اپاہج لانس نائیک، پنشن 12 ہزار روپے/عامر حسینی

میں میونسپل کمیٹی خانیوال میں جنرل برانچ کے نگران کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں برقعہ پہنے ایک خاتون اندر داخل ہوئی ۔ اُس نے نگران سے کہا کہ اُسے اپنے خاندان کی امداد کے لیے ایک فارم پُر کرانا ہے ۔ نگران فارم پُر کرنے لگا تو پتا چلا کہ یہ آرمی سولجرز فنڈز کو بھیجا جانا ہے ۔ خاتون کا شوہر فوج میں لانس نائیک تھا اور دوران ِ سروس 2002ء میں وہ برین ہیمرج کا شکار ہوکر اپاہج ہوگیا اور فوج سے بطور لانس نائیک ریٹائر ہوگیا ۔ اس وقت اُس کی پنشن 12 ہزار روپے ہے، پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ بڑی بیٹی 20 سال کی لیکن سب بچیوں کو ٹی بی کی شکایت ہے ۔

خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کو سی ایم ایچ ملتان لیکر گئی تھی لیکن وہاں کسی نے اُسے دیکھا تک نہیں ۔ کسمپرسی کے دنوں میں فوج میں اُس کے ساتھی اور جونیئر جن میں سے ایک حوالدار ہوگیا ہے اس گھرانے کی مدد کرتے رہے لیکن مہنگائی کے بدترین دباؤ نے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ساتھیوں کی اپنی حالت پتلی کر رکھی ہے تو اُن میں سے جو حوالدار ہے اُس نے اس خاتون سولجر فنڈز سے امداد کی درخواست دینے کو کہا ۔ اپاہج ریٹائرڈ لانس نائیک کو اس کا اپنا ادارہ نہ تو صحت کی سہولت فراہم کرسکا اور نہ ہی اُس کی پانچ بچیاں جو اُس کی معذوری و ریٹائرمنٹ کے وقت چھوٹی تھیں اور یکے بعد دیگرے ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوئیں جو بگڑ کر ٹی بی میں بدل گیا کی دیکھ بھال کرسکا۔ سی ایم ایچ ملتان، اوکاڑا، ساہیوال کے اربوں روپے کے سالانہ فنڈز  ہیں لیکن یہاں سپاہی رینک کے فرد کا گھرانہ  وہ توجہ نہ پاسکا جس کا وہ مستحق تھا ۔

پاکستان میں غیر ہنرمند مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 25 ہزار ہے اور 50 ہزار سے کم ماہانہ آمدنی والے خاندان کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہونے کا اہل بتایا گیا ہے ۔

میں نے خاتون سے پوچھا کہ انہوں نے اپنا اندراج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کیوں نہ کرایا؟ کہنے لگی کہ 2010 سے وہ مسلسل کوشش کرتی رہی لیکن اندراج نہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی امیدوار حلقہ پی پی ۔ 206 نورین نشاط ڈاہا نے اُسے کہا کہ اُس کا اندراج ہوچکا ہے لیکن جب موبائل ایس یم ایس  سروس پر میسج کیا تو پتا چلا ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے پاس یہ خاتون گئی اور اندراج کی درخواست کی تو اسے کہا گیا کہ وہ اپنا اندراج میسج کے ذریعے کرائے ۔ اُس نے اپنا شناختی کارڈ نمبر میسج کئی بار کیا لیکن اندراج نہ ہوا ۔ کرونا کی وبا کے دوران بھی اُس نے موبائل میسج کے ذریعے اندراج کرایا لیکن اُسے کوئی امداد نہیں ملی ۔

اُس کے بلدیاتی وارڈ سے منتخب کونسلر نے بھی اُس کا اندراج زکوٰۃ فنڈ کے لیے بھیجی جانے والی فہرست میں نہیں ڈالا۔

یہ خاتون شہر کی ایک معروف بستی میں رہائش پذیر ہے جہاں اکثر لوگ مزدوری پیشہ ہیں ۔ 12 ہزار میں یہ اپاہج شوہر، ٹی بی کا شکار پانچ بچیوں اور ایک کم سن اکلوتے بیٹے کے ساتھ کیسے گھر چلارہی ہوگی؟ اس کا اندازہ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے بار بار اس کی رندھی اور روہانسی  آواز سے لگایا جاسکتا تھا ۔

ہماری مسلح افواج میں ایسے کتنے سپاہی رینک کے لوگ ہوں گے جو معذور ہوں یا بڑھاپے میں ہوں اور وہ 12 ہزار روپے پنشن پارہے ہوں گے؟ اُن کے گھر کیسے چلتے ہوں گے؟ کیا وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دے پارہے ہوں گے؟ کتنوں کے پاس اپنا ذاتی گھر ہوگا؟ (خاتون بتارہی تھی کہ حالیہ طوفانی بارشوں میں ان کے گھر کی چھت کا ایک حصّہ اور دیوار منہدم ہوگئی تھی جسے اُس کے شوہر کے کولیگز نے چندہ اکٹھا کرکے تعمیر کرایا۔)

فوج بطور ادارہ 30 ہزار تک پنشن پانے والے سپاہیوں کی فہرست کیوں تیار نہیں کرتا اور اُن کے لیے اضافی فنڈز پارلیمنٹ سے  کیوں منظور نہیں کراتا؟

جبکہ ہر سال وہ مختص فنڈز سے ہٹ کر اربوں روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس وزرات خزانہ سے منظوری لینے میں کوئی سُستی نہیں دکھاتا ۔

کیا 30 ہزار تک کی پنشن پانے والے ریٹائرڈ فوجی اُس کا حصہ نہیں ہیں؟

ہمارا میڈیا ابھی اتنا طاقتور نہیں ہے جو ہمیں آگاہ کرے کہ 80ء کی دہائی کی افغان وار اور پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ میں ملک کے اندر فوجی آپریشنوں کے دوران معذور ہوکر ریٹائرڈ ہونے والے سپاہی رینک کے کتنے لوگ اور اُن کے گھرانے کس حالت میں 12 ہزار سے 30 ہزار کے درمیان پنشن پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ اعداد و شمار آئی ایس پی آر بھی کبھی جاری نہیں کرے گا ۔

اُن میں سے کتنے گھرانوں کے پاس اپنا ذاتی گھر بھی ہے کہ نہیں؟

مسلح افواج کے کاڈرز میں سماجی طبقاتی تقسیم ویسی ہی ایک حقیقت ہے جیسے سویلین اداروں کے ملازمین کے کاڈرز میں پائی جاتی ہے ۔

فوج کے نان کمیشنڈ ملازمین کو نہ تو ریٹائرمنٹ پر رہائشی پلاٹ ملتا ہے اور نہ ہی زرعی زمین ملتی ہے۔ ان میں سے اکثر معمولی تنخواہوں پر اشرافیہ کی بنائی سکیورٹی ایجنسیوں میں بطور گارڈ اور چوکیدار بھرتی ہوکر اپنے گھرانوں کو چلاتے ہیں ۔

نان کمیشنڈ ملازمین میں سب سے بُری حالت لانس نائیک سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی ہوتی ہے ۔

یہ تو 12 ہزار پنشن پانے والے ایک لانس نائک کی کہانی ہے جو معذوری کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر بیٹھا ہے اور اُس کی بیوی امداد کی بھیک مانگ رہی ہے اور ہمیں اس کہانی کا سر ِ راہ چلتے  پتا چل گیا ۔ ” اُس جیسے اور کتنے گھرانے ہوں گے جو اس حالت کا شکار ہیں۔

میڑک پاس غریب پنجابی، سرائیکی، پشتون اور اب اچھی خاصی تعداد میں بلوچستان کے بلوچ اور اندرون سندھ کے سندھی مسلح افواج، رینجرز، ایف سی، پاکستان کوسٹ گارڈز میں بھرتی ہوکر بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں ریاست سے نبرد آزما مسلح گروپوں سے لڑنے کے لیے پیدل سپاہی کے طور پر اپنی جانیں دے رہے ہیں یا کسی مڈبھیڑ میں معذور ہوجاتے ہیں ۔ وہ ریاست کے طاقتور اداروں کی نام نہاد تزویراتی پالیسی کے متاثرہ ہیں ۔ ان متاثرین کا اُن کے ادارے اور خود ریاست کتنا خیال رکھ رہے ہیں، اس اپاہج ریٹائرڈ لانس نائیک کی بیوی کی زبانی سُنی کہانی سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا ۔

عائشہ صدیقہ جسے ‘ملڑی بزنس /فوجی کارپوریٹ سرمائے کا نام دیتی ہے وہ ان پیدل سپاہیوں کے کسی کام نہیں آتا ۔

ریاست بلوچستان، سندھ، کے پی کے اور سرائیکی بیلٹ میں تیل، گیس، معدنیات اور سی پیک پروجیکٹس پر کام کرنے والی اور وسائل سے ہونے والی آمدنی کا 75 فیصد کی حقدار ٹھہرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے  سی اوز سے لیکر دیگر انتظامی افسران کو کالونیل ڈویلپمنٹ کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے بچانے کے لیے جو سکیورٹی آپریشن آپریٹس تشکیل دیتی ہے ان میں سب سے آسان ہدف یہی پیدل سپاہی ہوتے ہیں جو کسی بارودی سرنگ یا گھات کا سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں اور سب سے کم خرچ بھی انہی پر کیا جاتا   ہے ۔ ان پیدل سپاہیوں میں سے آج تک کوئی ایک سپاہی بھی پاپا جونز جیسی کمپنیاں نہیں بناسکا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو بحریہ ٹاؤن یا ڈی ایچ میں رہنے کا موقع  ملتا ہے ۔ یہ سب جنگوں اور تصادموں کا ایندھن بنتے ہیں ۔ ان کے بچے کسی بڑے آرمی اسکول یا کیڈٹ کالج میں جا نہیں پاتے اور یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی کا بوجھ گھسیٹنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سکیورٹی آپریٹس پر تنقید کا لبرل ڈسکورس کارپوریٹ سرمائے کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس آپریٹس کے پیدل سپاہیوں کا استحصال کرنے کے کردار پر لب کُشائی کو منڈی کی معیشت اور نام نہاد آزاد تجارت کی تقدیس کے خلاف سمجھتا ہے ۔ وہ سی پیک، معدنیات، تیل و گیس کی دریافت اور اُن پر کارپوریٹ سرمایہ کی اجارہ داری کے کھیل میں مقامی باشندوں اور سکیورٹی  آپریٹس کے پیدل سپاہیوں کی قسمت سے کھلواڑ کی کہانی میں کارپوریٹ سرمایہ اور ریاستی اداروں کی اسٹبلشمنٹ اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی بجائے کارپوریٹ سرمایہ دار طاقتوں میں کسی ایک کی دلالی پر مبنی بیانیوں کی تشکیل میں مصروف رہتا ہے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply