اس بار موسم گرما کی چُھٹیاں لاہور گزارنے کا شوق ہوا۔
جنوری میں بیٹھ کر گرمیوں میں آم کھانے کے خیال نے منہ میں فوراً ہی مٹھاس کا رس گھولنا شروع کر دیا۔
یکدم ابو کی آواز آئی !
گُل ل ل ل ۔۔۔نوید د د د ۔۔شبنم م م ۔۔۔
اللہ خیر ۔ ۔۔ابو اتنا کیوں چلا رہے ہیں ۔ ایک افرا تفری کا عالم برپا ہو گیا۔ امی کو بھی کچن سے بُلا لاؤ ۔
اور پھر وہی ہوا ۔۔ ۔ایک مخصوص سی بیٹھک کا انتظام ہو گیا۔
ہمارے گھر اور ابو کی یہ خوبی ہوتی تھی کہ کسی بھی پروگرام میں گھر کے سب بڑے اور چھوٹے افراد کو شامل کیا جاتا ۔چائے کاانتظام ہوتا ۔ وقت اور دن مقرر ہوتا اور باقائدہ پنچائیت کا سا سماں ہوتا۔ سب کی سُنی جاتی اور پھر ایک یکمشت فیصلے کے مطابق اُس پر عمل کیا جاتا ۔
ہاں لیکن اُس دن کچھ خاص ایمر جنسی ہوئی ہوگی جو ابو نے گھر سر پہ اُٹھا رکھا تھا۔ دس منٹ میں سب کو ابو کے کمرے میں حاضر ہونے کا حکم صادر ہوا ۔
پہلے تو دل دھک دھک کرنے لگا کہ کہیں کسی کی شامت کا بندوبست تو نہیں ہو رہا ؟
پھر سب بچوں نے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے خرامہ خرامہ کمرے کا رُخ کیا۔
کمرے میں آہستہ آہستہ سب نمودار ہونے شروع ہو گئے ۔
اب امی کہاں رہ گئیں ؟
اوہ ۔۔ معمول کے مطابق جلدی سے چائے کو دم لگا رہی تھیں ۔ بھرپور رنگوں والی کشمیری ٹی کوزی کے نیچے سفید دم لیتی ہوئی کیتلی ۔۔۔۔اُف شاید پورے دن کا بہترین مشروب ہوا کرتا تھا۔
یہ کیا ۔۔ابو اپنی نشست سنبھالے مسکرا رہے تھے !
ابو کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ مؤدب وضع کی سنجیدہ سی شخصیت تھے ۔صرف دل کے قریب لوگوں پر اپنی ذاتی کیفیت کا اظہار کرتے ورنہ خاموشی کو ترجیح دی جاتی۔ اصولوں کی ایک دکان جس سے آپ صرف مفت فیض پا سکتے تھے۔
ہمارے لیے وہ ابو تھے لیکن وہ کہتے ہیں نا “ چراغ تلے اندھیرا “ بس کچھ کچھ وہی حال تھا ۔
محفل اب جم چکی تھی۔ تمام گھر والے جس میں چار عدد بچے اور امی یعنی کہ کُل کائنات شامل تھے، بیتابی سے ابو کے کچھ بولنے کے منتظر تھے۔
بالآخر ابو نے بستر پر کمر سیدھی کرتے ہوئے ، کاپی پین سنبھالا اور ہلکے سے ہونٹوں کو جنبش دی۔
“ کیا اس سال گرمیوں میں ہم لاہور چلیں ؟ “
جنوری کے موسم میں جون کی بات ، ایک حسین اُمید ، ایک پُرزور خیال ۔ ۔ابو یہ کیسا مذاق کر رہے تھے؟
خواہ مخواہ ہی ہمیں اتنا جذباتی کر دیا۔ آرام میں بھی خلل پڑا اور امی بیچاری نے تو ابھی کھانے کا بھی بندوبست کرنا ہے ۔
لیبیا میں رہائش پذیر ہوئے ہمیں تین برس ہو چکے تھے۔ ۱۹۸۰کی دہائی میں اُس ویران ریگستان جہاں خشک سڑکوں اور پیلی در و دیوارکے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔حدِ نگاہ تک نظر کسی نخلستان کو ترس جاتی تھی۔ چرند پرند کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ سیراب کے پیاسے ہم میلوں ڈرائیو پہ جا کے بھی کوئی منظر کشی کی تصویر مرتب نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے میں ہوٹل ، شاپنگ ، پارک وغیرہ ایک خواب محسوس ہوتا تھا ۔
ہمارے تیور بھانپ کر ابو بولے ۔
دیکھو بچو اس پروگرام بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آج سے پُر لطف خواب بُننا شروع کر دیں ۔ زندگی میں ایک اُمید جنم لے گی ۔دھیمادھیما سا سرور خون کو گرماتا رہے گا ۔لاہور کی رونقوں کو سوچ سوچ کر ہم ہر دن اچھا گزاریں گے۔سمجھداری اور پلاننگ سےتحائف کی شاپنگ بر وقت کر لی جائے گی ۔ٹرپ کو بھرپور انجوائے کرنے کے لیے سلیقہ مندی سے ماہانہ بچت کی جائے گی۔ جیسےجیسے وقت قریب آئے گا، ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ سستی ٹکٹ خریدنے کا المیہ بھی خوش اسلوبی سے طے پاجائے گاوغیرہ وغیرہ ۔
غرض یہ کہ ابو نے ایک انتہائی پُر امید ، دور اندیش اور والہانہ پروگرام کی بنیاد رکھ دی۔
ہم بچے تھے بات کی گہرائی کو قطعاً سمجھ نہیں پائے۔ لیکن آج اللہ کی نعمتوں کو جیسے جیسے استعمال کرنے نکلتے ہیں اُس کی بےقدری کے مجرم بنے اپنے ضمیر کے کٹہرے میں خود ہی آن کھڑے ہوتے ہیں ۔
پیسہ ، ہوٹل ، پارک ، شاپنگ ، تفریح اور کیا کیا نہیں ہے لیکن نہ کوئی پلاننگ ہے ، نہ کوئی ایکسائٹمنٹ اور نہ ہی ابو !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں