1996ء کی بات ہے کہ میں دوستوں کے ساتھ ناران کاغان گیا تو شیو بڑھی ہوئی تھی کیونکہ مہینے میں دو بار ہی کیا کرتا تھا۔ ناران میں جا کر نائی کی دکان پر گیا اور اُسے کہا کہ شیو کر دے۔ اُس نے بہت غصے سے دیکھا اور کہا کہ چلے جاؤ اِدھر سے۔ سنت کو نالی میں بہاؤ گے؟ میں چلا آیا۔ اگر میں کہتا کہ جب داڑھی تراشتے ہو تو کیا اُس وقت بال نالی میں نہیں جاتے؟ تو شاید کل ہونے والا سوات واقعہ تبھی ہو گیا ہوتا۔
ہم ’’کلچر‘‘ اور ٹھنڈ کے شیدا پنجابی ایک طویل عرصے سے شمالی علاقوں میں جاتے ہیں جہاں اب نہیں جانا چاہیے۔ اس کی کئی دلیلیں موجود ہیں۔ میں دو تین سال پہلے متواتر دو سال سوات اور کالام جا چکا ہوں۔ وہاں کوئی کلچر نہیں ہے۔ سیاحوں کے لیے وہاں دریا کے اندر بنے ہوئے، جگہ جگہ سے تڑخے ہوئے ہوٹلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک جگہ پر مولانا حضرات ویگنوں اور گاڑیوں سے چندا یا بھتہ بھی وصول کر رہے تھے۔
موٹروے کی ٹنل گزرنے کے کچھ دیر بعد سوات نامی علاقہ شروع ہوتا ہے جو تمام سفر کے دوران ایک بازار ہے۔ دونوں طرف مارکیٹ۔ مٹہ تک دکانیں، ورکشاپس، پست درجے کے ہوٹل، ایک اجنبیت، پھلوں کی ریڑھیاں، تعمیراتی سامان کی بے شمار دکانیں۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ فیروزپور روڈ سے بھی کمتر درجے کے کسی بازار میں سفر کرتے جا رہے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے تک ویگنوں، پک اَپس کے درمیان آہستہ آہستہ سفر کے بعد کہیں کچھ کھلی وادی آتی ہے تو آپ اپنے پیسے پورے کرنے کی خاطر نیچے دریا تک پہنچنا چاہتے ہیں، مگر وہاں مقامی لوگ آپ کو اپنی پک اَپ یا کاریں دھوتے ہوئے بے اعتنائی اور ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔
آپ وہاں سے دفع ہونے کا سوچتے اور نسبتاً بہتر سفر کر کے کالام پہنچتے ہیں۔ وہاں بھی بس ایک بازار اور ذلت ہے۔ صرف آسمان اچھا لگتا ہے۔ اگلے روز کوئی بتاتا ہے کہ قریب ہی اوشو فاریسٹ نامی بڑی اچھی جگہ ہے اور مہوڈنڈ جھیل بھی ضرور جانا، وہ فاریسٹ راستے میں آئے گا۔ آپ کچھ دیر کے لیے حسین فاریسٹ میں رکتے ہیں تو کراہت آتی ہے۔ جگہ جگہ پر پاخانے کے ڈھیر، بدبو، سبز موٹی مکھیاں، آپ وہاں یوں چلتے ہیں جیسے بارودی سرنگوں سے بچ رہے ہوں۔ اب اتنے پیسے خرچ کر آئے، تصویریں تو لینی ہی ہیں۔ پھر پانچ گھنٹے تک کھڈوں، اور دھول میں سفر کر کے مہوڈنڈ پہنچتے ہیں تو کچھ سکون ملتا ہے۔ لیکن وہاں واش روم نہیں ہیں۔ بس عارضی سے خیمے لگے ہوتے ہیں۔
واپس آنے پر جگہ جگہ آپ کو پی ٹی آئی کے جھنڈوں والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر سوار نوجوان ملتے ہیں جو آوازے کستے ہیں، گھورتے ہیں، راستہ نہیں دیتے۔ اُن کے لیے آپ کی کوئی وقعت نہیں۔ یوتھیائی بدتمیزی اُن کی معیشت اور شغل ہے۔ وہ انسانیت کے اوشو فاریسٹ میں پاخانے کی ڈھیریوں جیسے ہیں۔ اُن سے بچ کر رہنا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی ایسے ہی مقبول نہیں وہاں۔
اگر پٹرول اور وقت اجازت دیں تو وہاں ضرور جائیں۔ لیکن وہاں آپ کو جلنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں لاوا پک کر تیار ہے۔ لیکن جلنا ہی ہے تو اتنا سفر کرنے کی کیا ضرورت؟ کہیں مریدکے یا جہلم وغیرہ میں بھی ٹرائی کر سکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں