینا ہوگی۔پھر ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا ہوگا اس قوم کو اک نقطے پر لانا ہوگا۔ہمیں لکھنا ہوگا،مزید لکھنا ہوگا ہمت نہیں ہارنی۔اگر اختلاف رکھ کر کوئی گالیاں دیتا ہے تو ہمیں سہنا پڑیں گی۔اور انھیں قائل کرنا پڑے گا ۔کہ تم غلط جگہ وقت برباد کررہے ہو۔
آخر میں انعام رانا صاحب سے بڑی معذرت کے ساتھ کہ میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کو ،کوئی مشورہ دوں۔لیکن آپ کی اس دن کی تحریر سے مجھے ایسا لگا جیسے آپ اس قوم سے کافی دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور اب مزید آگے چلنا نہیں چاہتے۔لہٰذا اس کے جواب میں مجھے یہ ہمت ہوئی کہ رانا صاحب کو اپنی یہ ذہنی کاوش گوش گزار کردوں تاکہ رانا صاحب اپنی صلاحیتوں کو مزید چار چاند لگائیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply