خبر منڈی سے براہ راست۔۔بلال شوکت آزاد

بہت سنجیدہ نوعیت کی خبر ملے یا ہلکی پھلکی, ہماری فیسبکی پاکستانی قوم میں خبر کو لے کر تقسیم اور تقسیم میں مزید تقسیم اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ہر طرح کی سوچ اور کردار سے مزین نظریہ اور نظریاتی لوگوں کی بھرمار اس کھمب کے میلے مبں دڑنگے مارتی ہوئی نظر آتی ہے۔جنہیں آزادی رائے اظہار کا اعلی نمونہ کہنا کجا ہم اندھیرے میں ماری جانے والی ٹامک ٹوئیاں بھی نہیں کہہ سکتے لیکن صاحب سوچ و صاحب تحاریر کا تردد ہوتا ہے کہ ان کی چھوڑی گئی پھلجھڑیاں دانشوری اور علم کی اعلی مثال سمجھی جانی چاہیے۔یہ قوم, ان سب جدید سہولیات جن کی بدولت پاکستان دانشوری میں زرخیز دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے بلا شرکت غیرے, خبر کو اتنے زاویوں اور پہلوؤں پر گھماتی اور اتنا مدھانی پھیرتی ہے کہ اصل خبر بھی شرما جاتی ہے کہ یااللہ یہ میں ہی ہوں جس پر الگ الگ قسم کے تبصرے اور تجزیے پروثوق ذرائع کا حوالہ دے کر کیے  جارہے ہیں۔

ہر روز بیسیوں خبروں میں فیسبکی خبری دانشور و مکھن فروش مدھانی پھیرتے ہیں اور فیسبکی کی ویلی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر کسی دوسری خبر کا پوسٹ مارٹم شروع کردیتے ہیں۔بہرحال موضوع کی طرف آتا ہوں کہ دو دن سے ایک سنگین خبر جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ روئے انسانیت ہر ایک انسان کی قدیم تاریخ سے بھی ہے لیکن اس پر بھی نام ہی کافی والی دانشور قوم منقسم ہے اور مزید تقسیم کا فرض پوری تندہی سے انجام دے رہی ہے۔جی ہاں بیت المقدس کو یہودی دارلحکومت بنانے اور ماننے والی سانحاتی خبر پر صرف ایک نکاتی ردعمل درکار تھا اور وہ تھا فوری اتحاد اور اس خبر پر مشترکہ شدید احتجاج اور پیش بندیاں تاآنکہ اس فیصلے کو واپس لینے کی نوبت آجاتی۔لیکن نہیں جی, اس خبر میں تو مدھانی پھیرنے کے سابقہ سارے ریکارڈ توڑدیے ہماری فیسبکی خبری دانشور اور مکھن فروش قوم نے۔

اس وقت اس خبر کے اوپر جو تبصرے اور تجزیے  اوپن مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ سب اسی بات کا دعوی کرتے ہیں کہ نقالوں سے ہوشیار, ہماری اور کوئی برانچ نہیں ۔آئیے ذرا آپ کو تبصروں اور تجزیوں کی خبر منڈی میں ونڈو شاپنگ کرواکر لاتا ہوں۔سب سے پہلے اس خبر پر ہم لبرل دکان کے سیلز مینوں کا تبصرہ ملاحظہ کرتے ہیں جو دو دن سے الگ الگ پیرائے اور الفاظ کے ہیر پھیر سے کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ

“اگر مسلمان مذہب کے نام پر فلسطین کی حمایت کریں تو درست اور ہم لبرل نظریاتی ہونے کے ناطے اسرائیل کی حمایت کریں تو غلط کیسے؟”

بھلا ان کی منطق سنو اور سر دھنو دیواروں میں۔

لو ایک اور لطیفہ سنو اسی دکان کا,

“اسرائیل ایک آزاد, خودمختار اور مضبوط معشیت والا ملک ہے۔ اس کو اپنے داخلہ امور میں ردو بدل کا مکمل حق ہے جیسے سعودیہ عرب اور پاکستان کو ہے۔”

بس قسم سے ایسے تبصرے پڑھ سن کر ہنسی کا شدید دورہ ہی پڑتا ہے۔

اب آئیے ملحدین کی دکان کی طرف, جہاں سے اس سے زیادہ مضحکہ خیز تبصرے جھڑ رہے ہیں۔

“ہم الحاد کی رو سے کسی مذہب اور مذہبی نظریئے کے قائل نہیں لہذا ا س کی رو سے مادہ ہی ہمارے نظریے کی گواہی ہے کہ جب مذہب نہیں تو کسی جگہ اور جائیداد جوکہ مادہ ہے اس پر کسی ایک کا قدیمی حق کیسا؟, بیت المقدس ہو یا مکہ مدینہ یا اور کوئی بھی ایسی نام نہاد مقدس مذہبی جگہ اور شہر کسی پر کوئی تبھی حق جتائے اور رکھے جب وہ اس کے قبضے میں ہے۔ اگر مسلمان بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنتا دیکھ پریشان ہیں تو اسلامی 14 سو سالہ  تاریخ اور عیسائی دوہزار سالہ  تاریخ سے پہلے ساری زمین پر یہودی یا بنی اسرائیل کا قبضہ تھا تو اس قانونِ پریشانی کی رو سے وہ زمین کے ہر قابل ذکر شہر پر مذکورہ بعد کی امتوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اب فیصلہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو کرنا ہوگا کہ وہ کب مکہ مدینہ روم وغیرہ خالی کرکے یہودیوں کو سونپتے ہیں؟ ”

مذکورہ بیان ایک ملحد سے براہ راست مکمل خاموشی سے سننے کے  بعد میں نے ایک ہی بات کہہ کر بات ختم کی کہ

“برخودار جو الزام تمہارے الحادی نظریات اور تم جیسوں پر ہے کہ تم فری میسنری ہو جس کی اولین شرط ہی سب مذاہب کا ترک ہے ماسوائے یہودیت کے تو مان لو نا کہ تم  خفیہ یہودی ہو۔”

بس پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی  کے  مصداق مغلضات کا نہ تھمنے والا ایک کریہہ سلسلہ شروع ہوگیا جو مجھے دکان سے بھاگ کر ادھورا چھوڑنا پڑا۔

بہرحال اگلی دکان ایک جمہورے کی نکلی جہاں حسب توقع ایک عدد جمہوری پھلجھڑی تیار تھی برائے فروخت کہ

“دنیا اب ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے, آپسی تعلقات میں جمہوری رویوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ناکہ متشدد رویے کی۔ ٹرمپ امریکہ کا منتخب صدر ہے کوئی آمر نہیں اور نیتن یاہو پر بھی اس کی قوم کو بھروسہ ہے تبھی وہ اس قدر بڑا عالمی فیصلہ اتنی آسانی سے کر سکے۔
اگر مسلمانوں کو بھی ایسے بے باک فیصلوں کی خواہش ہے تو اپنے ممالک میں جمہوریت کو مضبوط کریں پھر کشمیر, فلسطین اور اراکان جیسے سبھی دیرینہ مسائل کا حل نکلے گا ورنہ آج جمہوریت سے روگردانی کی وجہ سے القدس گیا ہے کل مکہ مدینہ اور پاکستان بھی جاسکتا ہے۔ ”

لو کرلو بات اب بندا ایسے دانشوروں کی عقل پر ماتم ہی کرسکتا ہے یا ہنس کر ٹال سکتا ہے۔

کیونکہ سنجیدہ خبر پر جب ایسے مزاحیہ تبصرے وارد ہوں گے تو صاحب تبصرہ کا کوئی سکریو ہی ڈھیلا ہے جس کو پیچ کس سے کسنے کی ضرورت ہے ناکہ سمجھا کر وقت ضائع کرنے کی۔

بہرحال آگے چلیں یہ ایک خوارجی  دکان ہے اور یہاں پر بھی امید سے الگ کچھ نہیں کہ

“اچھا ہوا ان خبیث مرتد و مشرک کافروں سے بہتر ہے اہل کتاب بیت المقدس کا انتظام سنبھال لیں, ہم تو چیختے رہتے ہیں کہ خلافت قائم ہوچکی اس کی اطاعت کرو اور محفوظ رہو پر نہیں ہم تو خوارج لگتے ہیں سب کو, بالکل ہم خوارج ہی ہیں جواصل اسلام اور خلافت اسلامیہ کے امین ہیں, مرتد و مشرک ہوتے تو روپیٹ کر چپ کر جاتے۔
جب تک سب مشرک و مرتد مسلمان مر نہیں جاتے تب تک اہل کتاب سے جنگ کا جواز نہیں۔”

ہیں ں ں ؟۔۔۔۔

اس پر تبصرہ کرنا وقت ہی ضائع کرنا ہوگا۔

آگے چلیں یہ ایک سعودی بلاک دکان ہے جس کے پروپرائٹر دن رات سعودیہ عرب کے گن گاتے ہیں جبکہ ایران کی بینڈ بجاتے ہیں۔

آئیے ذرا ان کی سنیں,

“یہ سب خطے میں ایران اور اس کی ہمنوا ریاستوں کا ڈالا ہوا گند ہے, کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایران کی حدود میں سنی واجب القتل ہے جبکہ یہودی محفوظ بلکہ پارلیمنٹ تک میں براجمان, تو خود ہی اندازہ لگالو کہ ایران کس کس طرح اسرائیل کا مددگار ہے اور کتنا بڑا یہودی نواز ہے جو ابھی تک خاموش ہے اس خبر پر۔
یہ سب پلان امریکہ اسرائیل اور ایران کا مشترکہ ہے تاکہ مشرق وسطی اور پاکستان کو ہاتھوں کی پڑجائے اور یہ سب دجال کی آمد کی خاطر انتظامات مکمل کرسکیں۔”

اچھا!

پھرحسن نصراللہ اور حماس فلسطین میں کیا گرم انڈوں کا کاروبار کررہی ہے ایران کی سرپرستی میں؟

حد ہے جانبداری کی بھی۔

لیکن بات ادھر ہی ختم نہیں ذرا ایران بلاک والوں کی بھی سن لو مرچ مصالحوں سے مزین تبصرہ کہ

“یہ سب وہابی نجدی آل سعود کی وجہ سے ہورہا ہے, ان کے جد امجد نے پہلے کوڑیوں کے مول اور شہنشاہیت پانے کے لئے   فلسطین کا سودا برطانیہ اور بن گوریان سے کیا, اب ان کی نسل نے بیت المقدس پر خفیہ محاہدہ کرلیا ہے اسرائیل سے ایران کے خلاف لابنگ اور جنگی مدد کے لیے , ان کا سارا کاروبار تیل کی مد میں اسرائیل اور امریکہ سے ہے, مسجد نبوی میں ایک یہودی کی آمد اور تصاویر والا واقعہ ثبوت ہے ان آل سعود کی منافقت کا, اور پاکستان ان نجدیوں کی گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے۔کہاں ہے وہ اسلامی فوجی اتحاد اور ریال شریف جو ان شیخوں کی حفاظت کررہا ہے جبکہ فلسطین نظر نہیں آرہا۔ایران کو رافضی ریاست کہنے والے بھول گئے ہیں کہ فلسطین میں اس وقت سب بڑا جہادی گروپ ایرانی مدد سے ہی چل رہا ہے۔”

جی جی اب ہوش ٹھکانے آئے کہ نہیں؟

ابھی تو اور دکانیں  بھی ہیں ذرا ان کی مصنوعات بھی دیکھ لیں۔

یہ ایک بظاہر نیوٹرل دانشور کی دکان ہے ذرا سنیں کہ کیا گل افشانی ہوتی ہے۔

“یہ مروان بن عبدالمالک کا زمانہ نہیں کہ دیبل سے ایک بچی کی پکار پر محمد بن قاسم کو روانہ کردیا جائے گا, نیا اور جدید دور ہے, سب کو اپنے کا سے کام رکھنا ہوگا اور پاکستان کو خاص کر پرائی جنگوں سے دور رہنا ہوگا تاکہ دنیا امن کا گہوارا بنے اور ہمارا ملک ترقی کرے, میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہیئے۔”

دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت !

جناب آپ کاویہ نیوٹرل بخار اور اپنے پرائے والی نادر تھیوری تب کہاں چلی جاتی ہے جب امریکہ فرانس بیلجیم اور لندن کے غم میں ڈی پیاں بدلتے ہو اور یہ لمبے لمبے مضمون لکھ مارتے ہو مسلمانوں کےہی خلاف؟

اس کے بعد ایک کنفیوز اور ڈبل مائنڈ دانشور کی سنی کہ

“میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا ذمہ دار سعودیہ ہے یا ایران بس میں کہوں گا کہ مسلمان کب تک یوں باتوں اور بیانوں کی ہنڈیا چولہےپرچڑھاتے رہیں گے, اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان امت مسلمہ کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لے اورفوراً راحیل شریف کو حکم دے کہ وہ اسلامی اتحادی افواج کو لے کر اسرائیل پر حملہ کردے خود دو تین شاہین میزائیل داغ دے۔”

حد ہے بھئی  مطلب پاکستان اور راحیل شریف نا ہوگیا کوئی ویڈیو گیم ہوگئی۔

ابھی تو فرقہ پرست, قوم پرست, زبان پرست, ذات پرست, شخصیت پرست اور جماعت پرست دانشوروں کا تبصرہ نہیں بتایا ورنہ طبعیت کا کیا حال ہوتا آپ کی سوچ ہے۔

بہرحال ایسی اوٹ پٹانگ باتوں اور تبصروں سے یہ خبر منڈی بھری پڑی ہے جو ہمارے دانشور بہت محنت اور لگن سے تیار کرتے ہیں۔

خبر کی ایسی خبر لیتے ہیں کہ وہ مکمل ناول بن جاتی ہے۔

ایسی زیر زبر کرتے ہیں کہ بیچاری خبر کسی اورکے سامنے پیش ہونے کے قابل نہیں رہتی۔

زیادہ تبصرہ اور اظہار خیال نہیں کروں گا اے میرے فیسبکی خبری دانشورو اور مکھن فروش میرے بہن بھائیوں مجھے یہ بتا اور سمجھا دوکہ آخر تم کیسے کر لیتے ہو یہ سب؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نہیں میرا مطلب آخر کیسے؟!!

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply