• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں ماحولیاتی  آلودگی کا سنگین مسئلہ ۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں ماحولیاتی  آلودگی کا سنگین مسئلہ ۔۔شیر علی انجم

اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل نے حالیہ دورہ پاکستان میں سیلاب کی بعد کی صورتحال سے پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال دن بدن خرابی ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین  ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی  آلودگی کا  سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین گیسز کے لیول میں اضافے سے زمین کادرجہ حرارت معمول سے بڑھنا ہے ۔ ساتھ ہی جنگلات کی کٹائی میں مسلسل اضافہ، شجر کاری کی شرح کم ہونے سے گلوبل وارمنگ کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ  گلیشیرز کے پگھلنے،پانی کی مقدار میں اضافے، جنگلات میں آگ لگنے ،مسلسل بارشیں، گرمی یا سردی، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگز کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی وہ عنصر ہے جس نے ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے کام کو بہت مشکل بنایا ہے کیونکہ درخت، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے ماحول خوش گوار بناتے ہیں۔

لیکن ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں اس حوالے سے بات  کریں گے،  یہ خطہ جہاں سیاحت، قدرتی وسائل اور عالمی طاقتوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں وہیں اس خطے کو  گلیشئرز کی سرزمین بھی کہتے ہیں لیکن بدقسمتی یا حکومتی نااہلی اور غیر ذمہ داری کے سبب اس وقت خطے میں پینےکا صاف پانی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔حالانکہ ایک رپورٹ کے مطابق قطبین کے بعد دنیا میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا منبع گلگت بلتستان میں گلیشئرز کی شکل میں موجود ہیں ۔بی بی سی اردو پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کیلئے زیادہ تر گلگت بلتستان ہی پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پانی کو بچانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدمات نہیں اُٹھایا جارہا ہے۔

تو اس وقت ترقی کے نام پر خطے کی قدرتی شکل کو مسلسل بگاڑ کر سر سبز وادیوں کو ختم کرکے پختہ کنکریٹ کی عمارتوں، سڑکوں میں بدلنے کا رواج عروج پر ہے لیکن اس سے پڑنے والی منفی اثرات کی طرف کوئی توجہ دینے والا نہیں۔ صورتحال یہ ہے اس وجہ  سے سیاحتی ترقی کی باتیں خوب ہورہی ہے لیکن سیاحتی مقامات کے ماحول کو صاف رکھنے کیلئے سہولیات اور حکومتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے صاف شفاف علاقے اور ان علاقوں میں بہنے والی ندیاں مسلسل آلودگی کا  شکار ہیں صاف شفاف ندیوں سے پانی پینے کے سبب بہت سے علاقوں میں کئی بار بیماریاں پھوٹ چُکی ہیں، جس کی وجہ   پانی میں گندگی شامل ہونا بتایا  جاتا ہے۔ اس آلودگی کی وجہ سے جہاں آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے وہیں مچھلیوں کی نسل ہی ختم ہورہی ہے۔ حکومت گلگت بلتستان کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق حکومت نے 2019 سے لیکر 2022 تک خطے کے کل رقبے کی اٹھارہ اعشاریہ نو فیصد پلانٹیشن کی جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ دوسری طرف ٹمبر مافیا سرکاری سرپرستی میں جس طرح سے جنگلات کی کٹائی کر رہا ہے وہ  اس سے گئی گُنا    زیادہ ہے۔ جسکا اعدادوشمار شمار ہی نہیں۔

گلگت  بلتستان  میں سیاحتی مقامات زیادہ تر دیہی علاقوں میں موجود ہیں اور ان سیاحتی علاقوں میں آج بھی ویسٹ مینجمٹ کا وجود ہی نہیں ،یہی وجہ  خطے کے زیادہ تر سیاحتی مقامات پر  کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ اور نہ ہی  عوام میں شعورہے کہ کوڑے کرکٹ اور کچرے کو ٹھکانے کیسے لگانا ہے۔یوں سیاحتی مقامات سے لیکر گلی محلوں میں کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا سرکاری سطح پر مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے جراثیم مختلف قسم کی بیماریوں کی شکل میں پیداہوتے ہیں جو ماحول کو آلودہ کرنے کے ساتھ انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس غیر ذمہ داری سے نہ صرف قدرتی طور پر خوبصورت وادیوں کا قدرتی حُسن برباد ہورہا ہے بلکہ انسانی صحت اور تخلیقی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ کہتے ہیں آواز بھی ماحولیاتی آلودگی  میں بہت اہم فیکٹر ہے جو   ہر علاقے میں بے ہنگم اضافہ ٹرانسپورٹ اور اُنہیں  ماحول دوست بنانے کیلئے کسی قسم کی حکومتی منصوبہ بندی نہ ہونا ،آنے والے سالوں میں مزید ماحولیاتی آلودگی میں  اضافہ کرسکتا ہے ۔ لہذا حکومت کی ذمہ داری  ہے کہ ا س حوالے سے قانون سازی کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالمی ادارہ صحت(WHO) ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ماحول کی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تین کروڑ سے زائد انسان ہلاک ہورہے ہیں اور اس کےعلاوہ ہر سال بیالیس اعشاریہ پانچ ملین ایکڑ  جنگلات کا رقبہ تباہ ہورہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان اسمبلی کو شائد اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کس طرح گلگت بلتستان کو تیزی سے کھا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج تک اسمبلی میں اس حوالے سے  کسی قسم کی بحث ہوتے  یاکسی ممبر کو بل پیش کرتے نہیں دیکھا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ جس خطے کے عوامی نمائندے اس حد تک غیر ذمہ دار اور لاشعور ہیں وہاں کے عوام کا شعوری لیول کیا ہوسکتا ہے؟۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کیلئےٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی اور ہنگامی بنیادوں پر آبادی کا کنٹرول،جنگلات اور درختوں کے کٹاو کی روک تھام ،صاف پانی کے تحفظ کا انتظام ، آواز کی آلودگی کا تدارک ،دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف موثر مہم  اور زمینی آلودگی روکنے کا بندوست،زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور سایہ دار درخت لگانے جیسے اہم امور کی طرف ہنگامی توجہ دینے کیلئے حکومت کے ساتھ سول سوسائٹی،یوتھ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے آگہی کیلئے سوشل میڈیاموثر کردار ادا کر سکتا ہے، تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے معلومات نصاب میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ایمرجنسی نافذ کرے، ندی نالوں کے کنارے کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کرے۔ سیاحتی مقامات کو ماحول دوست بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply