سوره نساء کے اہم مضامین کا مختصر مطالعہ -حصّہ اوّل/عروج ندیم

سورۃ النساء – مدنی سورہ، 24 رکوع، 176 آیات
یہ سورہ 3 ہجری کے اواخر سے لے کر 4 ہجری کے اواخر یا 5 ہجری کے شروع کے مختلف اوقات میں نازل ہوئی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب میں رخصت ہو کر رسول اللہ کے گھر آ چکی تھی، یہ سورت تب نازل ہوئی۔
اس سورت میں عورتوں کے اہم مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، اس لئے اس کو سورہ نساء کا نام دیا گیا۔ اس سورت کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں سب سے زیادہ توجہ گھریلو زندگی کی خوشحالی پر دی گئی ہے، اس لئے کہ گھر کی خوشحالی پر ہی معاشرے کی خوشحالی کا دارومدار ہے۔

آیت نمبر – 1
“اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔

تفسیر: اس سورہ مبارکہ کا آغاز اللہ سے ڈرنے کے حکم سے ہوا۔ تقویٰ کا لفظ عام طور پر ڈرنے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ جب کہ تقوی کے لفظی معنی ہے بچنا۔ اول تقویٰ سے مراد اللہ کے احکامات پر عمل کرنا اور دوم اس کے منع کردہ کاموں سے بچنا۔ کیونکہ آگے کی آیات میں انسانوں کے حقوق اور خاندانی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کچھ اہم قوانین ارشاد فرمائے گئے اسی لئے سوره کے آغاز ہی میں اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضگی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آگے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، یہاں ایک جان سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، اسی لئے ہمیں باہمی تکبر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ  نے بھی اپنے خطبہ میں یہ ارشاد فرما دیا تھا کہ اے لوگو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ تو آگاہ ہوجاؤ کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ پر کوئی برتری حاصل نہیں مگر تقوی کے ساتھ۔
پھر آگے فرمایا کہ اسی نفس سے اس کا جوڑا پیدا کیا یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے ان کی زوجہ حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا اور دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ یہ ہے انسانیت کی ابتدا کا طریقہ جو قرآن نے واضح کر دیا۔
اسی آیت مبارکہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا “اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو.” یہاں دوسری بار تقوی کا لفظ استعمال ہوا۔ بندوں کے حقوق کی بات آئی تو فرمایا گیا کہ اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ جس طرح عام زندگی میں ہم کسی کا دل نرم کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہیں اللہ کا واسطہ۔ اور رسول اللہ ﷺ  نے بھی ارشاد فرمایا کہ جو تم سے اللہ کے نام سے پناہ طلب کرے اسے پناہ دے دو اور جو تم سے اللہ کے واسطے سے سوال کرے تو اسے رد نہ کرو۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ فقیر بھی مانگتا ہے تو اللہ کا نام لے کر اور مزید فرمایا کہ رشتوں کو توڑنے سے بچو یعنی رشتہ داروں سے تعلقات خراب کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے جب تک کوئی شرعی وجہ نہ ہو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے، جس سے مراد وہ رشتہ داریاں جو رحم مادر کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں بھی قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور حقوق ادا کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آگے فرمایا گیا کہ بیشک اللہ تم پر نگرانی کرنے والا ہے۔ رقیب کہتے ہیں جاننے والے کو یعنی اللہ رب العزت بندوں کے تمام اقوال و اعمال کو جاننے والا ہے۔ اگر ہمیں یہ خیال سوار رہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، بند جگہوں پر بھی میں کوئی عمل کر رہا ہو تو وہ اس سے چھپا ہوا نہیں ہے، تو پھر صحیح معنوں میں غفلت کی زندگی سے بچا جا سکتا ہے۔
اس آیت مبارکہ کی فضیلت اتنی ہے کہ اس آیت کو رسول اللہ  ﷺ  نے خطبہ نکاح میں شامل کیا۔ اس لیے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان وہ رشتہ قائم ہو رہا ہے جس میں آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام تھے۔ جس طرح ان سے کئی مرد اور عورت دنیا میں پھیلے، اب ان سے بھی نسل آگے بڑھے گی۔

آیت نمبر – 2
“اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور پاک اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو، اور اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال ملا کر کھا نہ جاؤ، بےشک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔”

شان نزول:
قبیلہ بنو غطفان کے ایک شخص کا بھائی جو بہت امیر تھا۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کا مال اور یتیم بچہ اس کے بھائی کی زیر نگرانی آگیا۔ تو جب وہ بچہ بالغ ہو کر اپنے چچا سے وہ مال طلب کرنے گیا تو اس نے انکار کر دیا۔ پھر اس بچے نے یہ مسئلہ بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے چچا نے جب یہ بات سنی تو بولا، میں اللہ اور رسول ﷺ  کا مطیع و فرمانبردار ہوں، بڑے گناہ سے اللہ کی پناہ۔ اس کے بعد اپنے مرحوم بھائی کا سارا مال اس کے بیٹے کے حوالے کردیا۔ (خازن، بیضاوی، کبیر)

تفسیر: یتیم کے لغوی معنی اکیلا کے ہیں۔ اسی طرح سیپ کے موتی کو عرف عام میں ‘درّ یتیم’ کہا جاتا ہے۔ یتیم یعنی بن باپ کے بچے اور بچیوں کا مسئلہ ہر قوم میں ہی اہم رہا ہے۔ ان آیات میں اب اسی موضوع پر احکامات اور ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ بلوغت کی عمر کے بعد یتیمی نہیں رہتی۔ جب تک بچہ نابالغ، کمزور ہو یا اپنی ضروریات کا خیال نہ رکھ سکتا ہو، اسے یتیم کہتے ہیں۔ کسی شخص کے بچے اگر کم عمر ہو اور اس کا انتقال ہوجائے تو عمومی طور پر باپ کی میراث ان کے چچا، بھائی وغیرہ کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دی جاتی ہے۔ تو اس آیت مبارکہ میں ان سرپرستوں کو تین ہدایات دی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ یتیموں کو ان کا مال دے دو جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، سمجھدار ہو جائیں۔ ان کی عقل میں پختگی آجائے تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔ دوسری بات یہ کہ بددیانتی نہ کرو۔ ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور اس کے بدلے میں گھٹیا چیز دے دو۔ مال بذات خود گھٹیا نہیں ہے لیکن اگر اس سرپرست نے بددیانتی کی تو اس نے اس مال میں خیانت داخل کر دی۔ اس شخص کے حق میں وہ مال ناپاک اور حرام ہو جائے گا۔ تو یہاں ان لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ ان بچوں کا مال انصاف سے تقسیم کرو اور اپنے مفاد کی وجہ سے اس کا نقصان نہ کرو۔ تیسری ہدایت یہ دی گئی کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔ البتہ آگے کی آیات میں مال کو ملانا جائز قرار دیا گیا لیکن نیت ظلم کی نہ ہو۔ اس لیے کہ یتیم کا مال ہڑپ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ لہذا اس گناہ سے ان تمام سرپرستوں کو بچنا چاہیے جو اس کام پر مامور کیے جاتے ہیں۔

آیت نمبر – 3
“اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو’ دو دو’ تین تین’ چار چار سے’ لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ (ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ۔”

شان نزول:
عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے اس آیت کے نزول کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : اکثر حضرات اپنی زیر پرورش یتیموں کو ان کا حسن و جمال اور مال دیکھ کر ان کو نکاح میں لے آتے لیکن نہ ان کے مہر ادا کرتے اور نہ حقوقِ زوجیت احسن طریقے سے ادا کرتے۔ تو ان لوگوں کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں انہیں ان یتیموں کے بجائے دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا جن کے حقوق وہ ادا کر سکیں۔ (روح البیان، کبیر، خازن)

تفسیر: اللہ تعالی نے یہ آیت ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت دینے کے لیے نازل نہیں فرمائی تھی بلکہ یہ اس لیے نازل ہوئی تھی کہ جن شہیدوں کے بچے یتیم رہ گئے ہیں اور ان یتیموں کے حقوق تم ادا نہیں کر سکتے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ وہ یتیم بچے ہیں۔
یہاں خطاب یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں سے ہے۔ جاہلیت میں ایک دستور یہ تھا کہ یتیم لڑکیاں جو مردوں کی سرپرستی میں ہوتی، تو جب وہ سرپرست یہ دیکھتے کہ ان کی طرف سے مہر وغیرہ کا مطالبہ کرنے والا یا خیر خبر کرنے والا کوئی کھڑا نہیں ہے تو وہ ان سے نکاح کر کے سارے حقوق مار لیتے۔ نیز ان کی جائیدادیں ہڑپ لیتے تھے۔ آگے فرمایا جا رہا ہے کہ “تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں” یہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں عقل کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کو سامنے رکھنے کی بھی اجازت ہے۔ لفظ “طاب” طیب سے نکلا ہے۔ یعنی ایک معیار دیا جا رہا ہے کہ ان سے شادی کرو جو پاکیزہ کردار کی مالک ہوں، نہ کہ وقتی طور پر حسن و جمال سے متاثر ہو کر شادی کر لی جائے۔
مزید اس آیت میں تعدد ازدواج کو محدود کیا گیا ہے۔ اور ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنا ممنوع ہے۔ یہاں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں نکاح کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ ایک شخص کئی کئی بیویاں رکھتا تھا اور پھر ان کے حقوق پورے نہ کرتا اور ظلم و زیادتی سے پیش آتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں تعدد ازواج کا رواج عام تھا۔ کسی قسم کی اخلاقی یا قانونی پابندی نہ تھی۔ ہندوؤں کی مشہور کتاب ویدک میں دس دس، تیرہ اور کہیں بیک وقت ستائیس بیویوں تک کا ذکر ملتا ہے۔
قیس بن الحارث فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے نکاح میں آٹھ بیویاں تھی۔ تو رسول اللہ نے فرمایا : چار رکھ لو باقی کو طلاق دے دو۔ (ابو داود)۔
تو اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ زیادتی کرنے کا خوف رکھتے ہوں تو عورتوں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے ڈرو ہاں اگر انصاف کر سکو تو چار کی اجازت ہے ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرو۔ کوئی بھی شوہر اگر ناانصافی کے ساتھ دو یا زائد بیویاں رکھے تو اس پر ناانصافی کا گناہ برابر ہوتا رہے گا۔ پھر آگے فرمایا کہ اگر ایک کے حقوق بھی پورے نہیں کر سکتے تو صرف باندیوں پر اکتفا کرو کیونکہ ایک باندی کے حقوق آزاد عورت کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کر سکو گے۔ یہاں اللہ تعالی ان لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں جن میں ایک یا ایک سے زائد بیوی رکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہاں گویا ان کو تسلی دی جا رہی ہے کہ تمہیں جو زائد نکاح سے منع کیا جا رہا ہے یہ تمہارے فائدے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ اس طرح تم سے ظلم نہیں ہو پائے گا۔

آیت نمبر – 4
“عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو’ ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو.”

تفسیر :
شریعت اسلامی میں مہر سے مراد بیوی کی وہ قیمت نہیں ہے جو شوہر اس کے سر پرستوں کو دے کر ان سے بیوی کو حاصل کرتا ہے بلکہ مہر وہ نذرانہ ہے جو شوہر اکرام و اعزاز کے ساتھ بیوی کو دیتا ہے۔ یہاں کیوں اور کیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ لہذا اسے ادا کرنا فرض ہے اور جو شخص اس کا انکار کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔
تو فرمایا گیا کہ ان کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کرو نہ کہ تعاوان سمجھ کر۔ پھر فرمایا کہ اگر وہ خوش دلی سے مہر میں سے کچھ معاف کر دیں یا پورا کا پورا معاف کر دیں تو اسے خوش ہو کر کھا لو یعنی اس اجازت کے بعد بے تکلف وہ مہر اپنے کام میں لا سکتے ہو۔ ہاں اگر کسی قسم کے جبر سے معاف کرایا گیا تو عند اللہ معاف نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر بیوی مہر وصول کرنے کے بعد پھر اسے شوہر کے پاس واپس کر دے تو یہ “ہبہ” کہلائے گا اور اگر وصول کرنے سے پہلے ہی معاف کر دے تو “ابراء” کہلائے گا اور دونوں صورتیں جائز ہیں۔
مہر کا تعین کرتے وقت دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اول یہ کہ لڑکی کے خاندان میں جو مہر رائج ہو اسے ترجیح دینی چاہیے۔ دوم یہ کہ جس لڑکے کو مہر ادا کرنا ہے اس کی آمدنی کے مطابق مقرر کیا جائے۔ علاوہ ازیں مہر کی دو اقسام ہیں۔ مہر معجل اور مہر موجل۔
مہر معجل سے مراد وہ مہر جس کا لڑکی کی طرف سے کسی وقت بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے یعنی نکاح کے بعد فوری طور پر ادا کرنا واجب ہے۔ مہر موجل سے مراد یہ کہ اگر کسی مدت کا تعین نہ کیا جائے تو لڑکی اس وقت تک مطالبہ نہیں کر سکتی جب تک دونوں فریقین میں علیحدگی نہ ہوجائے یا شوہر فوت ہو جائے۔

آیت نمبر – 5
“اور کم عقلوں کو ان کے مال نہ دو جو تمہارے پاس ہیں۔ جسے اللہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایا اور انہیں اس مال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔”

تفسیر: گزشتہ آیات میں جو یتیموں کو ان کے مال سپرد کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اب یہاں یہ شرط رکھی گئی کہ جب ان کو ان کے مال کا مالک مقرر کرنے لگو تو انہیں پہلے پرکھتے رہو۔
“سفھاء” سے مراد وہ یتیم ہے جو بالغ تو ہیں لیکن مال کو سنبھالنے یا خرچ کرنے کے طریقے سے نہ سمجھ ہیں کہ اپنے مال کو صحیح طور پر استعمال میں لا سکیں یا اس کی حفاظت کر سکیں تو مال ان کے حوالے نہ کریں بلکہ ضرورت کے حساب سے ان پر خرچ کرتے رہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اپنا پورا مال کم عقل بچوں کے سپرد کرکے خود ان کے محتاج نہ بنو بلکہ اپنے مال کو اپنی حفاظت میں رکھ کر بقدر ضرورت ان کو کھلاتے پہناتے رہو اور اگر وہ مال کو لینے کا مطالبہ کریں تو ان کو معقول بات کہہ کر سمجھا دو، جس سے نہ ان کی دل آزاری ہو نہ مال ضائع ہو۔ یہاں اس آیت میں ایک بات قابل غور ہے کہ فرمایا گیا “وارزوقوھم فیھا”، فیھا سے مراد کہ اس مال کو انویسٹ کرو، اس کو بڑھاؤ نہ کہ اس سے خرچ کرو یہاں تک کہ کچھ بھی نہ بچے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply