دہشتگرد کون

چلو تھوڑی دیر کے لیئے مان لیتے ہیں کہ مسلمان دہشتگرد ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ دہشتگرد عوام ہیں یا حکمران؟ دنیا میں جتنی بھی مسلمان حکومتیں ہیں۔ وہ اسلامی اور مذہبی دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتی ہیں بلکہ وہ بھی اس دہشتگردی کے سردرد سے محفوظ نہیں ۔اب حیرت اس بات پر ہے کہ مسلمان حکومتیں تو اسلامی دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتیں ۔لیکن انھی اسلامی حکومتوں کی عوام اپنے حکمرانوں کی طرز حکومت سے خوش نہیں ۔عوام یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے حکمران دبتے ہیں ان غیر مسلم حکمرانوں سے ؛ وہ ہم مسلمانوں کو دہشتگرد سمجھتے ہیں ۔اور ہمارے حکمران شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھے ہیں۔اور ان کو جواب دینے کے لیئے تیار نہیں کہ مسلمان دہشتگرد نہیں۔ایسا کیوں ہے کہ مودی کے خلاف تو آواز اٹھتی ہے کہ وہ ایک انتہاء پسند جماعت کا سربراہ ہے اور اس نے کئی جگہوں پر ببانگ دہل برملا اس بات کااظہار کیا ہے کہ وہ اس قسم کی دہشتگردی اور سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے لیکن کوئی بھی غیر مسلم ملک اس کی اس دہشتگردی کو نشانہ نہیں بناتا کہ ایسا کیوں ہے۔اس کے بعد امریکہ کا ایک صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس کے خلاف اپنے ملک سمیت پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے کہ اگر اس شخص نے حکومت سنبھالی تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا ۔خاص کر اسلامی ممالک کو اس سے خطرات بڑھ جائیں گے ۔
اب آتے ہیں اسرائیل کی طرف ان کے وزیراعظم ایریل شیرون اور بینجمن نتن یاہو کی مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس کے علاوہ یورپ کے حکمران ،مسلمانوں سے تعصب نہیں برتتے۔ کیا وہ در پردہ اسرائیل کو سپورٹ نہیں کرتے ۔کیا واجپائی مسلمان دشمنی میں کسی سے پیچھے تھا ۔کیا بال ٹھاکرے اور اس کے غنڈےآج بھی وہاں کے مسلمانوں کو تنگ نہیں کرتے؟کیا چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ نسلی تعصب نہیں برتا جاتا؟کیا میانمار برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح نہیں کاٹا گیا ؟کیا عراق کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دی گئی؟معمر قذافی کے ساتھ کیا کیا؟آج شام ،حلب میں کیا ہورہاہے ؟کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن پھر بھی مسلمان دہشتگرد ہیں۔
حالانکہ یہ جتنا بھی ظلم ہوا یا ہورہاہے مسلمانوں کے ساتھ وہ مذہبی بنیادوں پر ہی ہورہا ہے۔یہ وہ غیر مسلم حکمران ہیں جو مسلم دشمنی میں سب سے آگے اور پیش پیش ہیں لیکن انھیں نتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ۔اب اگر ہم مسلمان حکمرانوں کی بات کریں،کہ ان مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا ،اسے تاریخ کبھی نہیں بھول پائےگی۔وہ بھی اپنا تخت و تاج بچانے کے لیئے ،اپنے ہی حکمرانوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔اگر دیکھا جائے تو مسلمان حکمران یہ مقدمہ اچھے طریقے سے لڑ سکتے تھے ، اور غیروں کو یہ بات باور کراسکتے تھے کہ مسلمان دہشتگرد نہیں ۔کیونکہ یہ دہشتگردی کا لیبل مسلمان حکمرانوں پر نہیں بلکہ مسلمان عوام پر تھا ۔
کیا ہمارے مسلمان حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ وہ امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کریں کہ جو ہوا سو ہوا اب بات کر تے ہیں دلائل سے کہ کون دہشتگرد ہے ؟ اور کون مظلوم؟ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟ہے کوئی ایسا مسلمان حکمران جو مقدمہ لڑے اپنی مسلمان قوم کا ،اور بتائے ان غیروں کو کہ جیسے ہم حکمران دہشتگرد نہیں ایسے ہی عوام بھی دہشتگرد نہیں۔بلکہ مسلمان تو خود مسلسل دہشتگردی کا شکار ہے لہٰذا وہ کیونکر دہشتگردی میں ملوث ہوگا۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply