تصورِ تقدیر/ادریس آزاد

یہ احساس کہ کوئی ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے، فطری ہے۔ بطورِ خاص توحید پرست مذاہب میں۔ دراصل تصورِ تقدیر خود سب سے پہلی اور سب سے بڑی سازش کا تصور ہے۔ جب ہم اپنی مرضی سے کچھ کرنا چاہیں اور کر نہ سکیں تو یقیناً کوئی قوت ہے جو ہمیں ہماری مرضی کرنے نہیں دیتی۔ فقط ایسا کہنا ہی کہ “کوئی قوت ہے جو ہمیں ہماری مرضی کرنے نہیں دیتی”، تقدیر ایجاد کرنے کے مترادف ہے۔

ہر وہ شخص جو کنسپریسی تھیوری کے خلاف ہے اور اسے بیمار ذہنوں کی اختراع قرار دیتا ہے، لازم ہے کہ وہ تصورِ تقدیر کی سنگینی سے بھی باہر نکل آئے۔ اپنے آپ کو خودمختار تصور کرے اور ہمیشہ اپنی مرضی اور اپنے فیصلوں کو اپنے نتائج کا ذمہ دار سمجھے۔ اگر کوئی شخص عام زندگی میں تو نظریہ تقدیر پر یقین رکھتا ہے لیکن جب بعض ملکی یا سیاسی مسائل کا ذکر ہو تو یہ کہہ کر “ہم کنسپریسی تھیوریز کو نہیں مانتے”، وہ اپنا دامن نہیں بچا سکتا۔

ہمارے خلاف کوئی سازش کر رہا ہے، یہ احساس اِس لیے فطری ہے کیونکہ یہ انفرادی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں ہر شخص کے اندر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ساس پر تعویذ گنڈے کا الزام لگانے سے لے کر “خدا نہیں چاہتا کہ میں یہ کام کروں” تک، یا “فلاں فوت ہوگیا تو یہ اللہ کی مرضی تھی” کہنے تک، سب کچھ اِسی احساس کی بدولت ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔

دراصل ہر اُس معاملے میں جس میں کہ انسان اپنے آپ کو بےبس محسوس کرتا ہے، وہ اپنے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں کسی نہ کسی طاقت کو سازشی قرار دے رہا ہوتا ہے۔ کوئی قوت سازش کر رہی ہے یا، کوئی ملک سازش کر رہا ہے، یا کوئی مافیا سازش کر رہا ہے، یا کوئی ادارہ سازش کر رہا ہے، یا تقدیر سازش کر رہی ہے یا خُدا سازش کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ الغرض اپنی بے بسی کا ذمہ دار اپنے آپ سے زیادہ طاقتور کو قرار دینا قطعی طور پر فطری ہے۔ کمال اس شخص کا ہے جو سب سے پہلے تقدیر پرستی سے انکار کر دے۔

وہ، یہ یقین حاصل کر لے کہ وہ اپنے عمل کا خود خالق ہے۔ آزاد اور خودمختار ہے۔ اس کو ملنے والے تمام تر نتائج اُس کی اپنی “کیتی کرتی” ہیں، تو پھر یقیناً وہ شخص، وہی شخص ہوگا جو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے خلاف پیدا ہو جانے والے نتائج کو کسی کی سازش قرار نہیں دےگا۔ اور یہ یقین کہ “میں خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوں” یونہی حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے پوری قوت سے ہر کلیشے، ہر توہم پرستی، ہر دقیانوسیت، ہر جبر، اور ہر مجبوری کے خیال کو یکسر ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کا اقبالؒ نے بہ اصرار ذکر کیا۔

سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار

غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

یا

غلامی میں نہ کام آتی شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ سکتی ہیں زنجیریں

Advertisements
julia rana solicitors

یہ یقین صرف اپنے آپ پر پیدا کرنا ہوتا ہے کہ “میرے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ تقدیر کا کام نہیں ہے بلکہ میرا اپنا کیا دھرا ہے”۔ بس اسی بات کا یقینِ کامل حاصل ہونے کی دیر ہے پھر قومیں فی الواقعہ آزادی حاصل کر سکتی ہیں۔ جب تک اس یقین کا فقدان ہے اور تقدیر، ہماری زندگیوں میں بطور سازشی کردار کے موجود ہے، ناممکن ہے کہ ہم فی الواقعہ آزادی حاصل کر پائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply