جدوجہد تیز ہو۔۔۔آصف خان بنگش

پرجوش و پرامید نوجوان طلبہ، اس فرسودہ نظام اور حکمران طبقہ کی لگائی گئی قدغنوں سے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے ملک بھر میں سڑکوں پر نظر آئے۔ اتنی تعداد میں طلبہ کا اپنے حقوق اور ملکی سیاست میں پر چھائے جاگیردارانہ اور موروسی نظام حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے طلبہ تنظیموں کی بحالی کیلئے آواز اٹھانا ایک نویِ سحر ہے۔ جہاں مارشل لاء میں حکومت مخالف آوازیں دبانے کیلئے قانون بنائے گئے وہاں طلبہ و مزدور یونینز پر پابندی بھی لگائی گئی تا کہ ایسی آوازوں کو دبایا جا سکے جو کہ حقیقی طور پر آمرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ان مظاہروں سے دو چیزیں مشاہدہ میں آئیں اول تو یہ کہ طلبہ و نوجوانوں کو جس چالاکی سے پچھلی دو دہائیوں میں دھوکے  میں رکھا گیا، انہیں ہر قسم کے  سیاسی سرگرمی سے دور رکھا گیا، ادبی سرگرمیوں کو بھی محدود کر کے ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر جس اخلاقی پستی میں ڈالا گیا اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف تو بدانتظامی و کرپشن کی وجہ  سے تعلیمی اداروں کو جس گھناؤنے کاموں کیلئے استعمال کیا گیا وہیں طلبہ یونینز کے نہ ہونے کی وجہ سے اور طلبہ کا آپسی نظم و ضبط و باہمی ربط کے نہ  ہونے سے طلبہ اس کیخلاف موثر آواز اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی  یونینز کے ذریعے طلبہ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اور انتظامی امور کو سیکھتے ہیں۔ اسی عمر میں وہ عوامی رابطہ کرتے ہیں مختلف علاقوں کی درسگاہوں میں جا کر وہاں کی مقامی قیادت سے میل ملاپ رکھتے ہیں اور انہی  درسگاہوں سے نچلے و متوسط طبقے کے ایسے طلبہ جو قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں آگے آتے ہیں اور ملکی سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔ یہی وہ قیادت ہوتی ہے جو کہ عوام کے حقوق و مسائل کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں انہی  تنظیموں کو سیاست کی نرسریاں قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں جس حد تک سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کی پکڑ ہے وہاں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ آمریت کی نرسری میں پلنے والے سیاستدانوں اور جدی پشتی گدی نشینوں کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ آج کے باشعور نوجوان سے ہے۔ ہر صدی میں انہی  قوتوں نے نئے نعرے سے نوجوانوں کو ورغلایا ہے۔ اب نہیں تو کب، ہم نہیں تو کون کے نعرے پر لبیک کہنے والوں کو بھی جب وہی الیکٹیبلز نظر آئے تو ان کی توجہ مزاحمتی سیاست و تحریک کی طرف ہی گئی ہے۔ ان تنظیموں کا خلاء بہرحال موجود ہے جسے اگر مثبت سمت نہیں دی جائیگی تو یہی طلبہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری بات یہ کہ جو جوش و خروش اور جو ولولہ ان طلبہ میں دیکھا گیا وہ نہایت خوش آئند ہے۔ کم از کم یہ تاثر تو ختم ہوا کہ طلبہ اب اصل مسائل کو بھول کر مخالف سیاستدانوں کے کارٹون بنانے اور ان کی ذات کا مذاق اڑانے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑا اقدام ہے اس سے ان تمام مایوس نوجوانوں کو سمت ملی ہے جو بوگس نعروں سے تنگ آچکے تھے۔ یہ ایک پلیٹ فارم ہے ان تمام نوجوانوں کے لیے  جو ایک مثبت تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ارباب اختیار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہیں گے۔ جتنا بھی مثبت احتجاج ہو اس کے منفی پہلو برآمد کرتے رہیں گے۔ گندگی جن اذہان میں جگہ کر گئی وہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ اس لئے کسی کے پرچم کے رنگ پر اختلاف نہ کریں اس تمام معاملہ کے مثبت پہلو اجاگر کرکے اپنا حصہ ڈالیں نہ کہ اس میں منفی پہلو تلاش کر اس پر پانی پھیریں۔ نظریاتی اختلاف کو محدود کر کے وسیع تر جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس فرسودہ نظام سے سے خلاصی کیلئے اب آپسی اختلاف کو ایک طرف کر کے طلبہ کو اپنے حقوق کیلئے، پابندی آزادی اظہار کے خلاف اور عوام کے بنیادی حقوق کیلئے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ تمام احباب کیلئے یہی پیغام ہے کہ “جدوجہد تیز ہو”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply