فلسطین (9) ۔ علاقہ/وہاراامباکر

یہ بہت چھوٹا علاقہ ہے۔ اسرائیل، غزہ اور مغربی کنارے کا کل رقبہ دس ہزار مربع میل ہے۔ (موازنے کے لئے: یہ صوبہ سندھ کا پانچواں حصہ ہے)۔ نہ صرف یہ چھوٹا ہے بلکہ قدرتی وسائل کی بھی کمی ہے اور خاص طور پر پانی کی۔ زیادہ حصہ صحرا ہے اور انسانی آبادی کے لئے نامہربان ہے۔ زرخیز زمین اور پانی کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ یہ وسائل اہم ہیں۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے انہیں چھوڑ دینا آسان نہیں۔ ہر خطہ زمین اور پانی کا ہر قطرہ اہم ہے۔ اور اس حقیقت نے لڑائی کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ زمین کو تقسیم کرنا یا شئیر کرنا دشوار ہے۔

چھوٹے علاقے کا یہ بھی مطلب ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی قریب قریب رہتے ہیں۔ اگرچہ کہ ملٹری چیک پوائنٹس کی وجہ سے آپس میں میل ملاپ نہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی آبادی کے مراکز کے درمیان فاصلے بہت کم ہیں۔ یروشلم کا فاصلہ ہیبرون (الخالدی) سے تیس کلومیٹر ہے۔ تل ابیب کا فاصلہ رام اللہ سے پینتالیس کلومیٹر ہے۔ جب مطلع صاف ہو تو مغربی کنارے کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر تل ابیب کی عمارتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سدیوروٹ کا شہر غزہ سے ایک میل کے فاصلے پر ہے (یہاں پر سب سے زیادہ راکٹ گرتے ہیں)۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے خود کو محفوظ سمجھنا مشکل ہے جب “دشمن” اتنا قریب ہو۔

اسرائیل کے ہمسائے سیریا، لبنان، اردن اور مصر ہیں۔ دمشق اور بیروت کا حیفہ سے فاصلہ سو میل سے کم ہے۔
اگر اسرائیل چھوٹا ہے تو مغربی کنارہ اور غزہ بہت چھوٹے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ بنائی گئی ایک کالونی بھی بڑا مسئلہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فلسطین عثمانی دور میں ایک صوبہ رہا تھا جس پر استنبول سے چار سو سال حکومت کی جاتی رہی اور اس کے مختلف انتظامی حصے تھے۔ اس علاقے کی موجودہ سرحدیں 1916 میں کھینچی گئی تھیں۔
اس علاقے پر موجودہ کنٹرول اسرائیل کا ہے۔ اس سے قبل تیس سال تک برٹش کا تھا۔ جس سے قبل چار سو سال تک عثمانیوں کا (درمیان میں دس سال مصریوں کا)۔ عثمانیوں نے انہیں مملوک سے چھینا تھا جو سوا دو سو سال حکومت کرتے رہے۔ مملوک نے دو صدیوں کے صلیبی قبضے سے اسے حاصل کیا تھا۔ صلیبیوں میں فاطمیوں کو شکست دی تھی جنہوں نے سلجوق سے اسے حاصل کیا تھا۔ سلجوق نے عربوں کی چار صدیوں حکومت ختم کی تھی۔ عربوں نے اسے بازنطینیوں سے فتح کیا تھا جنہوں نے رومی سلطنت کے زوال کے بعد اس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ اس علاقے کی دو ہزار سالہ حکمرانی کی تاریخ ہے۔ اس سے قبل، قبلِ مسیح میں یہ یونانی، فارسی، بابل، اسرین، اسرائیلی، مصری اور کنعانی حکمرانوں کے پاس رہ چکا ہے۔
فتوحات اور قبضے کی ایسی تاریخ دنیا کے ہر علاقے کی ہے۔ اس دوران نقل مکانی اور آبادکاری ہوتی رہی۔ کسی بھی جگہ کی طرح “مقامی” کے لفظ کے معنی صرف یہی ہوتے ہیں کہ آپ تاریخ دیکھنا کب سے شروع کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply