مزہ لیجئے …ایک جلسہ گاہ کی لائیو کوریج کا (حصہ اول)

منظر ہے ایک جلسے کا…جلسہ کس کا ہے؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔فرق اگر کسی چیز سے پڑتا ہے تو وہ لوگوں کی تعداد، اسٹیج پر بیٹھے افراد، ان کے طرز تخاطب، انداز گفتگو اور جملوں کے انتخاب سے پڑتا ہے۔صحافت سے وابستگی کے باعث تقریباً ہر بڑی چھوٹی سیاسی جماعت کے جلسے کی کوریج کا شرف حاصل رہا ہے، اسی لئے آج آپ کو ایک عدد سیاسی جلسے کی سیر کروانے کا دل چاہا۔ سو صاحبو! تصور کرلیجئے کہ کسی بھی شہر کے کسی بھی گرائونڈ میں کسی بھی سیاسی جماعت کا ایک جلسہ ہے جسے اس سیاسی جماعت کے مرکزی قائدین نے خطاب کرنا ہے۔ جلسہ کا وقت مقررکیا گیا ہے دوپہر دوبجے، لیکن صبح آٹھ بجے سے کارکنوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے کارکن گاڑیاں بھر بھر جلسہ گاہ پہنچ رہے ہیں۔ مقامی کارکن اپنی سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اٹھائے اپنے قائدین کے حق اور مخالفین کے خلاف نعرے بازی کرتے ٹولیوں کی شکل میں جلسہ گاہ میں داخل ہو رہے ہیں۔پنڈال سجایا جا رہا ہے ، کرسیاں لگائی جا رہی ہیں۔کتنی کرسیاں ہیں؟ اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق تو اس سے پڑتا ہے کہ لوگ کتنے ہوں گے لہٰذا لوگوں کی تعداد پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے کرسیوں پر تو ویسے بھی جلسوں میں لوگ بیٹھتے نہیں، کھڑے ہوتے ہیں۔ کرسیوں پر کھڑے ہونے سے انہیں اسٹیج پر طمطراق سے بیٹھے اپنے قائدین زیادہ واضح دکھائی دیتے ہیں پھر بھلے ہی پیچھے بیٹھے کسی معذور، کسی بچے، کسی بزرگ کو کچھ دکھائی دیتا ہے یا نہیں، کیا فرق پڑتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں سیاسی جلسوں میں جو چیز بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے وہ ان جلسوں کا مزاج ہے، کارکنوں کا جوش وخروش اورولولہ و جذبہ جگانے کے لئے اب نعرے بازی نہیں ہوتی، قائدین کی آمد سے پہلے مقامی رہنمائوں کو خطاب کا موقع نہیں دیا جاتا جو اپنے علاقے کے دلعزیزاور زبردست مقرر ہونے کی حیثیت سے جلسہ گاہ کی رونق بڑھایا کرتے تھے، کارکنوں میں جذبہ، ولولہ اور جوش و جذبہ جگایا کرتے تھے، ان کے ایک ایک نعرے کے جواب میں کارکن گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچایا کرتے تھے۔ آج خیر سے یہ کام ڈی جے کرتا ہے۔ کون سا ڈی جے؟ ارے بھئی! اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ مشہور ڈ ی جے تو چند ایک ہی ہیں لیکن ہرچھوٹی بڑی جماعت کے پاس اس کام کے لئے اپنے مخصوص افراد موجود رہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ کام سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ کاروباری بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس لئے ڈی جے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ سوا اب مقامی رہنمائوں کے ذریعے کارکنوں کو جوش دلانے کا دور جاچکا ہے اب یہ کام ڈی جے اپنے چند مخصوص گانوں اور بڑے بڑے اسپیکرز کے ذریعے کرتا ہے۔ قائدین نے پرانے انداز بدلے تو کارکنوں نے بھی قدیم طریقہ کار کو پس پشت ڈال کر جدید انداز میں جوش و جذبہ دکھانے کا سلسلہ شروع کردیا، اب ڈھول کی تھاپ پر روایتی رقص نہیں ہوتا بلکہ ڈی جے کے دل دہلا دینے والے تیز میوزک پر باقاعدہ رقص کیاجاتا ہے، ان جلسوں میں اکثر نوجوانوں ہی نہیں اچھی خاصی بڑی عمر کے بلکہ باریش افراد کو بھی باقاعدہ ناچتے دیکھا گیا ہے۔ بلاشبہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اکثر جلسوں میں اذان اور آس پاس کی مساجد میں کھڑی نمازوں تک کا احترام نہیں کیا جاتا اور شغل میلہ جاری رہتا ہے۔
جلسہ گاہ میں کارکنوں کے لئے کھانا پینا تو ایک طرف کرسیوں کے علاوہ سادہ پانی کا بھی انتظام خال خال ہی دکھائی دیتا ہے، شومئی قسمت سے اگر کسی جلسے میں کھانے کا انتظام کیا بھی گیا ہو تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جو آئے روز سیاسی جلسوں کے بعد کھانے پر کسی پلنے والے مناظر میں دکھایا جاتا ہے، بیچارے کئی کئی گھنٹوں کے بھوکے پیاسے کارکن اب کھانے پر ایسے بھی نہ جھپٹیں تو پھر ان کے ہاتھ تو کچھ نہیں آنا۔اوپر سے یہ کیمرہ مین بھی ہر جگہ کیمرہ ہاتھ میں لئے بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں، خود بھی دن بھر کے بھوکے ہوتے ہیںپھر بھی ان کا دل گردہ ہے جو آخر تک جلسے میں موجود رہتے ہیں ۔خیر بات ہو رہی تھی جلسے کے وقت کی جو رکھا گیا تھا دوبجے، کارکنوں صبح آٹھ بجے سے پنڈال پہنچنا شروع ہوئے اور ان کے ساتھ ساتھ جو مخلوق اکثر اوقات ان سے بھی پہلے جلسہ گاہ میں موجود ہوتی ہے وہ میڈیا سے وابستہ وہ افراد ہیں جنہیں چار چھ گھنٹے پہلے ہی میدان کارزار میں اتار دیا جاتا ہے۔میڈیاکے لوگوں کے ساتھ چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی کارکنوں کا رویہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ جلسے کی کوریج نہیں بلکہ ادھار مانگنے آئے ہیں، بدتمیزی، بدتہذیبی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ کارکنوں کو لگتا ہے کہ یہ میڈیا کے لوگ ان کے ذاتی زرخرید غلام ہیں جو دن بھر کیمرہ اٹھائے ان کے قائدین کے آگے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یہاں کچھ قصور ہمارے پیٹی بھائیوں کا بھی ہے (کچھ اس لئے کہ بلاشبہ ان کی تعداد بہت ہی کم ہے) جو ہرجلسے میں خبر کی بجائے عزت اور کھانے پینے کی تلاش میں جاتے ہیں۔ ارے بھائی! عزت اور خبر اکثر اوقات ایک جگہ سے ایک ساتھ نہیں ملتی، ویسے بھی ادارہ خبر کے پیچھے بھیجتا ہے اور تنخواہ بھی اسی کام کی دیتا ہے نہ کہ عزت افزائی۔
یہاں تھوڑا ذکر ان صحافی دوستوں کا بھی ہوجائے جو ہردوسرے جلسے، پریس کانفرنس یا کسی بھی ایونٹ کے بائیکاٹ کا مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ جب سے خیر سے ملک میں نیوز چینلز کی فراوانی ہوئی ہے تب سے صحافت میں بائیکاٹ کا کلچر تقریباً ناپید ہو کر رہ گیا۔ ہر چینل بائیکاٹ کرنے سے پہلے بیسیوں مرتبہ سوچتا ہے کہ کسی دوسرے چینل نے یہ خبر یااس کی فوٹیج چلا دی تو اس کی نوکری خطرے میں پڑ جائے گی اور یہ ہے بھی حقیقت ہی۔ لگے ہاتھوں ایک مختصر سا واقعہ بھی اسی بیان میں ہوجائے، دنیا نیوز میں شمولیت کے نئے نئے دنوں کی بات ہے کہ پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ میں ایک وفاقی وزیرصاحب مدعو تھے، صبح دس بجے شروع ہونے والا پروگرام وفاقی وزیرموصوف کے انتظار میں ایک بجے تک سوکھ کر کانٹا ہوگیا ساتھ ہی میڈیا کے دوست بھی ۔ایسے میں ایک ساتھی نے آئیڈیا پیش کیا کہ بائیکاٹ کرتے ہیں۔چونکہ اس سے پہلے ہم اخبار میں تو دھڑلے سے بائیکاٹ کردیا کرتے تھے چنانچہ سب سے مشورہ کیا گیا جس ساتھی نے بائیکاٹ کا مشورہ دیا تھاوہ سب سے زیادہ شور کر رہا تھا کہ ہم صحافیوں کی بھی کوئی عزت نفس ہے، ہم یہاں ذلیل ہونے نہیں آئے، وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ ہم نے ہیڈآفس کو صورتحال اور بائیکاٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا اور سب چینلز جائیں تو آپ بھی چلے جائیں کا حکم ملتے ہی سب کے ساتھ ایونٹ چھوڑ چھاڑ کر نکل آئے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد جس ساتھی نے سب سے زیادہ شورشرابہ کیا تھا اسی چینل پر اس وفاقی وزیر کو براہ راست دیکھ کر ہم حیرت سے ششدر رہ گئے، بعد میں ہیڈآفس سے جو کلاس لی گئی ، وہ الگ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہم بائیکاٹ کے نام سے بھی ناواقف ہوچلے ہیں۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply