ہندی سینما اور پانی میں آگ۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

برصغیر کی سماجی زندگی میں بارش خاصی اہمیت رکھتی ہے ـ بارش کسان کو اچھے دنوں کی امید دیتا ہے ـ یہی وہ موسم ہے جس میں پھول کھلتے ہیں، ندیاں جَل تھل ہوکر کسی مست ناگن کی طرح لہراتی و بل کھاتی ہیں ـ پرندے گاتے ہیں اور زمین سے سحر انگیز خوشبو اٹھتی ہے ـ بارش کبھی محبوب کے دل میں ہجر کی کسک پیدا کرتی ہے، کبھی وصل کی راحت کو دوچند کر دیتی ہے اور کبھی حسرتوں کی دھیمی آنچ پر پگھلاتا ہے ـ بچے تو بچے بڑے بھی اس موسم کی رنگینی میں بھیگنا پسند کرتے ہیں ـ

بھلا اس قاتل موسم سے ہندی سینما خود کو کیسے دور رکھ پاتا؟ ـ بارش اور اس سے جڑے احساسات و جذبات کو ہندی سینما نے خوب خوب فلمایا ـ ہرچند بسا اوقات عریانیت اور سستے جنسی جذبات کا مظاہرہ بھی کیا گیا لیکن مجموعی طور پر صورت حال ستائش کے قابل ہے ـ

ہندوستانی سینما نے خاموش فلموں کے دور سے ہی فطرت کے اس حسین نظارے پر توجہ دینی شروع کر دی لیکن اس دور میں ٹیکنالوجی کی کمیابی کے باعث ہمیں کسی شاہکار کا سراغ نہیں ملتا ـ پچاس کی دہائی میں اس جانب توجہ دینے کی بھرپور کوششیں ہوئیں ـ 1949 کی فلم “برسات” کے گیت “برسات میں ہم سے ملے تم” میں بارش کا منظر نہیں ہے لیکن اس موسم کے تناظر میں محبوب سے ملنے کی تڑپ اور وصل کی راحتیں کشید کرنے کا پورا احساس ملتا ہے ـ

بارش کو لیکن حقیقی توجہ ساٹھ کی دہائی میں ملی ـ اس دہائی میں برسات کے موسم کو سامنے رکھ کر زبردست تخلیقات پیش کی گئیں اور انھیں بھرپور عوامی پذیرائی ملی ـ 1960 کی فلم “چھلیا” کے گانے “ڈم ڈم ڈِگا ڈِگا ـ موسم بھیگا بھیگا” میں راج کپور نے اپنی اداکاری سے موسم کی رنگینی کو چار چاند لگا دیے ہیں ـ اس گانے میں راج کپور نے بارش میں بھیگنے کی خوشی کو بڑے مست انداز میں دکھایا ہے ـ

اسی دور کی ایک فلم “پرکھ” ہے ـ جہاں یہ فلم قابلِ تعریف ہے، وہاں اس کا یہ گیت بھی ناقابلِ فراموش ہے ـ “او سجنا برکھا بہار آئی” ـ کھڑکی کے سامنے کھڑی سادھنا نغمہ سرا ہو کر بارش کی بوندوں کی لے سے لے ملا کر عشقیہ جذبات سے پانی میں آگ لگا رہی ہیں ـ اسی دور کی ایک اور فلم “برسات کی رات” میں “زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات” گاتے ہوئے محمد رفیع نے ہجر و فراق کی کیفیت کو دل دوز انداز میں بیان کیا ہے ـ اس گیت میں حسین مدھو بالا کی سرمستی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ـ اس گیت اور اس کی پکچرائزیشن سے متاثر 1977 کی فلم “انورودھ” میں “آتے جاتے خوب صورت آوارہ سڑکوں پہ” بھی دیکھنے و سننے کے قابل ہے ـ اس گیت میں البتہ کشور کمار کی مدہوش کن آواز اور کاکا راجیش کھنہ کے رومانٹک انداز کا پلڑا بھاری ہے ـ

کاکا کی بات آ گئی ہے تو ان پر پکچرائز ایک اور بہترین گیت کا تذکرہ بھی ضروری ہو جاتا ہے ـ 1969 کی فلم “ارادھنا” کے گیت “روپ تیرا مستانہ” برسات کے موسم میں دو محبت بھرے بھیگے جسموں کی بے حجابی اور جنسی ملاپ کی خواہش کا زبردست جمالیاتی اظہار ہے ـ راجیش کھنہ کی بڑھتی “گستاخی” اور شرمیلا ٹیگور کی اندرونی کشمکش اس گیت کو ارفع مقام تک پہنچا دیتے ہیں ـ اکیسویں صدی کے بے باک تقاضوں میں گندھی 2005 کی فلم “برسات” کے گیت “برسات کے دن آئے، ملاقات کے دن آئے” میں بھی تقریباً اسی قسم کی صورت حال ہوتی ہے لیکن وہاں پریانکا چوپڑا کی عریانیت اندرونی کشمکش کے اظہار میں رکاوٹ بن جاتی ہے ـ حالانکہ گیت یہ بھی دل فریب ہے مگر جمالیات کا دائرہ سمٹ جانے کی وجہ سے پریانکا کو شرمیلا کے برابر رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے ـ

سلگتے جسموں کی تپش میں جلتے دلوں کے بھیگنے کی خواہش کا اعلیٰ اظہار آشا بھوسلے کی آواز میں 1965 کی فلم “جب جب پھول کھلے” میں بھی ملتا ہے ـ “یہ سماں، سماں ہے یہ پیار کا” نسائی جذبات و احساسات کی کھلی نمائندگی کرتا ہے ـ یہ گیت آج بھی نوخیز لڑکیوں کے دلوں میں پیار کی جوت جگاتا ہے ـ

بارش صرف وصل کی راحت کا نام نہیں بلکہ یہ حسرتوں کا ترجمان بھی ہے ـ 1974 کی فلم “روٹی، کپڑا اور مکان” میں لتا منگیشکر نے انھی حسرتوں کو یوں زبان دی ہے؛ “ہائے ہائے یہ مجبوری، یہ موسم اور یہ دوری” ـ بارش کے موسم میں محبوب سے وصل کی حسرت پر اس سے بہتر نسائی احتجاج شاید ہی کوئی اور ہو ـ زینت امان نے اپنی اداؤں اور برستے موسم میں جلتے جسم کی حرکات سے اس گیت کو دو آتشہ کر دیا ہے ـ

70 کی دہائی کے بعد بدلتے وقت کے تناظر میں بے حجابی بڑھتی گئی ـ جنسی جذبات زیادہ کھل کر دکھائے گئے البتہ بے حجابی کو جمالیات کے دائرے میں رکھنے کی کوشش بھی کی گئی ـ اس حوالے سے سب سے اچھی مثال امیتابھ بچن اور سمیتا پاٹل کی دی جا سکتی ہے ـ 1982 کی فلم “نمک حلال” کے گیت “آج رَپَٹ جائیں تو ہمیں نہ اٹھیّو” میں دونوں فنکاروں نے بھیگے موسم میں بے حجابی کے جو مناظر دکھائے ان سے شاید ہی کوئی فلم بین محظوظ ہوئے بغیر رہ سکے ـ اس سے پہلے 1979 کی فلم “منزل” کے گیت “رم جھم گرے ساون ـ سلگ سلگ جائے من” میں امیتابھ بچن، موسمی چٹرجی کے ساتھ بھی ایک خوب صورت گیت فلما چکے تھے ـ البتہ “منزل” کے گیت میں بے حجابی کے بجائے ہلکا پھلکا رومانس ہے ـ دو پریمی بارش کے موسم میں ممبئی کی سڑکوں پر خوشی کے عالم میں دوڑ رہے ہیں، مستقبل کے شیریں سپنے بُن رہے ہیں ـ 80 کی دہائی میں سمیتا پاٹل کی روایت ہی آگے بڑھتی نظر آئی ـ

سمیتا پاٹل کی روایت کی بہترین نمائندگی اداکارہ سری دیوی نے فلم “مسٹر انڈیا” میں کی ہے ـ فلم کے گیت “کاٹے نہیں کٹتے ، یہ دن یہ رات” میں سری دیوی نے نیلی ساڑھی کے ساتھ پانی کو تقریباً جلا دیا ہے ـ اس گیت میں ان کا رقص، ادائیں اور وصل کی خواہش میں تڑپ ان کے فلمی کیریئر میں اہم مقام رکھتے ہیں ـ اسی روایت کی ایک اور کڑی کرینہ کپور ہیں ـ 2003 کی فلم “چمیلی” کرینہ کپور کی اداکارانہ صلاحیتوں کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے ـ اس فلم کے گیت “بھاگے رے من” میں انھوں نے رنگی بھرنگی ساڑھی کے ساتھ برستے موسم سے جو اٹھکیلیاں کی ہیں وہ انھیں سابقہ سینئرز کی صف میں کھڑا کر دیتی ہیں ـ “چمیلی” کی کرینہ کپور لیکن سمیتا پاٹل و سری دیوی سے اس طرح ممتاز ہیں کہ وہ فلم میں کسی کی محبوبہ نہیں بلکہ سماج کی نظروں میں راندہِ درگاہ طوائف ہیں ـ یہ خاصیت اس گیت کو بالکل مختلف معنویت عطا کرتی ہے ـ

یہ روایت نوے اور اس کے بعد کی دہائیوں میں مزید بے باک ہو جاتی ہے ـ 1994 کی فلم “مہرہ” کے ایک گیت میں روینہ ٹنڈن برسات کے باعث اپنے دل میں مچل اٹھتے جذبات کو لہرا لہرا کر بیان کرتی ہیں ـ “ٹپ ٹپ برسا پانی، پانی نے آگ لگائی” ـ پانی میں لگنے والی آگ وصل کی خواہش کو ناقابلِ شکست بنا دیتی ہے، دل محبوب کو پکار اٹھتا ہے ـ اس کیفیت کی ترجمانی کاجول نے فلم “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” میں “میرے خوابوں میں جو آئے” کے ذریعے کیا ہے ـ تاہم کاجول کا انداز از حد بے باکانہ ہے جب کہ ایشوریہ رائے نے فلم “تال” کے خوب صورت گیت ” تال سے تال ملا” میں اس خواہش کو زیادہ دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors

پیار، محبت اور برسات کی کہانی خاصی طویل ہوگئی اس درمیان کسانوں کے جذبات رہ گئے ـ کسان اور برسات کے تعلق کو ہندی سینما میں کیسے دکھایا گیا، کوشش کریں گے اس پر اگلی نشست میں بحث کریں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply