سیاحت، سیلاب اور سوشل میڈیا۔۔ ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ سوشل میڈیا ایک لعنت ہے، منفی سرگرمیوں کا محور ہے، ایک ایسی لت ہے جو لگ جائے تو بندہ تباہ ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا سے ملنے والے لوگوں کو بھی مطلبی، سطحی اور خود غرض تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ ہر چیز کی افادیت یا نقصان کا تعین اس کے استعمال پہ منحصر ہے۔ آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مثبت استعمال کریں تو آپ کو ڈھونڈنے پر اچھے لوگ بھی مل جائیں گے اور آپ کے مثبت کام بھی ہو جائیں گے۔ اس کا مثبت استعمال آپ کے ہاتھ میں ہے۔
پاکستان میں جب سے سیلاب آیا ہے، میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد سماجی و رفاحی کام کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق سیاحت سے ہے پھر چاہے وہ بائیکر ہوں، لکھاری ہوں، آثارِ قدیمہ کے کھوجی ہوں یا فوٹوگرافردوست۔ اور ایسے بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں جو کب سے سوشل میڈٰیا پر ساتھ تھے لیکن سماجی کاموں نے ان کو آپس میں مِلا دیا۔ ان کو باہم جوڑ دیا۔

سوشل میڈٰیا کے ایسے ہی کچھ پلیٹ فارمز کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا جن سے مجھے سیلاب زدہ علاقوں کے لیئے بہت مدد اور رہنمائی ملی۔ ان میں ”قراقرم کلب” (سیاحت اور کوہ نوردی سے جڑا ایک گروپ) سرِ فہرست ہے جہاں سے مجھے ایسے بہترین، مخلص اور غریب پرور دوست ملے کہ جن کے توسط سے مختلف امدادی کاموں میں بہت سہولت ہو گئی۔
اللہ بھی کیسے کیسے راستے بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز پنڈٰی کے دوست بروغل اور یارخون کے لیئے امداد کی اپیل کرتے ہیں،
لاہور، کراچی، گجرات و ملتان وغیرہ سے دوست امداد کرتے ہیں،
خان پور سے چترال سامان اور نقدی بھیجی جاتی ہے اور چترال کے دوست سامان سے بھرے ڈالے لے کر شمالی چترال کے دور دراز مقامات لشکر گاز، بروغل و یارخون جا پہنچتے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ ان علاقوں میں میڈٰکل کیمپ لگاتے ہیں، راشن اور کمبل دیتے ہیں، بچوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔
کتنے ہی لوگ ایسے بہترین پلیٹ فارمز کے توسط سے انسانیت کی ایک مضبوط لڑی میں پرو دیئے گئے ہیں جیسے کسی وظیفے کی تسبیح۔

ایک اور پلیٹ فارم ”وسیب ایکسپلورر” ہے جو وسیب کی سیاحت میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس پلیٹ فارم سے مختلف بائیکر و سیاح حضرات ہر ہفتے ملتان پہنچتے ہیں اور وہاں سے سامان لے کر کوہِ سلیمان اور پچادھ کے علاقوں میں پھیل جاتے ہیں۔ کبھی تونسہ میں میڈٰکل کیمپ لگ رہا ہے، کبھی منگروٹھہ و ناڑی جیسی بستیوں میں سامان تقسیم کیا جا رہا ہے، کبھی ہڑند و بارتھی میں سامان لے کہ جایا جا رہا ہے تو کبھی پنجاب کی سب سے آخری تحصیل روجھان میں وہاں کے غریب پرور سردار کے ساتھ مل کہ ادویات، سینیٹری پیڈز و کپڑے تقسیم کیئے جا رہے ہیں۔
اس سے خوبصورت بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن علاقوں کی خوبصورتی دیکھنے ہم عام دنوں میں جاتے ہیں، آج جب ان کو ضرورت ہے تو ان کے لیئے ہم جوق در جوق وہاں پہنچ ہے ہیں۔
آگے چلیں
ایک سیاحتی پلیٹ فارم سے مجھے بلوچستان کے دور دراز علاقے ”جھٹ پٹ” کا ایک نوجوان ملتا ہے جو فارماسسٹ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اچھا دوست بن جاتا ہے۔ اس سے بار بار بلوچستان آنے کا وعدہ ہوتا ہے لیکن ملازمت کی بیڑیوں کے باعث کسی بھی جاڑے میں وہ وعدہ وفا نہیں ہو پاتا۔ لیکن جب اسکے وطن، اس کی سر زمین بلوچستان کو ضرورت پڑتی ہے تو بندہ وہاں جانے کے لیئے تیار ہو جاتا ہے۔ ملیریا اور ڈینگی سے تڑپتی بلوچ عوام کے لیئے پنجاب سے مچھر مار لوشن اور مچھر دانیاں بھیجی جاتی ہیں۔ دور دراز سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی امداد کے طفیل وہاں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں مستحقین میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔
یہ کیا ہے۔۔َ۔۔۔۔؟؟؟
سوشل میڈٰیا کی طاقت اور اس سے بنے تعلقات ہی تو ہیں کہ کبھی ایک دوسرے سے نہ ملے ہوئے چند لوگ ملک کی خاطر ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کر کہ کام کیئے چلے جا رہے ہیں۔

سیاحت کا ادب سے بھی تو تعلق ہے۔ ادبی گروپ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ ”پیبورپ” نامی ادبی گروپ سے جڑے لوگ بھی اس عرصے میں بہت کام آئے۔ مختلف پوسٹس سے بہت سے دور دراز علاقوں کے حالات کا علم ہوا۔ وہیں ایک دن معلوم ہوا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان کی تحصیل پہاڑ پور کے ایک گاؤں میں ایک بوڑھے جوڑے کا مکان گر چکا ہے۔ ادب اور کتاب سے جڑے ایک مقامی دوست نے رابطہ کیا، تحقیقات کے بعد سوشل میڈیا پہ پوسٹ ڈالی اور یوں چٹکیوں میں پھر سے پاکستان جڑ گیا۔
لاہور، میانوالی، کراچی و دیگر علاقوں سے ان کے لیئے امداد پہنچی اور اللہ کے کرم سے مقامی دوست کے ذریعے اس خاندان کا ایک کمرہ اور غسل خانہ بن کہ تیار ہو گیا۔
آخری بھی سن لیجیئے
قراقرم کلب کی ہی ایک پوسٹ کے کمینٹ سیکشن میں ایک دوست بنتے ہیں جو ڈیرہ مراد جمالی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان سے تو مانو جگری دوستی ہو جاتی ہے لیکن پھر وہی بات، ملاقات کی تشنگی۔۔۔۔
سیلاب میں موصوف بھی اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا کر کام شروع کر دیتے ہیں۔ ملک بھر سے موصول ہونے والی لوگوں کی امانتیں روزانہ جا کر متاثرین تک پہنچاتے ہیں۔ ان ہی کے توسط سے رتوڈیرو کی ایک ایسی فیملی کا پتہ چلتا ہے جس کے دو افراد معذور ہیں۔ سیلاب اور بارشوں سے گھر کی چھت ٹوٹ چکی ہے اور بے آسرا پڑے ہیں۔ پھر سے سوشل میڈٰا کے دوست اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے لیئے ورکنگ شروع ہوتی ہے۔ معلومات کی تصدیق اور بنیادی سروے کرنے کے بعد گھر کی تعمیر کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
لسبیلہ، بدین، فاضل پور، جھل مگسی، روجھان، تونسہ، بروغل، گنڈاخہ، داجل، جعفر آباد، دادو اور نجانے کتنے ہی متاثرہ علاقے ایسے ہیں جہاں سوشل میڈیا کے دوستوں کے توسط سے کچھ نہ کچھ کام ہوا ہے۔ کہیں میڈٰکل کیمپ تو کہیں راشن اور گرم کپڑوں کی فراہمی۔ کہاں کے ڈاکٹر کہاں جا پہنچے ہیں۔ یہی تو ہے میرے ملک کا اصل چہرہ۔
کبھی سوچتا ہوں تو دل خوش ہو جاتا ہے کہ آج کل کے مطلبی دور میں ایسے مخلص دوست بھی ایک نعمت ہیں جو چاہے اپنے لیئے کبھی فون نہ کریں لیکن جب ملک کو ضرورت پڑے تو سب رابطے بحال کر لیں۔
ان احباب کا بھی شکریہ کہ جو دور دراز محفوظ علاقوں میں بیٹھے ہیں لیکن دکھی انسانیت کے لیئے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ ملازمت کے باعث خود نہیں جا سکتے لیکن ان علاقوں میں کام کرنے والے دوستوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔
قراقرم کلب، وسیب ایکسپلورر اور پیبورپ جیسے پلیٹ فارمز کا بھی شکریہ جو متاثرین کے حوالے سے ہر پوسٹ کا رسپانس دیتے ہیں اور ان کی مدد کرنے والوں کے لیئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا سے بننے والے تعلقات بھی ایک نعمت ہیں اگر ان کو صحیح سے برتا جائے تو۔ آج جب یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں تو اپنی سیاحتی و ادبی کمیونٹی پہ فخر ہو رہا ہے۔ جہاں سرکار اور ذمہ دار ادارے تک نہیں پہنچ پائے وہاں ہمارے یہ دوست والنٹیئرز کے طور پہ کام کر رہے ہیں اور خنجراب سے کراچی تک پورا پاکستان ان کی مدد کو کھڑا ہے۔ لیکن ہمارا امتحان ابھی باقی ہے۔ متاثرین کے گھروں میں جانے تک ہمیں ہمت نہیں ہارنی۔
سیلاب زدہ علاقوں میں کسی بھی طرح کا رفاحی کام کرنے والے تمام غیر سرکاری اداروں، سوشل میڈیا کے دوستوں اور سیاحتی تنظیموں کا میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وطن کی مٹی عظیم ہے تو
عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
گواہ رہنا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply