زلزلہ ، ہم اور خدا/محمد وقاص رشید

 زلزلہ 
خدا اور انسان کا تعلق ایک تکون پر مرتکز ہے۔ زندگی ، موت اور قیامت۔ خدا نے اپنی حتمی کتاب میں قیامت کا جو تعارف انسان کو کروایا اسے سورۃ الزلزال میں ایک ہیبت ناک ترین زلزلے سے تعبیر کیا۔ سو مسلمان ہونے کے ناطے زلزلے اور قیامت کا تعلق ہماری نفسیات کا ایک حصہ ہے۔
سائینسی اعتبار سے زلزلے کی تعریف زمین کے نیچے موجود ٹیکٹانک پلیٹس کی ایک دوسرے کے درمیان جگہ بنانے اور جمنے کے لیے ہونے والی حرکت کے نتیجے میں اس مرکز کے نزدیکی مقامات پر محسوس کیے جانے والے ارتعاش کے ہیں۔ سائینس نے زمین کی سطح پر ایک پیمانہ مرتب کر رکھا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کہ زمین ہمارے پیروں کے نیچے سے کتنی شدت سے کھسکتی رہی۔ اسے ریکٹر سکیل کہتے ہیں۔

2005 کے قیامت خیز زلزلے نے اس دھرتی پر ہی نہیں یاداشت کی سر زمین پر بھی ایسی ان مٹ دراڑیں ڈال دیں کہ نشانات باقی ہیں۔ پاکستان کے شمال میں اس زلزلے نے واقعی وہ قیامت برپا کی تھی الامان الحفیظ۔ لاکھوں بے گھر ہوئے تھے ہزاروں ہلاک۔ اک حشر تھا اک قیامت تھی۔ اس زلزلے سے ہونے والی تباہی کی آبادکاری میں کئی سال لگ گئے تھے۔ سنگ و خشت کا نقصان تو کوئی نقصان ہی نہیں وہ جنکے لیے امان دیتے مکان اور پناہ دیتی بستیاں ہی انکی اجتماعی قبریں بن گئے وہ تو دوبارہ اب اس زلزلے سے ہی اٹھیں گے جسکا وعدہ ہے۔
کچھ ہفتوں پہلے ترکی اور شام کے زلزلے کی تباہکاری بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ روئے زمین پر ہر کچھ عرصے بعد کہیں نہ کہیں زلزلے سے ہونے والی بربادی یاداشت کا حصہ بن جاتی ہے۔ دور بیٹھے لوگ اسے قیامتِ صغریٰ کہہ کر دل بہلاتے ہیں ورنہ ترکی میں ملبے تلے دبی بیٹی کا ہاتھ تھامے باپ کے لیے اب قیامت میں صغری’ و کبری’ کا فرق تو بے معنی ہے۔ وہ تصویر دور بیٹھے ہر بیٹی کے باپ کے دل میں پیوست ہو گئی۔

سو اس مزکورہ بالا تکون پر ٹوٹا پھوٹا سا ایمان رکھتے طالبعلم کے اندر بھی دوسرے بہت سے مسلمانوں کی طرح اس “قیامت ” کے لیے ویسا ہی ایک ریکٹر سکیل اور الرٹ موجود ہے جیسا کل اینڈرائیڈ اور گوگل نے جاری کیا۔

میں بیرونِ ملک مقیم بڑے بھائی اور بھتیجے سے فون پر بات کر رہا تھا فاطمہ بیٹی ساتھ ہی تھی۔ اچانک ساتھ والے کمرے سے فیضان کی آواز آئی ۔۔”ڈیڈا زلزلہ ” اور ساتھ ہی ایک عجیب ہیبت ناک سی آواز کے ساتھ زوردار جھٹکا لگا اور ہم باہر صحن کی جانب بھاگے۔ کچن میں کام کرتی انکی والدہ بھی باہر آ چکی تھی۔ برآمدے میں لٹکے جھولے کی رسی جھولنے لگی ۔اچانک اندر سے ایک سینری کے گرنے کی آواز آئی۔ فیکٹری کوارٹر میں بنے کار پورچ کی چھت ٹین کی ہے۔ اسکے کھڑکھڑانے کی آواز سے تو گویا ہیبت کا وہ منظر نامہ مکمل ہوا۔

پیروں تلے مرتعش زمین۔ نظروں کے سامنے تھرتھراتا ہوا مکان۔ ٹین کی چھت کی گڑگڑاہٹ ۔ سامنے جھولتی ہوئی جھولے کی رسی۔ بیوی بچوں کے سراسیمہ چہرے۔ سینے میں بھی گویا زلزلہ زدہ دل اور فضا میں بلند ہوتی کلمے اور اللہ اکبر کی صدائیں۔ لگ بھگ ایک منٹ خدا کے اس وعیدی سوال کا جواب کچھ نہ کچھ ملتا رہا کہ “تم کیا جانو وہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے ؟
ان لمحوں میں ، میں انسانی حیات پر اسکے اختیار کی بے بسی سے متعلق سوچتا رہا۔ سال ہا سال سے سطحِ زمین پر اپنی زندگی کا آشیانہ بناتے ہم انسان زیرِ زمین تہوں کا ارتعاش اپنے دلوں پر محسوس کرتے ہوئے نگاہیں آسمان پر ٹکائے اس خدا سے گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا اپنی زمین کو تھام لے۔ وہ تھام لیتا ہے۔ ہم پھر ان آشیانوں میں مشغولِ حیات ہو کر اسے بھول جاتے ہیں۔

باقی مختلف چیزوں کی طرح زلزلہ بھی پاکستانی سماج میں مختلف تعبیریں رکھتا ہے۔ کہیں گناہوں کی سزا ، کہیں آزمائش اور کہیں محض ایک جغرافیائی اور سائینسی حقیقت۔ یہ جو۔ کچھ بھی ہے مگر ایک بات طے ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ جس جزب اور اخلاص سے میں صحن میں کھڑا اپنے خداسے رابطے میں تھا اسکا عشرِ عشیر بھی مجھے عام زندگی میں اپنے طرزِ فکر میں حاصل ہو جائے تو مقصدِ حیات پورا ہو جائے۔ مگر افسوس ہے کہ روح کے ریکٹر سکیل پر دل کی دھڑکنوں کا ارتعاش محسوس کروانے کے لیے میرے پیروں کے نیچے زمین کو لرزنا پڑتا ہے۔ زلزلہ ہمیں شاید وہی تکون یاد کروانے آتا ہے۔ مگر ہمارا حال اس لطیفے کے مصداق ہے کہ۔۔۔۔

ایک دیہاتی نہر کے کنارے جا رہا تھا کہ اچانک زلزلہ آیا اور وہ نہر میں گر گیا۔ اس نے اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے خدا سے گڑگڑا کر پنجابی میں کہا”یااللہ مینوں بچا دے باہر نکل کے دیگ دیواں گا تیرے نام دی غریباں نوں ( اے خدا اگر تو مجھے بچا دے تو باہر آکر میں تیرے نام کی دیگ غریبوں میں بانٹوں گا۔ اچانک ایک جھٹکا لگا دعاقبول ہوئی اور وہ کنارے پر آ لگا۔ باہر آکر اٹھتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا “کیہڑی دیگ گ گ ؟ ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اسے آفٹر شاکس کا علم نہیں تھا۔ ایک اور زور کا جھٹکا لگا اور وہ دوبارہ نہر میں جا گرا۔ کہنے لگا “او خدایا میں پچھدا پیا ساں کیہڑی دیگ مطلب زردے دی یا پلا دی ( خدایا میں تو یہ پوچھ رہا تھا کون سی دیگ ؟ زردے کی یا پھر پلاؤ کی )۔۔۔۔۔۔۔۔زلزلے پر ایک نظم۔۔۔۔۔
“زلزلہ”
کس قدر ایک ہیبت کا تھا وہ سماں
ایک خوف اور دہشت کا تھا وہ سماں
یہ زمیں رات جب تھرتھرانے لگی
خود پہ قائم جہاں کو ہلانے لگی
سنگ و خشت اور فولاد کے یہ مکاں
ایک پل میں ہی دکھنے لگے بے اماں
کہیں ایسا نہ ہو قبر بن جائیں یہ
ہم پہ گر کے ہمیں زندہ دفنائیں یہ
لوگ باہر کی جانب تھے بھاگے سبھی
جو بھی سوئے ہوئے تھے وہ جاگے سبھی
لوگ تھے نیلے امبر کی چھاؤں تلے
مرتعش تھی زمیں رب کی پاؤں تلے
اک نظر اٹھ رہی تھی مکاں کی طرف
اور نگاہیں تھیں بس آسماں کی طرف
جس طرح یہ زمیں تھتھراتی رہی
زندگی بھی یوں ہی پھڑپھڑاتی رہی
جسکی نبضوں پہ تھا کل عجب مرحلہ
الاماں الحفیظ اے خدا ۔۔۔زلزلہ
آؤ خود سے کریں ہم سبھی یہ سوال
راہِ جیون میں رک کے کبھی یہ سوال
زلزلے کا وہ منظر جدا یاد ہے ؟
اسطرح سے اب بھی خدا یاد ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply