تمام فصلیں کٹ چکیں، اور ایک عہد تمام ہوا ۔۔ بلال شوکت آزاد

بہت معذرت کے ساتھ لیکن میں کریٹکل تھنکنگ سے نکل نہیں پارہا اور میں ان تمام احباب کی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں پر پانی پھیرنے والا ہوں جو کہتے پھر رہے ہیں کہ یہ فلاں کی قربانی کا نتیجہ ہے یا ڈھمکاں کی محنت کا ثمر ہے۔

میں کہنا تو نہیں چاہتا لیکن استاد جی طارق اسمعیل ساگر صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے بات سمجھانے کے لیے جس طرح بات کی تھی میں من وعن اسی زبان میں بتاتا چلوں کہ کسی نےکوئی قربانی نہیں دی اور نہ کسی کی کوئی محنت وغیرہ  کا نتیجہ ہے, یہ سب “پنڈی بوائز” اور ان کے “دل کے قریبیوں” کا کیا دھرا ہے۔

80ء کے بعد سے جو بیج بوئے گئے ان کی فصل انہوں نے ہی کاٹی جنہوں نے وہ بوئےتھے۔  ۔ جن جن کا کریڈٹ  پر  تذکرہ ہورہا ہے وہ سب وہ بکرے تھے (ہاتھ جوڑ کر معذرت سے) جن کی برِیڈنگ پنڈی میں ہوئی اور نشوو نما و پرورش ملک کے طول و عرض میں ہوئی اور جب وہ پل گئے اور ان سے جتنی بکریاں لگوانی تھیں لگوالیں اور جتنا چارہ چروانا تھا چروالیا اور جتنی فصلیں شریکوں کی خراب کروانی تھی کروالی تو بوقت قربانی ان کی گردن پر اللہ اکبر پڑھ کر چھری چلا دی گئی اور فیٹف کی دیگ تیار کرلی گئی اور اب کھال کے جوتے بنا کر ان کو ہار میں پرو کر عوام کے گلے میں ڈالا جارہا ہے, لیکن عوام خوشی سے ناچ رہی ہےکہ ہار تو پڑ رہے بیشک جوتوں کے ہی سہی ۔

جب یہ بات اوّل دن سے طے تھی اور ہے کہ جہاد ریاست کی ہی ذمہ داری ہے نا کہ کسی پرائیویٹ ملیشیاء کی, آزادی و غلامی, دوستی و دشمنی اور غلط و صحیح کی تعریف و تشریح پنڈی بوائز کا فریضہ ہے نا کہ کسی بھی بلڈی سیویلین کا اور قومی دھارے میں رہنے کے لیے جمہوریت اور سیاست لازم ہے اور یہ کہ جمہوریت اور سیاست کی ہر سیڑھی عسکری سیمنٹ سے تیار کردہ ہے تو پھر وہ کوئی فار رائٹ کا لیڈر و جماعت ہو یا سینٹر آف رائٹ کا لیڈر و جماعت ہو۔ ۔ ان کا ہر قدم ڈکٹیٹڈ تھا, ہے اور رہے گا (اور جو اس سے سرموانحراف کرے گا وہ پھر بھٹو ہو, سعید گجر ہو یا خان ہو وہ عبرت کا نشان بنادیا جائے گا اور یاد رہے جو عبرت کا نشان بنائے جاتے ہیں وہ کریڈٹ گیم نہیں کھیل سکتے) لہذا ان کی حیثیت, اہمیت, قیمت اور وقعت کچھ بھی نہیں خاص کر ان کے نزدیک جو ان کی پیدائش و افزائش میں شامل و ذمہ دار تھے, ہیں اور رہیں گے۔

برسبیل تذکرہ بتادوں کہ میرا طارق اسمعیل ساگر سے تعارف کتابی صورت میں 2000ء میں ہوا تھا جبکہ ان سے روبرو اور قریبی تعلق مارچ 2018 میں ہوا اور تب میں نے بھری محفل میں جہاں عسکری و غیر عسکری اکابرین و دانشور بیٹھے تھے یہ سوال کیا تھا کہ

“آج سے چالیس سال یا تیس سال قبل دنیا کو جہاد کی ضرورت تھی, پاکستان کو ضرورت تھی تو حکومت اور ریاست نے خود دعوت عام دیکر مجاہد تنظمیں تشکیل دیں اور جہاد کا میدان سجایا، اپنے مقاصد کو تکمیل تک پہنچایا، مطلب روس ٹوٹا اور جب وہ  تنظییں  فارغ ہوگئیں تو انہیں کشمیر میں بھیج دیا گیا، تحریک آزادی کشمیر کی عسکری مدد کی غرض سے, مطلب اس بات پر ہم سب یعنی رائٹ لیفٹ اور سینٹر والے متفق ہیں کہ جہادی تنظیمیں خود سے راتوں رات نہ تو اُگیں اور نہ ہی یہ خلائی مخلوق ہیں, مطلب انہیں وقت کی سپر پاور اور وقت کی پاکستانی قیادت نے وار ہیروز اور مجاہدین کے لائسنس خود تھمائے اور جب کام نکل گیا اور حکومتی قیادتوں میں اگلی پود آئی تو انہیں یہ دہشتگرد اور خطرہ لگنے لگے تو اب انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے جس میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو خدمت کے کام سے منسلک ہیں توکیا ہم موجودہ نوجوان نسل حکومت اور ریاست کے آئندہ ایسے کسی اعلان پر کس طرح لبیک کہیں گے جس میں وہ ہم سے اسلام اور پاکستان کی خاطر خدمات مانگیں گے؟, کیا آج کے دور میں ہم جیسے ففتھ جنریشن وار کے فرنٹ لائن رضاکار مجاہد کل کو دہشتگرد قرار دیئے جاسکتے ہیں جیسی روایت ڈالی جارہی ہے اس کے تناظر میں؟” (آہ میرا سوال کتنا سادہ اور دور اندیشی و حکمت سے پُر تھا کہ جس کا جواب مجھے بعد کی ملاقاتوں میں استاد جی نے دیا بھی, لیکن صرف دو سال بعد جزوی اور آج چار سال بعد مکمل جواب سے میں خود واقف ہوں اور شاہد ہوں کہ یہ سب بھول بھلیاں اور دھوکہ تھا اور ہے)۔

میرے سوال پر حاظرین میں کافی مثبت ردعمل نظر آیا اورر خود طارق صاحب مسکرادیئے اور بس اتنا ہی جواب وہاں دیا کہ

“یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم نے انٹرنیشنل لابی کو کبھی بتایا اور سمجھایا ہی نہیں کہ دہشتگردی دراصل ہے کیا بلکہ جو تعریف ہمیں باہر سے بزور طاقت دی گئی ہم نے اسی کو من وعن مان کر عمل شروع کردیا بہرحال باقی کی تفصیل پھر کسی ملاقات پر بتاؤں گا۔”

تو صاحبان آپ میرے موجودہ موقف کو کسی ایک دو اشخاص یا جماعتوں سے روا ریاستی سلوک کا نتیجہ مت سمجھیں بلکہ یہ موقف میرا 2018ء میں ہی قائم ہوچکا تھا جو اب پختہ تر ہوچکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں میں صرف ان احباب سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کروں گا جن کا اس تحریر کے کانٹیکسٹ اور کانٹینٹ سے دل دکھے گا لیکن ویرو اب مزید کبوتر بننے کا فائدہ نہیں کیونکہ بلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے اور ہم پر جھپٹا مار چکی ہے۔ ۔ ۔ ہمارے بال و پر بکھرے پڑے ہیں اور تسلیم کرلیں کہ تمام فصلیں کٹ چکیں۔ ۔ ۔ اور ایک عہد تمام ہوا !

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply