برداشت کرنا چھوڑیں!

پاک سرزمین میں بڑے لوگ “بین المسالک و مذھب ٹولرینس، یعنی برداشت” کی اھمیت سے خوب باخبر ھیں۔ غالبا اگست کے اختتام میں وزیر اعظم سلطنت خداداد پاکستان نے بھی ایک آدھ بیان دیا جس سے ظاھر تھا کہ عدم برداشت کو برداشت نھیں کیا جاے گا۔ اسی سلسلے میں کبھی کبھار سرکاری یا غیر سرکار ی طور پر دوسرے مذاھب کو برداشت اور ایک دوسرے کے احترام سے متعلق سیمینار یا کانفرنس منقد ھوتے ھیں۔ ایسی ھی ایک نشست سے متعلق سنی سنائی بات آپ کو سنائے جاتے ھیں۔

ھوا کچھ یوں کہ ایک دن برداشت کا مظاھرہ کرنے اور سیکھنے سیکھانے سیمینار بلایا گیا۔ معاملہ شروع کرنے کہ لیے سیمینار کے اصولوں کے مطابق موجود تمام مذاھب کے نمایندگان کو اپنا اپنا مذھبی کلام سنانا تھا۔ حسب روایت بات تلاوت قران پاک سے ھوئی جس کے لیے وھاں موجود ھمارے ایک لوکل پیر صاحب آگے بڑھے۔ پیر صاحب گہری آواز میں تلاوت کیے جا رھے تھے اور نیچے بیٹھے مسیح اور ھندو نمایندے پریشان نگاھوں سے آگے پیچھے دیکھ رھے تھے جیسے کسی نے ان کے بٹوے چرا لیے ھوں۔ لوکل پیر صاحب نے انٹرنیشنل سامعین کی موجوگی سے اور سٹیج سیکریٹیری ( جو کہ غالبا انکا مرید بھی تھا) کہ اصرار پر جوش میں چند نعتیہ اشعار بھی سناد یے اور سٹیج سے اترتے سامعین کے چھرے غور سے دیکھے، بدقسمتی سے ان میں سے کسی کافر کے دل سے مہر نہ اتری، سو کچھ دل برداشتہ ھوے پیر صاحب نشست پر دوبارہ براجمان ہو گئے۔

اب کہ باری آئی اھل کتاب بھائی کی جو کہ مقدس بایبل تھامے بیٹھے بیٹھے تھک گئے تھے۔ وہ کتاب سٹیج پر ساتھ لے گے تو غالبا سامعین بھی سمجھ گے کہ یہ ھمارے پیر صاحب کے مقابلے کا حافظ نھیں، بر حال اب برداشت تو کرنا تھا۔وہ فرماتے گئے، اور اب پیر صاحب اور سوامی جی کی نگاھیں ٹکرایں۔ اب کی بار شاید ان دونوں کہ بٹواے کہیں گم گئے تھے۔ اب باری تھی سوامی جی، پیر صاحب کی طرح داڑھی میں ھاتھ پھیرتے پھیرتے اوپر پھنچے۔ برداشت کے ذخیرے ختم ھوتے جا رھے تھے، کچھ مسیح اور پیر صاحب کہ ایک آدھ مرید کچھ ڈھونڈتے ڈھونڈتے باھر پہنچ گے تھے۔ سوامی جی نے خدا جانے ابھی اوم یا رام ھی کہا تھا کہ پیر صاحب کو جلال آگیا، اپنی نشست سے کھڑے ھو گئے اور کہنے لگے ،بس اب ھم اور برداشت نھیں کر سکتے، بند کرو یہ کافر کی خرافات!

سوامی جی کچھ جھجکے کہ پادری اٹھا اور دل کی بھڑاس نکال دی، ھم نے بھی تو تمھارا قران برداشت کیا تھا! پیر صاحب متوجہ ھوے اور بولے ، تم چپ کرو تم بھی کافر ھی ھو! تم عیسٰی کو خدا کھتے ھو جاھل! سوامی جی کچھ بولے پر چونکے آجکل مودی کے علاوہ یھاں کسی ھندو کی بات پر زیادہ دیھان نھیں دیا جاتا سو وہ ھم تک نہ پھنچی۔ پادری آگ بگولا ھوسٹ کی طرف دیکھتا ھے، بھئی یہ کیا بکواس ھے! یھاں ھمیں اسلیے بلایا گیا تھا؟؟ اور فیصلہ کن جواب ملتا ہے کہ “حضرات حضرات! غصہ مت ھوں! دیکھیے آپ سب ھمارے بھایوں کی طرح ھیں ، پر آپ ھیں تو کافر ھی نا!”

مسلہ در اصل کفر و مسلمانی کا نھیں ، مسلہ نہ رنگ و نسل کا ھے، معاملہ اس سوچ کا ھے، جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی ھے۔ گو کہ ھمارے ھاں میاں بیوی کے تعلقات بھی کوی خاص مثالی نھیں ھوتے مگر کیا خوب ھو کہ مولوی صاحب کو نکاح کے وقت پوچھنا پڑے، کیا آپ یاسمین کو بطور بیوی برداشت کرینگے؟ انسان اگر اپنے سب سے قریبی سماجی تعلقات صرف برداشت کی بنیاد پر استوار نھیں کر سکتا تو پورا پورا معاشرہ کیسے فقط برداشت کی بنیاد پر جڑا رہ سکتا ھے۔ اس کے لیے محبت ، ھمدردی اور قبولیت کے سوا کوی چارہ نھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ھمارے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ پوری قوم ایک دوسرے کو برداشت کر رھی ھے، اور جب کسی کا برداشت کا ذخیرہ ختم ھو جاے تو کافر کافر کا نیا راونڈ شروع۔ ھمیں ایک دوسرے کو اس طرح برداشت کرنا بند کرنا ھوگا، بلکہ ھمیں راے، سوچ اور عقیدے کے اختلاف کو قبول کرنا ھوگا، ایک دوسرے کو انسان جان کر، ٹولریٹ کرنے کے بجاے ایکسیپٹ کرنا ھوگا، ورنہ ھم یونھی پریشر کوکر کی طرح اندر اندر ابلتے رھینگے اور کسی وقت بھی اپنی اس قلبی حرارت کی نظر ھو سکتے ھیں۔۔ !

Facebook Comments

حسنات شیخ
لکھاری، بلاگر، سماجی کارکن.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply