• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آزاد کشمیر میں شیڈیولڈ بلدیاتی الیکشن کے موضوع پر سی پی ڈی آر کے کراس پارٹی ڈائیلاگ/قمر رحیم

آزاد کشمیر میں شیڈیولڈ بلدیاتی الیکشن کے موضوع پر سی پی ڈی آر کے کراس پارٹی ڈائیلاگ/قمر رحیم

آزادکشمیر میں آخری بلدیاتی الیکشن 1991ء میں ہوئے۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔پیپلزپارٹی کی حکومت (2011ء تا2016ء)نے الیکشن کے انعقاد کا وعدہ کیا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔خواجہ فاروق حیدر صاحب کی قیادت میں ن لیگ کی حکومت(2016ء تا2021ء) نے الیکشن کا اعلان کیا مگر یہ بیل بھی منڈے نہ چڑھ سکی۔ان دونوں ادوار میں حکومتیں بلدیاتی اداروں میں سیاسی ایڈجسٹمنٹس کے ذریعے کام چلاتی رہیں۔

مزید برآں،پیپلزپارٹی کے دور میں تقریباً 200سیاسی کارکن کوآرڈی نیٹر بنائے گئے۔ان کو آرڈی نیٹرز کی ذمہ داریاں اور اختیارات کیا تھے، اس کا علم خود کو آرڈی نیٹرز کو بھی نہیں ہو سکا۔ان عہدہ ہائے جلیلہ کی تخلیق اور تقسیم نے سیاسی کارکنوں اور سیاسی عمل کو وہ عزت بخشی جس کی ہماری تاریخ میں مثال ملنا محال ہے۔خواجہ فاروق حیدر صاحب اس مثال کو روایت بنانے سے قاصر رہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حالیہ حکومت بلدیاتی الیکشن کا شیڈیول جاری کرنے کے باوجود اس خوبصورت مثال کو روایت بنانے پر مصر ہے۔ فرق عہدوں کے نام پر ہے۔ ہفتے عشرے بعد کوئی نہ کوئی عہدہ شاہراہ غازی ملت پر بہنے والی‘‘ٹھنڈی کسی’’ سے برآمد ہوتا رہتا ہے۔ ہر ایک عہدے کا‘ فقیدالمثال ’ استقبال بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے ، سننے کو ملتا ہے۔

ہمارے پولیٹیکل سائنس کے کسی بچے نے اگر کبھی آزاد کشمیر کی سیاست پر کوئی کام کیا تو اسے ان عہدوں کے لیے ‘‘خیراتی عہدے’’ کے علاوہ کوئی دوسری اصطلاح نہیں ملے گی۔ سیاست ایک عظیم خدمت ہے۔چاروناچار ہر کارکن کو کرنا پڑتی ہے۔ مگر اپنے مقام پر رہتے ہوئے، اپنی عزت نفس کو بحال رکھتے ہوئے۔ خدمت کے ساتھ سیاست شطرنج سے ملتا جلتا سماجی عمل ہے۔ اس میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو خدمت کے جذبے سے سرشار اور شطرنج کے کھیل سے واقف ہوں۔ آزاد کشمیر کے سیاسی کارکن بلاشبہ خدمت کے میدان میں صف اول میں رہے۔ مگر جہاں باری شطرنج کی آتی ہے، ہماری قیادت گھوڑے اور پیادے لے کر کیرم بورڈ پر بیٹھ گئی۔آپ کسی بھی مین سٹریم سیاسی کارکن کو چھیڑ کر دیکھیں، اس کے دل سے اٹھنے والا دھواں آپ کی آنکھیں نم کر دے گا۔ سیاسی کارکنوں کو سیاسی عمل سے ہٹا کر خیراتی عمل کا حصہ بنانے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ سرمائے نے ان کارکنوں کو ہی نہیں ، جینؤئن سیاسی عمل کی پیٹھ پر بھی لاتیں مارنا شروع کردیں۔

بلدیاتی انتخابات کو موخر کرنے کے یہ وہ دو نقصانات ہیں جو مجھ جیسے نمدا بُدھ کو بھی نظر آرہے ہیں۔ورنہ فہرست تو بہت لمبی ہے۔ جبکہ ہماری قیادت آج بھی اس مخمصے کا شکار ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے کیا فائدہ ہو گا؟مقامی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شاہین اختر صاحبہ نے اس ضمن میں کیے گئے سوال کا مدلّل جواب دیا لیکن وقت کی کمی کے باعث بات کھل کر نہ ہوسکی۔یہی وجہ ہے کہ ہم متذکرہ دو نقصانات پر بے پڑھی باتیں کرنے پہ مجبور ہوئے۔متذکرہ کراس پارٹی ڈائیلاگ میں لوکل باڈیز الیکشن کے سلسلہ میں فقط تجاویز مانگی گئی تھیں۔

اس لیے آزاد کشمیر کی دو بڑی سیاسی شخصیات صدر مسلم لیگ ن جناب شاہ غلام قادر صاحب اور صدر پاکستان پیپلزپارٹی جناب چوہدری لطیف اکبر صاحب کے پاس اتنا وقت نہ بچا کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں ہونے والی 31سالہ تاخیر کی وجوہات پر روشنی ڈال سکتے۔البتہ سابق سیکریٹری جناب سلیم بسمل صاحب کے مطابق بیوروکریسی اور اسمبلی ممبران ، دونوں فریق اس تاخیر کا باعث ہیں۔انہوں نے ایک بنیادی نقطے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ہم لوکل سطح پر ٹیکس سسٹم نہیں بنا سکے۔لطیف اکبر صاحب نے بھی لندن اور نیویارک کی مئیر شپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کے مئیر ز مرکزی حکومت کی مالی امداد کے محتاج نہیں ہوتے، بلکہ وہ انہیں فنڈز مہیا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اسمبلی ممبران بلدیاتی الیکشن کے خلاف ہیں۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ الیکشن ہوں تاکہ ان کا بوجھ بھی کم ہو سکے۔

ان کا اعتراض اس بات پر ہے کہ الیکشن بغیر تیاری کے ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن پر دونوں سیاسی قائدین سمیت عثمان عتیق صاحب نے بھی کڑی نکتہ چینی کی۔ عثمان عتیق صاحب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس چار سال تک سوائے ووٹر لسٹیں بنانے کے کوئی کام نہیں ہوتا لیکن الیکشن سے دو دن پہلے بھی ضمنی فہرستیں جاری کی جاتی ہیں۔ لطیف اکبر صاحب نے الیکشن کمیشن کے ساتھ ہونے والے دلچسپ تبادلہ خیالات کا ذکر بھی کیا۔ان کا اندیشہ ہے کہ ناکافی سکیورٹی انتظامات الیکشن میں جانی اور مالی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔اس لیے حکومت کو فول پروف سکیورٹی مہیا کرنی چاہیے۔ انہوں نے حکومت کی اس تجویز کو بھی مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن مرحلہ وار کروائے جائیں۔ ان کا خدشہ ہے کہ حکومت کسی ایک ضلع میں الیکشن پر اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتی ہے جو پورے انتخابی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ شاہ غلام قادر صاحب کا کہنا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات ، ذمہ داریوں اور بجٹ میں ان کے حصے کی وضاحت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ تمام ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کو مل جائیں گے۔ کے پی کے میں صرف چالیس فیصد فنڈز ہی بلدیاتی اداروں کو منتقل ہو سکے ہیں۔ان کا کہنا کافی حد تک بجا ہے۔ اس ضمن میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ سابق ممبر یونین کونسل تھوراڑ اور چئیر میں سردار اطاف صاحب نے الیکشن کے انعقاد پر زور دیا۔اس کے علاوہ بھی دیگر شرکائے گفتگو نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ قریباً اڑھائی گھنٹے کی اس نشست میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ہمارے رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔سیاسی رویے سماجی اور ادارہ جاتی رویوں پر براہ راست اور سب سے زیادہ اثر انداز ہتے ہیں۔ہمیں اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی اخلاقیات کی گرتی ہوئی دیواروں کومستحکم کرنا ہو گا اور یہ کام صرف اور صرف سیاسی قیادت کا ہے۔ انفرادی طور پر معاشرے کے کئی ایک سگمنٹس اس پر زور آزمائی کر چکے ہیں مگر نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ اس لیے کہ سیاست ہی معاشروں کو سنوارتی ، نکھارتی اور ان میں استحکام اور بالیدگی پیدا کرتی ہے۔

ہم اس پہلو کو مزید نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ ہماری مین سٹریم قیادت معاشرے کے دیگرطبقات کے ساتھ مل بیٹھنے اور سننے کو تیار ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ان کے اندر تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔سابق وزیر حکومت محترمہ فرزانہ یعقوب صاحبہ نے لطیف اکبر صاحب پر کیے گئے چند سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی اور اس ضمن میں اپنا نقطہ نظر بہت شائستہ انداز میں پیش کیا ۔ متبادل قیادت کے سوال پر سابق سیکریٹری سلیم بسمل صاحب اور لطیف اکبر صاحب کاماننا تھا کہ قیادت خودرو انداز میں پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے۔ درست، مگر قیادت کا اس طرح پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کا رواج یا انداز قدیم معاشروں میں ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں قیادت کو پیدا کرنے کے لیے ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ وہ ماحول ہمارے ہاں اسٹوڈنٹس یونینز نے اور لوکل باڈیز نے مہیا کیاتھا۔ آج آزادکشمیر کی قیادت کی اکثریت انہی اداروں سے نکل کر آئی ہے۔ اور یہی دو ادارے معطل کردیے گئے ہیں۔ لہٰذا ہم مانیں یانہ مانیں ، ہماری گاڑی ریورس گئیر میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک زوال پذیر معاشرے کا سامنا ہے۔ جہاں روز بروز ہمارا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ہمارے آج کا سوال ہے جو ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑا ہے۔ ہمیں اس کا منہ بند کرنا ہو گا۔ میری دانست میں CPDR – Centre for Peace Development and Reformsآزاد کشمیر میں واحد غیر سرکاری تنظیم ہے جوسرگرم عمل ہے۔ جناب ارشاد محمود صاحب ، ڈاکٹر وقاص علی کوثر صاحب اور ان کے دیگر رفقائے کرام مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی نشستوں کے ذریعے ہمیں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ایکٹ 1974ء کی بات ہو، ویمن امپاورمنٹ کا موضوع ہو ، یوتھ امپاورمنٹ کا معاملہ ہو یا اس سے بڑھ کر کراس ایل او سی ڈپلومیسی ، آرپار تجارت یا بس سروس کا معاملہ ہو، سی پی ڈی آر نے مائل اسٹون اچیومنٹس حاصل کی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کا یہ سفر جاری رہے گا اور ہمیں کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع بھی ملتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply