صد سالہ اجتماع

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان دہشت گردی، بدامنی اور معاشرتی کلچر کے حوالے سے تشویش کن صورتحال سے دوچار رہا ہے۔ موجودہ نسل بڑی حد تک کنفیوژ ذہن لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہے۔ یہ منتشر ذہن ہی نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے، خاص کر ہمارے معاشرے میں جہاں کی ننانوے فیصد عوام ایک خاص ذہن/نظریہ رکھتی ہے۔پھر ملکی بدامنی کو جب اس عمومی نظریے سے جوڑ دیا جائے تو اضطراب اور ردعمل ایک فطری امر ہوا کرتا ہے۔ ایسے حالات میں جمعیت علمائے اسلام بلند وژن سامنے رکھ کر ایک اجتماع منعقد کروا رہی ہے جس سے لوگو ں کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں، اس اجتماع کا ایک پہلو تو سیاسی ہے کہ ایک پارٹی الیکشن کے موقع پر سیاسی پاور شو کرنے جارہی ہے، اسی طرح کا ایک اجتماع 2001 میں بھی کیا گیا تھا جسکا ایک فائدہ ایم ایم اے کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ دوسرا پہلو ملکی مذہبی اکثریت کی نمائندگی کا ہے جن کا تناسب ملک میں تقریباً نوے فیصد سے اوپر ہے، جو اگرچہ مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن سب کا مسئلہ اور درد مشترک ہے اور وہ ہے حالیہ ملکی مخدوش صورتحال کی ذمہ داری سے دنیا کے سامنے کھل کر برآءت۔
اس اجتماع کے مہمانان اور مندوبین کا جائزہ لینے پر اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ جمعیت کے پیش نظر دوسرا پہلو زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اس اجتماع میں ہندوستان سے علماء دیوبند کی شرکت اور پاکستان کے دیوبندی مسلک کے سرکردہ سیاسی و غیر سیاسی علماء کی شرکت اس بات کی مضبوط دلیل ہے اور انکی ایک ایسی سیاسی جماعت کے سر پر ہاتھ رکھنا جو ملک میں پرامن طریقے سے جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور کلاشنکوف کلچر کی تو روز اول سے مخالف رہی ہے اس بات پر قوی شاہد ہے کہ یہ مکتبہ فکر اب دہشت گردی سے اپنی چار دیواری سے نکل کر دنیا کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر برآءت کا اظہار کرتی ہے۔ اب کچھ باتیں اجتماع کے حوالے سے۔۔ جمعیت کے احباب میں حسنِ انتظام اور اجتماع کی تشہیر میں جو مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے وہ حیرت انگیز حد تک خوش آئند ہے، اگر جمعیت کے کارکن اسی طرح منظم چلتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ان سے بھی عوام بڑی توقعات وابستہ کر لے گی۔ آخری بات یہ کہ اس اجتماع کا کامیاب انعقاد خود جمعیت کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ اجتماع اگرچہ تمام مذہبی سوچ رکھنے والوں کی طرف سے منعقد ہورہا ہے لیکن یہ ایک سیاسی پہلو بھی رکھتا ہے جو بہت سے لوگوں کو اس اجتماع میں شرکت سے روکے گا، اب لے دے کر جمعیت کے کارکن اور ہمدرد ہی بچتے ہیں جنکی اکثریت کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انکی نوے فیصد تعداد اہل مدارس اور طلباء ہیں جو مدارس کی ہی چار دیواری میں رہتے ہیں ، جنکی شرکت اس اجتماع میں بھی بہت مشکل ہے کیونکہ یہ اجتماع ایک ایسے موقع پر منعقد کیا جا رہا ہے کہ مدارس کے سالانہ امتحانات سر پر ہیں۔ صرف گنتی کے چند دن ہی رہ گئے ہیں۔ تمام طلبہ پورے زور و شور سے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اساتذہ اپنا نصاب پورا کرنے کے درپے ہیں اور ممتحن ختم بخاری کے پروگراموں میں الجھے ہیں، جو طلباء، اساتذہ اور ممتحن
کی اجتماع میں شرکت کے لیئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس اجتماع کو جمعیت کا سیاسی پاور شو سمجھتا ہے تو ان کے لئے اس اجتماع کا کامیاب انعقاد ایک لمحہ فکریہ ہوگا کیونکہ اس اجتماع کے شرکاء میں مدارس کے جذباتی طلباء کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ، جو لوگ بھی وہاں موجود ہوں گے وہ الیکشن 2018 میں جمعیت علمائے اسلام کے اصل ووٹر ہونگے جو مدارس کی چار دیواری سے باہر رہتے ہیں۔ اجتماع کا کامیاب انعقاد کم از کم سیاسی طور پر اس الزام کو بڑی حد تک دھو دے گا۔

Facebook Comments

ثناءاللہ
چترال، خیبر پختون خواہ سے تعلق ہے... پڑھنے اور لکھنے کا شوق ہے... کچھ نیا سیکھنے کی جستجو...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply