سعودی صحرا کے دستکار اور مجسمہ ساز۔۔منصور ندیم

انسان جب کسی خطے یا ماحول میں پیدا ہوتا ہے تو قدرت نے انسانی وجود میں یہ وصف رکھا ہے کہ انسان کا اس خطے سے ماحولیاتی ربط پیدا ہوجاتا ہے، قدرتی طور پر انسان کا اپنے ماحول سے گہرا رشتہ اور انسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس خطے کے موسم میں انسانی قالب کا توازن پیدا ہوجاتا ہے، وہاں کا رہن سہن، پہناوے اور کھانے پینے کا وسائل وہ اس ماحول ہی سے لیتا ہے۔

آج کے عرب ممالک یقیناً معاشی طور پر اس قدر آسودہ ہو چکے ہیں کہ ہمارے ہاں بظاہر جو ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ عرب ممالک کے لوگ کسی قسم کی محنت نہیں کرتے حالانکہ قدیم زمانے کے عرب باشندے اور صحرا نشین گھر بنانے، گھریلو سامان تیار کرنے، قالین بننے اور دیگر دستکاری کا فن ماحول ہی سے حاصل کیے ہوئے تھے۔ بلکہ آج بھی سعودی عرب کے قبائلی علاقے، سرحدی علاقے اور صحراؤں میں محنت کش، ہنر مند اور دستکار موجود ہیں۔

ھلیل الحارثی قالین ساز:

ایسے ہی ایک صحرا نشین ھلیل الحارثی جزیرہ عرب کے ایک قدیم فن کو آج بھی اپنی روایتی شکل میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ھلیل الحارثی مویشیوں کے بالوں سے خیمے اور انواع و قسم کی اشیا تیار کرتے ہیں۔ اس فن کو سعودی عرب میں ’سدو انڈسٹری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ھلیل الحارثی کا یہی روزگار ہے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اون سے مختلف اشیا تیار کرنے میں لگا دی۔ انہوں نے یہ فن اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔ ھلیل الحارثی کا تعلق ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے جزیرہ عرب کے قدیم زمانے سے اس ہنر کو اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے۔

قدیم عرب میں مرد کی ذمہ داریاں الگ ہونے کی نسبت سے قدیم عہد تک یہ کام عام طور پر خواتین کا سمجھا جاتا ہے۔ اور آج بھی کئی مقامی خواتین اس سے وابستہ ہیں، عرب کی صحرا نشین خواتین اپنی مہارت سے ان دستی مصنوعات میں رنگ بھر دیتی ہیں اور انتہائی خوبصورت چیزیں تیار کرتی ہیں۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جو خاص موسم سے جڑی ہوئی ہیں۔

عرب میں زیادہ تر اون سے زرق برق قالین تیار کیے جاتے ہیں جن کے رنگ اور ڈیزائین صحرا کے ماحول سے متاثر ہو کر بنائے جاتے ہیں۔ھلیل الحارثی کی والدہ پوری بستی میں اس دستکاری کے لیے معروف تھیں، ھلیل الحارثی بچپن ہی سے اپنی ماں کی مدد کیا کرتے تھے ۔

کچھ دہائیوں پہلے تک ھلیل الحارثی کے مطابق

” پہلے یہ کام بہت سادہ نوعیت کا ہوتا تھا اور ان کی والدہ سیدھے سادے انداز میں خیمے بناتی تھیں، لیکن اب اس کام میں جدت پیدا ہوگئی ہے۔ خیمہ سازی میں پرانے اندازکے طور طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک لمبی لکڑی لے لی جاتی یہ ایسی ہوتی جس کے دونوں کونے دھار دار ہوتے۔ یہ لکڑی دھاگوں کو جمع کرنے کے لیے استعمال کی جاتی۔ اسی طرح سے ایک اور لکڑی لی جاتی تھی جس کی شکل پنکھے جیسی ہوتی اس پر دھاگے چڑھائے جاتے تھے اور حسب ضرورت اس سے دھاگا لیا جاتا تھا۔‘

لیکن اب ھلیل الحارثی کا کہنا ہے کہ اب نئے ڈیزائن اور مختلف رنگوں کے امتزاج سے چیزوں کو زیادہ پرکشش بنا کر ہی بیچنا ممکن ہے، وقت کی تبدیلی اور جدت کے ساتھ ان کے پاس زیادہ آسانی سے اون کے دھاگے دستیاب ہیں جنہیں رنگنا اور تیار کرنا آسان ہوگیا ہے۔

ھلیل الحارثی اپنے ہاتھوں سے بنائے اون کے یہ قالین ایک ہزار سے 20 ہزار ریال میں فروخت کرتے ہیں، ان کی تیاری میں انہیں ایک ہفتے سے ایک ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

سنگ تراش جبران سالم:

سعودی عرب کے شہری جبران سالم یمن اور سعودی عرب کی سرحد کے قریب جنوبی جازان کے ایک علاقے میں رہتے ہیں، جبران سالم کی عمر تقریبا پچاس سال کے قریب ہے، جبران سالم ایک منجھے ہوئے مجسمہ ساز ہیں یہ پتھروں کو گھریلو سجاوٹ کی خوبصورت اشیا اور حیرت انگیز لوازمات میں تبدیل کر سکتے ہیں۔جبران سالم کے پاس یہ ہنر ان کے والد سے منتقل ہوا ہے اور انہوں نے اسے کمال تک پہنچا دیا ہے۔

منجھے ہوئے مجسمہ ساز جبران سالم اپنے فن کے لئے پہاڑوں سے پتھر نکالنے کے لیے لوہے کے بنے ہوئے قدیم زمانے کے اوزار استعمال کرتے ہیں۔ انہیں پتھروں کو تراشنے اور صحیح قسم کے پتھر تک پہنچنے کے لیے 20 میٹر تک کھدائی کرنی پڑنی ہے۔ ان کے پرانے اوزاروں کی وجہ سے یہ کام کافی محنت طلب بن جاتا ہے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر سرخ مٹی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس پہاڑ کے پتھر سے مجسمہ سازی کی جاسکتی ہے اور اس سے نئی شکلیں تراشی جا سکتی ہیں۔

اس کام کو کرنے کے لیے مجسمہ ساز کے پاس بڑی مہارت ہونی چاہیے کیونکہ یہ آسان کام نہیں ہے۔ جبران سالم بڑے پتھر کو چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرنے کے لیے 200 سے زائد اوزار استعمال کرتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں ڈھال دیتے ہیں۔ وہ بڑی درستگی کے ساتھ برتن، پلیٹس، کپس، کاٹنے اور چمچ بنا سکتے ہیں۔

جبران سالم کے مطابق

’ ان کے والد ایک بہت اچھے مجسمہ ساز تھے اور انہوں نے مجھے 35 برس قبل تمام مہارتیں سکھائیں جنہیں میں آج استعمال کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھے دکھایا کہ ایک پہاڑ کو کیسے پہچانا اور اس میں سے بے عیب پتھر کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، اب میرے بچے میرے کام کو پسند نہیں کرتے اور وہ مجسمہ ساز بننا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ یہ کام خطرناک ہے.”

جبران سالم جبالِ قیس سعودی عرب اور یمن کی سرحد پر واقع علاقے کے باشندے ہیں۔ اس علاقے میں بہترین پتھر پائے جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر سرخ مٹی طلوعِ آفتاب سے قبل نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اس پہاڑ سے حاصل کردہ ایک پتھر سے دس سال تک استفادہ کیا کیونکہ اس پتھر میں عمدہ میٹیریل موجود تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبران سالم تو عرصہ دراز سے پتھروں کے بنے ہوئے ہوئے برتنوں کو بازار میں بیچ رہے ہیں لیکن آج اتنی ترقی کے بعد بھی کھانا بنانے والے برتنوں میں “پتھر کے بنے ہوئے برتنوں” (Ceramic cookware) میں کھانا بنانا صحت کے معاملے میں سب سے بہترین اور ذائقے سے کھانے کا مزدہ دوبالا کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ برتن کھانے کو ایک مخصوص ذائقہ دیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply