پکڑ/جمیل آصف

فیس بُک پر ایک بہن نے اپنا مسئلہ بتایا کہ ۔۔

“میری عمر   33 سال ہو چکی ہے بڑی بہن 38 سال کی اور بھائی 40 سال کے ہو چکے ہیں۔ والدین شادیاں کرنے سے گریزاں ہیں۔ رشتے آتے تھے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتے، مختلف شرائط رکھتے رہے، خامیاں نکالتے ہیں اور پھر منع کر دیتے ہیں۔ اچھے خاصے معقول رشتے اس کشمکش میں نکل چکے۔ اللہ جانے وہ کیا چاہتے ہیں؟ انہیں جب انکی ذمہ داری کا احساس دلائیں تو والدہ طنز و تشنیع، طعنے لعنتیں دیتی ہیں ، بددعاؤں سے نوازنے لگتی ہیں ۔

(“اگر میں کورٹ میرج کر لوں کیا روز قیامت میری پکڑ تو نہیں ہو گی؟”) کیونکہ اس ماحول میں رہتے ہوئے گھر بسنا بھی مشکل ہے اور میں بڑے بہن اور بھائی کی طرح اپنی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی۔ “

کورٹ میرج اچھا اقدام ہے یا برا اس پر معاشرے کی دو رائے رہی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں ایسے رویے اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ اصل سوال تو اس بابت روز قیامت اولاد سے ہو یا نا ہو لیکن والدین سے انکی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بابت ضرور ہو گا کہ اولاد کے حقوق ادا کرنے میں ان کی عزت، آبرو، تعلیم و تربیت کے ساتھ معاشی و نفسیاتی آسودگی میں کہاں تک وہ اپنے فرائض ادا کر چکے ہیں؟

ہمارا المیہ یہ ہے  کہ قرآنی آیات و احادیث کی من چاہی تشریح جس میں اپنا فائدہ اور فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس کی آڑ لے کر دیگر رشتوں کے حقوق کی پامالی اور استحصال کرنے میں برصغیر کا معاشرہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نظام ِ کائنات کی بقاء کے لیے جانور اور انسان اپنی نسل بڑھانے کے لئے ازدواجی رشتوں میں بندھتے ہیں۔ اور انہیں پرورش اولاد میں فطرت نے بہت سی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔

بدقسمتی سے جانور اپنی ذمہ داریاں بِنا کوئی احسان جتائے سرد و گرم حالات میں مکمل کر کے اپنی اولاد کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ تاوقتیکہ وہ اپنی خوراک سے لے کر جنسی خواہشات کی تکمیل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، یہیں تک ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جسے ہر جانور احسن طریقے سے ادا کرتا ہے مگر انسانوں میں بچے سب پیدا کرتے ہیں، لیکن ماں باپ کے مقام پر فائز بہت کم لوگ ہوتے ہیں وہ مقام اولاد کے ضمن میں ان کے فرائض اور ذمہ داری ادا کرنے سے ہوتا ہے۔

ان کی جسمانی، ذہنی، تعلیمی اور معاشی تربیت کے ساتھ ازدواجی زندگی میں انکی مناسب وقت پر ایک اچھے، باوقار اور سلجھے ساتھی کے انتخاب میں معاونت کے ساتھ اچھے خوشگوار ماحول میں ازدواجی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اکثر ہوتا اس کے برعکس ہی ہے۔

جب وہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کریں اور کسی حد تک مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کریں تو اولاد کی جانب سے ذمہ داریوں کا احساس دلانے پر انہیں نافرمان، بددعاؤں کے ذریعے ذہنی اذیت کا شکار کرنا، سماجی مقاطعہ سے دو چار کرنے، ان کے معاشی معاملات میں رکاوٹ اور اپنی ہٹ دھرم حاکمیت قائم کرنا یہ اکثر والدین کا عام چلن دیکھا جاتا ہے۔ ایسے والدین پھر اولاد کے باغیانہ رویے کا سامنا کرتے ہیں۔ خود کے ساتھ اولاد کو بھی معاشرے میں تماشا  بنا کے رکھتے ہیں۔

گھر کے ماحول کی ذمہ داری اکثر خاتون کے رویے پر منحصر ہوتی ہے تو بیشتر خواتین کی نفسیات اس کے میکے کے ماحول کی تربیت پر استوار ہوتی ہے۔ اگر ان کے والدین احساس ذمہ داری کے حامل ہوں، اولاد کی عزت اور ان کی معاشرے میں بہتر شناخت اور اچھے مستقبل کی تگ و دو میں معاونت کرتے رہیں، مناسب وقت میں معاش کے ساتھ ازدواجی زندگی کے موقع فراہم کریں تو وہ ترقی کے زینے طے کر جاتے ہیں۔

اس کے برعکس تنگ نظر، کم فہم اور تناؤ زدہ گھروں سے تربیت یافتہ مرد و زن اپنی ازدواجی زندگی میں خود کے ساتھ اردگرد کے ماحول اور اپنی نسل تک کی زندگی کو دیمک زدہ کرتے ہوئے دنیا سے ناخوشگوار اثرات کے ساتھ انتقال کر جاتے ہیں۔

اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے گھر کی بنیاد اور بہتر نسل کی آبیاری کے لیے ایک خوبصورت بات بیان کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اولاد کا پہلا حق باپ کے ذمہ اس ماں کا انتخاب ہے جو اچھے اخلاق، اطوار اور مزاج کے ساتھ مہذب خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply