ذات پات سےآزادی کب ملے گی؟۔۔ابھے کمار

جب ملک بھر میں جشن آزادی کا ۷۵ سالہ اَمرت مہوتسو منایا جا رہا تھا، تب راجستھان کا ایک چھوٹا سا بچہ ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہا تھا۔ہفتے بھر سے زیرِ  علاج، نو سالہ معصم کی حالت بگڑتی ہی جا رہی تھی۔ ۱۳اگست کو آخر کار اس کی زندگی کا چراغ بُجھ گیا۔مقتول کا نام اِندر میگھوال ہے، جو جالور ضلع کے ایک مقامی سکول میں درجہ سوم میں پڑھتا تھا۔اس معصوم کا صرف اتنا ہی قصور تھا کہ وہ ایک دلت سماج میں پیدا ہوا تھا، جس میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ذات پات کا قانون توڑنے کی پاداش میں اس کے نازک سے جسم کو توڑ دیا گیا۔اسے سخت ترین سزا دےکر عالیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے استاد نے دوسرے دلتوں کو یہ سبق دیاکہ ذات پات کی غلامی کو چیلنج کرنے والے  ہر کسی کا یہی انجام ہوگا۔

پوری بات یہ ہے کہ اِندر جالور ضلع کے سُرانا گاؤں کے ایک نجی  سکول سَرسوتی وِدیا مندر میں پڑھتا تھا۔ ۲۰ جولائی کے روز اس نے استاد کے لیے رکھے گئے ایک مخصوس برتن سے پانی پینا چاہا۔ چونکہ وہ دلت سماج سے آتا ہے اس لیے مٹکے  کے قریب جانا یا پھر اسے چھونا عالیٰ ذات کے ٹیچر کو ناگوار گزرا۔ٹیچر نے معصوم کی اس چھوٹی سی “بھول”  پر  زور سے مارا۔پٹائی کے بعد بچے  کی حالت خراب ہونے لگی۔ تقریباً تین ہفتے تک اس کا علاج چلا، مگر اس نے احمدآباد کے ایک ہسپتال میں زندگی سے جنگ ہار  دی ۔حالانکہ ٹیچر کو بچے  کو مارنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف ایس سی ایس ٹی ایکٹ بھی لگایا گیا ہے۔ پولیس پورے معاملے  کی تفتیش بھی کر رہی ہے۔ مگر اس انسانیت سوز سانحے  نے پورے ملک، بالخصوص دلتوں، کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔

آزادی کے بعد اس چھوت چھات کی سماجی برائی کو ایک قانونی جرم قرار دے دیا گیا۔ مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ آج بھی بڑی چھوت چھات پوری طرح سے ختم نہیں ہو پائی ہے۔ گاؤں کی بات کون کرے، شہروں میں بھی چھوت چھات کا چلن ہے۔آج بھی بہت سارے مندروں میں دلتوں کو جانے سے روکا جاتا ہے۔ بہت سارے ہوٹلوں میں ان کو کھانا دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کالج اور یونورسٹی کے جس میس کو دلت سماج کے   ملازم صاف کرتے ہیں، وہاں جب کھانا پک جاتا ہے تو ہاسٹل کی  پلیٹ میں انہیں کھانا نہیں دیا جاتا۔ ذات پات پر مبنی سماج ان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ خود کی پلیٹ لے کر آئیں اور دور کھڑے ہو کر انتظار کریں کہ کوئی ان کی تھالی میں کھانا ڈال دے۔ خود یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جب یونورسٹی کے ڈائنگ روم میں جانے اور طلبہ کے برابر بیٹھ کر کھانا کھانے سے وہاں کے صفائی کرمچاری ڈرتے تھے۔جس دفتر میں ہم کام کرتے ہیں یا جس ہسپتال میں ہم علاج کروانے کے لیے جاتے ہیں، وہاں کی صفائی کون کرتا ہے؟ صفائی ملازموں کی غالب اکثریت دلت سماج کے لوگوں کی ہے، جو ہمارا کوڑا کچرا صاف کرتے ہیں، مگر ذات پات پر مبنی سماج ان کو آلودہ سمجھتا ہے۔

گاوٴں میں   حالات اور بھی بُرے ہیں۔ وہاں چھوت چھات کا وطیرہ   عام   ہے۔ عالیٰ ذات کے دروازے پر بہت ساری کرسی اگر خالی بھی ہو تو دلت سماج کے لوگوں کو ان کے برابر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ تضاد یکھیے کہ جب دلت سماج کے لوگ کھیتوں سے غلہ پیدا کر کے اسے عالیٰ ذاتوں کے گھروں تک پہنچا دیتے ہیں، تب تک   وہ غلہ پاک رہتا ہے۔ مگر غلہ گھر پہنچنے کے بعد پھر اسی دلت کو دوبارہ اسے چھونے کی اجازت نہیں ہوتی۔اسکول میں بھی ذات پات اور چھوت چھات کا یہ نظام اسی طرح کام کرتا ہے۔ بچپن سے ہمیں کہا جاتا ہے کہ استاذ محترم کا احترام کرنا چاہیے، مگر میں یہ بڑے ہی افسوس کےساتھ   کہہ رہا ہوں کہ ہمارے اسکول اور کالجوں میں درس دینے والے بہت سارے عالیٰ ذات کے استاد  ذات پات کے تعصب میں مبتلا ہیں۔ کلاس روم کے اندر وہ عالیٰ ذات کے طلبہ کو آگےبٹھاتے ہیں، ان پر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ان کے ساتھ پیار سے پیش آتے ہیں، ان کو امتحان میں ٹاپ کراتے ہیں، جبکہ دلت اور محکوم طبقات کے بچوں کے ساتھ وہ سوتیلا سلوک کرتے ہیں۔ان کے ساتھ چھوت چھات بھی برتتے ہیں۔ انہیں پیچھے کے بینچ یا کلاس سے باہر بیٹھنےکو کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے پینے کا پانی الگ ہوتا ہے۔ کئی اسکولوں میں ان کے نام کے ساتھ ان کی برادری بھی لکھ دی جاتی ہے تاکہ کسی کو کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ محکوم طبقات کے بچوں کو بیوقوف اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اسکول کے شروعاتی دن سے ہی ان بچوں کےدل و دماغ میں خوف اور احساس کمتری بھر دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ محکموم طبقات کے بچے  بڑی تعداد میں ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ استاذ کی عزت کرنا اچھی بات ہے، مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی ملک کےایک گرو ہ نے ایک لویہ کا انگوٹھا کاٹ کر اس کی زندگی برباد کر دی تھی۔ ۹ سالہ اِندر میگھوال کے استاد  نے  تو ایک قدم اور آگےبڑھ کر اس کی جان ہی لے لی۔

اِندر کی موت کے بعد محکوم طبقات کے دلوں میں غم و غصہ کافی بڑھ گیا ہے۔ دلتوں، کمزوروں، محکموں، دبے کچلے لوگوں کو ذات پات اور چھوت چھات سے کب آزادی ملے گی؟ قومیت کا جنون تو ارباب اقتدار پرطاری ہے، مگر وہ کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب تک سماجی برائیوں کو دور نہیں کیا جائے گا، تب تک قوم کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے۔لوگوں کی حب الوطنی کا امتحان تو ارباب اقتدار ہر وقت لیتا ہے اور جن کی ملک سے محبت کو مشکوک سمجھتا ہے ان کو بدنام کرتے ہیں اور سزا بھی دیتا ہے، مگر صاحب ثروت نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ حب الوطنی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر پیٹ کو کھانا ملے اور ہر سر کو عزت۔سیاسی جمہوریت کی بات کرنا تو ایک طرح سے آسان ہوتا ہے، مگر اصل امتحان تو معاشرتی غیر برابری سے لڑنا ہے۔بقول ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سب سے بڑا محب وطن وہ ہے جو سماج کا صفائی ملازم ہے، جو معاشرےکی برائیوں کو صاف کرتا ہے اور مساوات، آزادی اور اخوت کے اقدار پر مبنی ایک نئی کمیونٹی   تشکیل دیتا ہے۔

آج معمار آئین زندہ  ہوتے تو اِندر کی موت کو دیکھ کر سب سے زیادہ افسردہ ہوتے۔

المیہ دیکھیے کہ ملک کی  آزاد کو ۷۵ سال گزر گئے، مگر آج بھی محکوم طبقات کو برابری حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ آج بھی دلت سماج کو عالیٰ ذات کے ظلم و زیادتی سے نجات حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ہر منٹ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دلت کو ذلیل کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ چھوت چھات برتا جاتا ہے۔اس پر حملے ہوتے ہیں۔اتنا ہی نہیں دلت خواتین  کی عزت و آبرو پر بھی حملہ کیا جاتا ہے۔جیل میں بھی دلت سماج کے لوگ بھرے پڑے ہیں۔پولیس کی گولی سے مرنے والوں میں دلت سماج کے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔تضاد دیکھیے کہ ایک طرف ملک میں جمہوری نظام ہے اور سب کو سیاسی اور شہری برابری حاصل ہے، وہیں دلت، پسماندہ ذاتوں کو ذات پات پر مبنی استحصال اور تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ذات پات پر مبنی معاشرے  کی بے رحمی دیکھیے کہ اس نے نو سالہ اِندر کو بھی نہیں بخشا اور اسے بڑی بے دردی سے ہلاک کر ڈالا۔ یہ وہی سماج ہے جس نے صدیوں سے محکوم طبقات اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھا۔ ان کو اَن پڑھ بنا کر رکھا۔ دلت بہوجن نظریہ کے حامل لوگوں کا ماننا ہے کہ تعلیم سے دور رکھا جانا ان کی غلامی کی  ایک بڑی وجہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لیے جیوتی راو پھُلے سے لے کر امبیڈکر نے محکوموں کے   تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ آزادی کے بعد معماران آئین نے سب کو برابری کے حقوق دیے، مگر ذات پات کی جڑیں سماج میں اتنی گہری ہیں کہ وہ آج بھی محکوموں کو برابر کا انسان نہیں سمجھتا۔ اس لیے انصاف کا تقاضا  ہے کہ نا  صرف اِندر کے حملہ آوروں کو سخت ترین سزا ملے بلکہ تعلیمی نظام اور سماج میں موجود ذات پات پر مبنی غیر برابری، تعصب اور نفرت کے خلاف ملک گیر سطح پر جنگ چھیڑی جائے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply