سیلاب، سیاست اور مہنگائی/شیخ خالد زاہد

بہت عرصہ اس خوف میں بیت گیا کہ قلم کو روندے جانے کی جو رسم چل  پڑی  ہے اس میں ہمارا قلم بھی کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ  ہو جائے، گوکہ ہم نے ہمیشہ اس بات کو ملحوظِ خاطر   رکھا کہ جان کی امان پاؤ ں تو کچھ لکھوں اور اس امان کی اجازت بھی خود اپنے آپ سے ہی لینی پڑتی رہی ہے ۔ کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اکیسویں نہیں بلکہ انیسویں صدی یا پھر اس سے بھی پہلی کسی صدی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ جب دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا اس لئے بولنے کیلئے کچھ ہوتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی اندازہ لگا کر لکھ یا بول لیتا تو پھر اس کا وہ بولنا اسکے لئے ہمیشہ کیلئے خاموشی کا سبب بن جاتا تھا بالکل آج بھی یعنی اکیسویں صدی کے اوائل میں جب دنیا مریخ پر رہائش کا بندوبست کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے تو ہم   زبان و قلم کو قید و بند کی صعوبتوں میں دھکیلنے پر تُلے ہوئے ہیں، ہم آج بھی انا کے خول اتارنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، ہم آج بھی انفرادی ترجیحات پر کچھ بھی قربان کرنے کیلئے  راضی  نہیں  ۔

پاکستان کو اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے اور اسکے ساتھ ہی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا  بھی ، اور ساتھ ہی ملک میں سیاسی بحران بھی تاریخ کے سیاسی بحرانوں سے کہیں زیادہ  شدید دکھائی دے رہا ہے ۔ سب سے پہلے سیلاب کی بات کرلیتے ہیں۔ سیلاب جو ابر ِرحمت کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کے اسباب کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس تباہی کے پیچھے بھی انفرادی ترجیحات یا پھر مفاد کارفرما د ہیں  ۔ غیر منظم حکمت ِ عملی اور سب سے بڑھ کر پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ڈیموں کی تعمیر نہ  کروانا اس تباہی کے بنیادی جُزو ہیں ۔

سیلاب سے قبل ملک ِ خداداد پاکستان ایک انتہائی سنگین سیاسی بحران سے گزر رہا تھاجس کی وجہ سے داخلی اور خارجی دونوں سطح پر شدید خطرات کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا(کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان بھی بہت جلد سری لنکا   جیسی  صورتحال سے دوچار ہوجائےگا لیکن اللہ کے نام پر لیا گیا ملک ایک بار پھر اس صورتحال سے نکل آیا)   حکومت نے اپنی تمام تر توجہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو منانے اور اسکی شرائط ماننے ، ان پر عمل درآمد کرانے پر مرکوز رکھی تاکہ بقول حکمرانوں کے پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو بچایا جاسکے ۔ معیشت کہاں تک سنبھلی ہے اس پر بات کرنا نہایت دشوار ہے ، حسبِ  معمول کسی دوسرے پر الزام لگانے کی روش تاحال جاری ہے اور موجودہ حکومت (جو شاید پچھلے دروازے سے اقتدار میں آئی ہے)تو حکومتوں کا وسیع تجربہ رکھتی ہے بلکہ ان کے پاس تو اپنی اپنی وزارتوں کے ماہر موجود ہیں، لیکن پھر بھی ان سے حکومت نہیں سنبھل رہی  اور اب تو یہ واضح دکھائی دے رہا ہے کہ کسی کی دِلی خواہش پوری کرنے کیلئے یہ حکومت منتقل کی گئی ہے ۔ دوسری طرف عوام میں آگہی کا ایک لاوا انڈیلا جا رہا ہے جو ووٹ کے ذریعے سے سب قوتوں کو شکست دینے کیلئے بیقرار قریہ قریہ بستی بستی گھوم  رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گوکہ سیلاب نے آدھے سے زیادہ پاکستان کو پانی میں ڈبودیا ہے لیکن ہم اسے ایسا دیکھ رہے ہیں کہ قدرت نے آنے والے نئے دور کیلئے پاکستان کی سرزمین کو پاک سرزمین کر دیا ہے ۔ اللہ اپنے نظام کی راہیں سیدھی کروارہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی قسمت دوبارہ سے بدلے گی اور پاکستان کے اعوانوں میں وہ لوگ ذمہ داریاں نبھائیں گے جن  کا دامن داغدار نہیں ہوگا  ۔ ان شاءاللہ!

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply