مولانا محمد حنیف شہید/تحریر-محمد اکمل جمال

اس دنیا کا نظام بھی کچھ عجیب ہے، یہاں کبھی پرائے دل میں اتنے بس جاتے ہیں، کہ بھلائے نہیں بھولتے، یہاں جنازے بھی روز اٹھتے ہیں، پر ماتم انگیز کم ہوتے ہیں، اپنی مختصر زندگی میں کئیوں کے جنازوں کو کندھا دیا ہے، بہت سوں کی لاشیں اٹھائی ہیں، ہزاروں کے جانے کی خبر سنی ہے، مگر جس کی موت نے پہلی دفعہ میری آنکھیں نم کیں ، وہ مولانا محمد حنیف شہید رحمہ اللہ ہیں، جو مجھ سے قوم وقبیلہ میں کوسوں دور اور جن سے میری اکلوتی ملاقات رہی ہے۔

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن کے باسی مولانا محمد حنیف شہید رحمہ اللہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا نصیرالدین صاحب کے ہاں گھر پر حاصل کی، اس کے بعد کے پی اور پنجاب میں پڑھا، 1984 میں پشاور سے فراغت ہوئی، مولانا محمد حسن جان شہید اور قاضی حمید اللہ جان آپ کے اساتذہ میں سے تھے۔

زمانہ طالب علمی سے سیاست میں سرگرم رہے، مفتی محمود رحمہ اللہ کی قیادت میں جب جے یو آئی نے سیاسی سفر کا آغاز کیا، اور اس کے لیے عرصہ بعد طلبہ ونگ جمعیت طلبہ اسلام کے نام سے تشکیل دی گئی، تو قلعہ عبد اللہ اور پشین جو اس وقت ایک ضلع  تھا، اس میں تنظیم کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا شہید سر فہرست تھے۔

مولانا محمد حنیف صاحب صوبہ بھر خاص کر پشتون بیلٹ میں ایک صلح جو، حق گو، سنجیدہ، مذہبی، قبائلی روایات کے پابند، سیاست کے نشیب وفراز سے آشنا شخصیت کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے، وہ چمن شہر میں قائم مدرسہ دار العلوم ملت آباد کے مہتمم وشیخ الحدیث تھے، زمانہ طالب علمی سے جے یو آئی میں رہے، مولانا عبد الغنی صاحب قدس سرہ کے دست راست، ان کے ہم راز ومصاحب تھے۔

عرصے تک مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کی حیات میں جے یو آئی قلعہ عبد اللہ کے امیر رہے، 2002 میں قلعہ عبد اللہ کی قومی سیٹ پر مشہور پشتون قوم پرست محمود خان اچکزی کے مقابلے میں الیکشن لڑا، مقابلے کی حد تک وہ جیت گئے تھے، یہ اور بات ہے کہ جمہوریت جمہوریت کرنے والے قوم پرست اپنے گھر میں جیتنے کے لیے بندوق وڈنڈے کی سیاست کرنا بھی حق جمہوریت برائے سیاست سمجھتے ہیں۔

2008 کے الیکشن میں، اس کے بعد 13 اور پھر 18 میں بھی چمن کی صوبائی سیٹ سے امیدوار رہے، مگر ہار گنتی کے چند ووٹوں سےہوئی ، ایک اور بات کہ 18 کے انتخابات میں وہ اپنے ہی جماعت کے لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنے کے باوجود شمار کے چند ووٹوں سے ہار گئے۔

مولانا محمد حنیف صاحب بیچ کے چند سال چھوڑ کر اوّل تا آخر جماعت میں ایک مخلص، سرگرم ممبر کی حیثیت سے رہے، شہادت کے وقت بھی وہ جے یو آئی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر تھے۔

بیچ کے چند سال صوبائی جماعت کی پالیسیوں کے وجہ سے اپنے دوستوں سمیت ایک نئی جماعت بنانے گئے، باوجودیکہ انہوں نے جماعتی اداروں میں ان پالیسیوں کے خلاف اپنے ہم فکر ساتھیوں مولانا عبد الغنی صاحب، مولانا نور محمد صاحب، مولانا عصمت اللہ صاحب اور حافظ فضل محمد بڑیچ صاحب کے ساتھ مل کر بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا تھا، مگر اس کی جب بہتر انداز میں شنوائی نہ ہوئی تو وہ ایک نئی جماعت بنانے پر مجبور ہوگئے۔

بہر حال وہ جماعت کے ساتھ ہمیشہ اخلاص کے ساتھ رہے، لالچ، عہدے اور مفاد سے ہٹ کر نظریاتی سیاست ان کا شیوہ رہا، جماعتی کاز کے ساتھ اخلاص ان کی گھٹی میں پڑا ہُوا  تھا ، علاقے بھر میں امن وآشتی کی روح ان کی  رگ رگ میں رچ بس گئی تھی، وہ بات کرتے تو اتنی شائستہ وسنجیدہ کہ کان سنتے نہیں تھکتے تھے ، کسی جلسہ میں بیان کرنے کھڑے ہوتے تو مجمع شائستگی وسنجیدگی کا نمونہ بن جاتا۔

میری ایک مرتبہ ان سے مولانا اللہ داد کاکڑ صاحب دامت برکاتہم کے گھر میں ملاقات ہوئی تھی، ان کے دھیمے لہجے، سنجیدہ پن اور متانت ووقار نے بڑا متاثر کیا۔

جے یو آئی کے متوازی گروپوں کو قریب لانے میں بھی ان کا بڑا کردار تھا، انہی کے اخلاص اور جد وجہد نے نے مخالفت کی فضا میں کمی لائی۔

28 ستمبر 2019 کو چمن شہر میں ایک بم دھماکے میں انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا، افسوس ہے! کہ ان قاتلوں کی گرفتاری کے لیے معمول کے الٹی میٹم دینے کے  بعد سب کچھ بھلا دیا  گیا، اور یوں پرائے تو رہے پرائے، اپنے بھی انہیں بھول گئے، بھولے بھی ایسے کہ ان کی یاد منانے کی توفیق بھی نہیں ہو رہی۔

اللہ تعالیٰ حضرت شہید کی کامل مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، ان کے محبین، متعلقین اور بہی خواہوں کو مفتی محمد قاسم صاحب کی صورت میں ان کا جو خوبصورت اور صحیح معنوں میں جانشین ملا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے، ان کی عمر میں برکت نصیب فرمائے، اور انہیں اپنے والد مکرم کے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یا وہ جوہر ہی الگ تھا، جوہر انسان سے
یا نکلتے اب نہیں ایسے جواہر کان سے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply