ن لیگ جانتی ہے الیکشن کیسے لڑنا ہے۔۔۔شہزاد سلیم عباسی

لند ن کے ہفتہ وار میگزین دی اکانومسٹ کے مطابق مسلم لیگ ن ہی 2018کے عام انتخابات میں مضبوط حکومت کے طور پر سامنے آئے گی۔تاہم بزنس کا ماحول اور ترقی کی شرح سست روی کا شکار رہے گی۔میگزین کے مطابق پیپلزپارٹی کو بے نظیر کی شہادت کے بعد نرمی کا ووٹ پڑا جسے آصف علی زرداری نے بری طرح Exploit اور مہنگائی اوربدترین کارکردگی سے اپنی جماعت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ اسی طرح تحریک انصاف نے صوبائی حکومت سنبھالتے ہی پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن دھر نا دیکر عوام کو ہیجان میں مبتلا کیے رکھا اور Overall کے پی میں کوئی کارہائے نمایا ں نہیں دکھا سکی جس سے ووٹر بھی کچھ پریشان اور تذبذب کا شکار دکھائی دیا۔ جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن نے انفراسٹرکچر اور انرجی سیکٹر میں نمایا ں کارکردگی دکھائی ہے اور اس کے ساتھ آئل کی قیمتوں میں واضح کمی نے بھی عوام کے لیے سکھ کا سامان کیے رکھا جس سے معیشت پر بھی نسبتا بہتر اثرات مرتب ہوئے۔ ایشین ریویو کے مطابق ٹرانسپورٹیشن اور بنیادی انفراسٹرکچر پنجاب حکومت کا طرہ امتیاز رہے اور سب سے بڑاکام جو مسلم لیگ ن نے کیا وہ پاک آرمی کی گارنٹی پر چائینہ سے امداد کو پاکستان لا کر پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کا آغازکرنا ہے۔
گیلپ سروے کے مطابق نواز شریف نااہلیت کے باوجود بھی لیڈرز میں سب سے ٹاپ پر ہیں۔عمران خان دوسرے اور بلاول بدستور تیسرے نمبر پر ہیں۔سروے کے مطابق 34 فیصد لوگ الیکشن ہونے کی صورت میں نواز شریف کو،26 فیصد پی ٹی آئی کواور 15فیصد پی پی کو ووٹ دیں گے۔اور پنجاب میں ن لیگ کو 50فیصد،پی ٹی آئی کو 31 فیصد جبکہ پی پی کو 5فیصد ووٹ پڑنے کے امکانات ہیں۔الف اعلان کے تعلیمی سروے کے مطابق صوبہ پنجاب اور کے پی میں تعلیمی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی اور دونوں نے سروے پو ل میں سی کیٹگری لی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار کے آواخرمیں کافی منصوبہ جات کے فیتے کاٹے ہیں اور تختیاں لگائی ہیں جن سے بہرحال کچھ حکومتی کارکردگی میں نکھار نظر آیا ہے۔بالخصوص فاٹا کو صوبہ خیبرپختون خواہ میں ضم کرنے کا شاندار کارنامہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے جو کہ در اصل فاٹا کے عوام اور سیاسی جماعتوں (سوائے جمعیت علمائے اسلام اور پشتون ملی پارٹی) کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
دو بڑے شہروں لاہور اور راولپنڈی کے ایک غیر جانبدار سروے کے مطابق پی ایم ایل این عام انتخابات میں واضح برتری حاصل کرے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے پارٹی گراف کے لیے کام کرنے سے زیادہ توجہ دھرنوں اور سازشوں کے تانہ بانہ بننے والوں کی باتوں پر دی۔اور اپنے دور حکومت میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں سابق وزیر اعلی پرویز خٹک کے کارکردگی کو مانیٹر نہیں کیا اور انہیں کھلی چھوٹ دے کر انصاف کے منہ کو تالا لگا دیا۔ عمران خان نے اپنے دائیں بائیں گروپ بنائے۔ عمران خان نے پارٹی میں لوگوں کو بغیر کسی ویریفیکیشن اور جانچ پڑتال کے لیا جوعمل تطہیر ہنوز جاری ہے اور سارے گامے ماجے اور ایرے غیرے نتھو خیرے اپنی انقلابی، انصافی پارٹی میں بھر رہے ہیں اور نعرہ مستانہ ”نیاپاکستان“اور”دو نہیں ایک پاکستان“ کا راگ الاپ کر چیف ایگزیکٹو کی کرسی کے رنگین سپنے دیکھ رہے ہیں۔عمران خان کے سر پر امتحانات اور آزمائشوں کا ڈھیر ہے۔جہانگیر ترین فنانسر کی صور ت میں سب سے بڑی اور کڑی آزمائش ہے کہ ہر قسم کی اندونی پارٹی تنقید کے باوجود عمران خان جہانگیر ترین کی ذات پر کوئی بھی بات سننے یا کرنے کو تیار نہیں، کیوں کہ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب سے ن لیگ کے باغی گروپ کو لیکر آئے اور اس کے علاوہ تمام ترElectables کی پارٹی میں شمولیت بھی ان ہی کی مرہون منت ہے۔ عمران خان کے اصحاب شمال شاہ محمود قریشی ہیں جن کا الگ گروپ(فارورڈ بلاک) ہے، جہانگیر ترین کی شخصیت کے قطعی مخالف ہیں۔اس تمام تر خراب صورتحال کے باوجود بھی عمران خان چپ سادھے ہیں اور الیکشن 18ء پر نظر جمائیں ہیں کہ کب امپائر کی انگلی اٹھے گی اور کرسی وزارت عظمی پر جلوہ افروز ہونے کا اشارہ و کنایہ دے گی!!
جو صورتحال دھر نے کے بعد نواز شریف کے ساتھ پیش آئی وہ قابل التفات ہے کہ نواز اینڈ کمپنی بال بال بچے تھے کہ ایک لشکر عمران خان کو لانے کے لیے بالکل تیار تھا اور نواز و شہباز کو فون کالز کے ذریعے الرٹ کردیا گیا تھا کہ بس اب بہت ہو چکا گھر جانے کی تیار ی کرو لیکن چوں کہ نواز شریف کے پاس عوام کا بھار ی مینڈیٹ تھا جس کا مشاہدہ کرتے ہوئے شاید غیر مرئی ہاتھ نے عمران خان کو پیچھے کرنے میں ہی عافیت جانی۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن، پانامہ کے ہنگامہ خیز انکشافات اور اقامہ کا ٹیکہ نواز شریف کی کرسی اور پارٹی صدارت میں آخری کیل ثابت ہوئے اور میاں نواز شریف کو منصفین نے نااہلیت کا پروانہ دے کر رخصت کر دیا اورپے  در پے  عدالتی احکامات کے وار کر کے زخمی شیر کے جسم میں ایک بار پھر سے جان ڈال دی۔اور وہ نئی توانائی اور دل فریب نعرے کے ساتھ میدان عمل میں آئے اور”مجھے کیوں نکالا“ اور ”ووٹ کو عزت دو“ کے انتخابی نعروں سے مقبول ہوگئے۔ نوازشریف کی عوامی رابطہ مہموں سے ایک بات بڑی واضح ہو تی ہے کہ عوام نے نواز شریف کا چناؤ اگلے انتخابی مرحلے کے لیے بھی کر دیا ہے اور ویسے بھی مسلم لیگ ن جانتی ہے کہ الیکشن کیسے جیتنا ہے۔ نواز شریف کی عوامی مقبولیت میں نااہلیت کے باوجود بھی اضافہ اس وقت ہو ا جب پی پی پی، پی ٹی آئی اور دوسری تمام تر پارٹیوں کے پیشہ وروں،ڈیلروں، راشیوں، اصولوں کے سوداگروں اور قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑانے والوں کو کلین چٹ دے کر منصف نے صر ف نواز شریف کا احتساف شروع کیا، جس کا الٹا منفی اثر عدالتوں اور دوسرے اداروں پر پڑا۔ اے کاش کہ جمہوری روایتوں کی پامالی سے گریز کیا جائے اور انصاف کا بگل ہر پارٹی، ہر مجرم اور ہر عام و خاص کے لیے بجے،جس میں ہر ادارے، ہر شعبے، مسلک، جماعت اور آدمی کو ایک ہی کٹہرے میں لا کر کڑے احتسابی عمل سے گزرا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply