لبرل ازم لدھیانوی براستہ ہٹلر

توقع کے برخلاف مولانا کو بہت خوش اخلاق پایا، بے حد مہمان نواز ہیں۔ فرقہ پرستی پہ ان کی رائے یہ تھی گو کہ ہمارا فرقہ ارفع ترین ہے لیکن ہم فرقہ پرستی پہ یقین نہیں رکھتے ہمارا ماننا ہے کہ ہر فرقہ کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور حد سے تجاوز اچھی بات نہیں۔ ہم پرامن جدوجہد پہ یقین رکھتے ہیں اور ہماری جدوجہد جمہوری ہے۔ کجھور کے ساتھ قہوہ انہوں نے خود پیش کیا جو انکی سادگی کی دلیل تھا۔ وہ بے حد متواضع ثابت ہوئے۔
صاف جھلکتا تھا کہ خود فرقہ پرستی کے اندر ایک لبرلزم موجود ہے اور اس فرقہ پرستانہ لبرلزم کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔
اس سے حوصلہ پا کے ہم ہٹلر کی طرف بڑھے۔ ہٹلر کا کردار یہودی نسل پرستوں نے بہت مسخ کردیا ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہٹلر کو بھی واپس عالمی لبرلزم کے دائرے میں لایا جائے؟ اس سے معاشرے میں رواداری بڑھے گی اور برداشت پیدا ہوگی۔ پس یہی سوچ کے اگلا انٹرویو ہر ہٹلر کا بھی کیا، مہاگنی کی میز کے پیچھے سوچتی آنکھوں والا ہٹلر ایک مفکر اور درد مند نسل پرست نظر آیا۔ ہماری ہر بات پہ ڈانکے شون کہنے والا ہٹلر تہذیب و تمدن کا مجسمہ تھا، گرمبرگین کے باویرین بریڈ کے ساتھ کاویار کے چھوٹے ٹوسٹ بہت ہی اعلی تھے۔ ہٹلر نے کاویار اپنے حلق میں ٹھونستے ہوئے بتایا کہ یہ غلط ہے کہ نسل اور ثقافت کے گھٹیا ہونے پہ میں نے چالیس پچاس لاکھ افراد قتل کردئے تھے۔ مرحومین کی تعداد تو بیس لاکھ سے ہی اوپر شائد ہو۔ یہ سب پروپگنڈہ ہے۔ ہم نسل پرست جمہوری اقدار پہ یقین رکھتے ہیں۔ اعلی جرمن نسل کمتر نسلوں اور ثقافتوں پہ جمہوریت کے ذریعہ ہی حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم پہ عالمی ریاست نے ظلم کیا اور نسل پرستی کے ہمارے جمہوری حق پہ جبر کیا جس کی وجہ سے ہم ہتھیار اٹھانے پہ مجبور ہوئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم نسل پرستی صرف اور صرف جمہوری طریقہ پہ نافذ کرتے۔ ہٹلر کے یہ قابل قدر خیالات سن کے خود بخود ہمارا ذہن پاکستان کی ظالم ریاست کی طرف چلا گیا۔ جو باچا خان سے لیکر براہمداغ بگتی یا جی ایم سید تک ہر نسل پرست اور لسان پرست پہ جبر ہی کرتی آئی۔ ہماری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ یہی تو وہ نظریہ تھا جس کا ہم آج تک لبرلزم کی بنیاد پہ پرچار کرتے رہے۔ کیا یہ ہمی نہ تھے کہ نسل اور لسان کے فرق کی بنیاد پہ بندوق اٹھانے والوں سے ہمدردی کرو اور اگر ریاست نسلی اور لسانی نفرت کا انکار کرتی ہے تو اس ظالم ریاست کو مطعون کرو؟؟
اللہ اللہ کہاں ہم اور کہاں عظیم ہٹلر؟ لیکن بڑے دماغ آپس میں کتنے ملتے جلتے ہوتے ہیں؟ ہٹلر کے ساتھ مل کے بے حد خوشی ہوئی۔ ہمارا ہی نظریاتی بھائی نکلا جو نسل پرستی اور لسان پرستی پہ کامل یقین و ہمدردی رکھنا والا نسل پرست لبرل بھائی نکلا۔ یقین کیجئے ہٹلر ایک بے حد صلح پسند اور انسان لبرل دوست نسل پرست تھا۔
ہمارا اگلا انٹرویو بینجمن نِتن یاہو سے ہوگا ہمیں یقین ہے کہ صیہونی نسل پرستی بھی بالاخر لبرل ہی ہوگی۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply