• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماں صدقے ،سپر پاور تیرے شوق وی بربادیاں والے نیں ۔۔سلمیٰ اعوان

ماں صدقے ،سپر پاور تیرے شوق وی بربادیاں والے نیں ۔۔سلمیٰ اعوان

سچی بات ہے پچھلے چند دنوں سے میں تو اپنی اس چہیتی سپر پاور کی اداؤں پر سوچ و بچار کی گتھیوں میں ہی الجھتی پھر رہی ہوں۔ خیر سے ہم ایشیائی غریبڑوں کی ہمدرد و غم خوار یہ بڑی طاقت ہمارے غربی ہمسائے ملک جس کے باسی کچھ ہم سے بھی زیادہ جاہل، گنوار اور اکھڑ ہیں انہیں دہشت گردوں سے بچانے کے لیے وہاں داخل ہوئی تھی۔ دراصل اس کا بھی تو کچھ قصور نہیں۔ بیچاری نے سارے جہاں کے درد کا ٹھیکہ بھی تو لے رکھا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔

یہی کچھ ان بیچارے گنواروں کے ساتھ ہوا۔ دو دہائیاں ان کے سروں پر مسلط رہی اور انجام کار انہیں انہی دہشت گردوں کے حوالے کر کے اب فرار ہو رہی ہے۔ کوئی پوچھے؟ ارے بیبا تم آئی کیوں تھی؟ کس نے تمہیں بلایا تھا۔ بہت مہذب، تمیز دار اور اونچی ذات و کام والی کو وختہ کیا پڑا تھا کہ خود بھی اور رشتہ دار عزیز بھی ان پس ماندہ جاہل اجڈ افغانیوں کی محبت میں کھینچتے آ گئے تھے کہ غریبوں کو ان ناہنجاروں سے نجات دلانی ہے جو خود کو مجاہدین کہتے تھے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کا تیا پانچہ ہوجاتا پر وہ ظالم تو ایسے توانا نکلے کہ انہیں ماننا بھی پڑا اور ان سے بات چیت بھی کرنی پڑی۔ اور اس پر کچھ یہ بھی ستم کہ ابھی یہ پوری طرح وہاں سے نکلی بھی نہیں اور وہ ہیں کہ ہر روز ایک نئی جگہ پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ سن بھی رہی ہے، دیکھ بھی رہی ہے اور غم میں گھل بھی رہی ہے کہ پسماندگان کا بنے گا کیا؟

سچی بات ہے یہ بڑی مکار ہے۔ اندر خانے ہماری اس ہیروئن کی کیا چالیں ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ اس کے چیلے چانٹے وہ تو خود برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ (یعنی باقی دنیا) صرف یہی جاننے میں لگی رہتے ہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔

اب بگرام ائیر بیس پر رات کے وقت جاتے ہوئے اس کے فوجیوں کا کچھ وہی کردار تھا جو کسی گاؤں کے نمبردار کے اکلوتے بیٹے کی بارات پر اس پر کرارے نئے نوٹوں کے وار نے کی صورت میں ہوتا ہے۔ کمی کمیونوں اور غریبڑوں کی چھینا چپھٹی اور پاگلوں کی طرح لوٹ مار کے سلسلے اللہ قسم ایسے ہی تھے جیسے بگرام ایر بیس پر کوہستانی پیروجواناں نے ہلا بولا تھا اور بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے۔ کمبخت مارے یہ احسان فراموش سے ہمسائے بھی تو پینتیس خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بڑا مسئلہ ان کی یک جہتی کا ہے۔ خالصتاً ایک قبائلی ملک جنگجو قبائل، خوانین اور سرداروں میں منقسم جو وار لارڈز بن کر اس سپرپاور سے ڈالروں کے بورے سمیٹتے رہے تھے۔ اور اپنے غریبوں پر خرچ کرنے کی بجائے اپنی جیبیں ہی بھرتے رہے۔

ہائے اب کیا رنڈی رونے روتی جاؤں۔ ابھی کچھ زیادہ وقت تھوڑی گزرا ہے۔ یہی 2003 قریب ہی کی تو بات ہے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ تڑپانے والے منظر ان آنکھوں نے دیکھے تھے۔ جب یہ بیچارے عراقیوں کی ہمدرد بن کر ان پر نازل ہوئی تھی۔ ایک آمر سے انہیں نجات دلوانے گئی تھی۔ اور خود ان پر مسلط ہو گئی تھی۔

اس کے کارندے بھی بڑے ہی کمینے تھے۔ پھلجھڑیوں جیسے نظاروں کے بہت شوقین تھے۔ جب ایسے کسی نظارے کو دیکھنے کو من کرتا تو خود، خودکش حملے کرواتے تھے۔ مقامی پولیس میں بھرتی ہونے والے افراد کو نئی گاڑیاں دے کر کہا جاتا تھا۔ جاؤ فلاں بازار، فلاں مسجد یا فلاں علاقے کا جائزہ لو۔ ہمیں فون پر بتاؤ اور ہماری ہدایات کا انتظار کرو۔ بیچارہ غریب عراقی جب فون کرتا جواب ملتا۔ گاڑی میں بیٹھے رہو اور ہمارا انتظار کرو۔ کچھ دیر بعد گاڑی خوفناک دھماکے سے پھٹ جاتی اور بے چارے پولیس مین کے ساتھ گردونواح کے سینکڑوں لوگ بھی لقمہ اجل بن جاتے۔

انسانی ہمدردیوں کے بھی بڑے پرکھنڈ کھلارتی ہے۔ لوٹ مار تو اس کے اپنے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کے غریب مگر کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کی کچھ خاص دین کے حامل ملکوں کی خاص الخاص چیزوں پر اس کی لالچی نظریں بھٹکتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں قیمتی معدنیات کے ساتھ ساتھ اردگرد کی خطرہ بنتی ایک اور بڑی طاقت کی سرکوبی کرنا پیش نظر تھا۔ بغداد میں سیال سونا، نایاب اور قیمتی نوادرات بڑی کشش کا باعث تھے۔ اب کہیں اس کمبخت بدنصیب صدام کے پوسٹر گراتے تو سریا لوہا وغیرہ غریب غرباء کے حصے میں بھی آ جاتا چلو دو پیسے ان کے بھی بن جاتے۔

ویسے سچی بات ہے۔ ہے یہ بڑی بے حیا۔ اب کوئی پوچھے کہ ویت نام میں کیوں گھسی۔ ارے بھئی شمالی ویت نام کمیونسٹ بلاک میں داخل تھا یا چین کے کمیونزم دائرہ اثر میں آ گیا تھا۔ تمہیں کیا؟ کوسوں میل دور بیٹھی ہو۔ بیٹھی رہو۔ تم بلاوجہ ہی اس غم میں ہلکان ہو رہی ہو کہ یہ تو پھر جنوبی کوریا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ بندہ کہے بھئی لینے دو۔ تم بڑی آئیں مامی، چاچی سارے جگ کی۔ وہ بدھسٹ رہیں یا کمیونسٹ بن جائیں ان کی مرضی۔ کمیونزم کے آگے بند باندھنے میں تم کیوں مر رہی ہو۔ اگر کسی نظام میں جان ہو گی تو وہ پھلے پھولے گا۔ نہیں تو مر جائے گا۔ مگر نہیں تمہاری چودھراہٹ کا سکہ کیسے جمے گا پھر۔

Advertisements
julia rana solicitors

مار کھائی، پٹائی کروائی مگر مجال ہے کہ سبق سیکھا ہو۔ تف ہے اس روس پر بھی اچھا بھلا دوسری سپر پاور بنا ہوا تھا مگر گرم پانیوں تک پہنچنے کا شوق لے ڈوبا۔
ماں صدقے سپر پاور تیرے شوق وی بربادیاں والے نیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply