سوال اٹھانا واجب ہے۔۔نذر حافی

گذشتہ روز محترم رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب کا ایک فکر انگیز کالم پڑھنے کو ملا۔ یاد رہے کہ موصوف کا تعلق دھنیالہ، تحصیل دینہ، ضلع جہلم، پنجاب، پاکستان سے ہے۔ ان کے والدِ گرامی مجاہدِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم چشتی رحمۃ اللہ علیہ وہاں تیس سال تک امام و خطیب رہے ہیں۔ اس سال دس محرم الحرام یعنی روزِ عاشور کے دن رائے یوسف رضا صاحب نے ایک ایسا کالم لکھا ہے، جس نے ہر باشعور انسان کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے والدِ گرامی رحمۃ اللہ علیہ کی زِندگی سے ہی یہ معمول چلا آرہا ہے کہ دس محرم الحرام کی صبح، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد ان کی مسجد میں شہدائے کرب و بلأ کے ایصالِ ثواب کے لئے قرانِ خوانی، ذِکر و اذکار اور چھوٹے سے ایک خطاب کی محفل منعقد ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ 2007ء میں میرے والدِ گرامی رحمۃ اللہ کی رحلت ہوگئی لیکن یومِ عاشور کے دن کا معمول اُسی طرح آج بھی جامع مسجد فاروقیہ دھنیالہ میں جاری ہے۔ آج کل اس مسجد میں ضلع باغ، آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے حضرت علامہ مولانا افراز سُلطانی صاحب امام و خطیب ہیں۔

یوسف رضا صاحب نے لکھا ہے کہ ہماری مسجد میں حضرت علامہ مولانا مُحسن شاہ صاحب نے عاشور کی صبح ایک ایسی غیر روائتی بات بیان کر دی، جس سے میرے کان کھڑے ہوگئے اور خطاب کے بعد میں نے اُن سے اس بارے میں کُچھ سوالات بھی پُوچھے۔ حضرت علامہ مولانا مُحسن شاہ صاحب نے اپنے خطاب میں بتایا کہ “مروان بِن حَکم پر الله کے نبیﷺ نے لعنت بھیجی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ محسن شاہ صاحب سے مروان بِن حَکم پر لعنت بھیجنے کی چونکہ میں توقع نہیں کر رہا تھا، لہذا میرے لئے یہ ایک غیر معمولی پہلو تھا۔ تاہم اِس دوران میرے ذہن میں کُچھ سوالات پیدا ہوئے کہ اگر مروان بِن حَکم واقعی لعنتی ہے تو پھر کم از کم تین سوالوں کا جواب تو ملنا چاہیئے: محسن شاہ صاحب کا خطاب ختم ہوا اور ختم شریف پڑھ کر لنگر کی تقسیم شروع ہوئی تو محسن شاہ صاحب مسجد سے نکلنے لگے۔ میزبان علامہ افراز صاحب اور جامع مسجد نُور دھنیالہ کے خطیب مولانا محمود صاحب اُنہیں الوداع کہنے مسجد کے دروازے پر موجود تھے کہ میں دوڑ کر اُن تینوں سُنی عُلمأ بلکہ خُطبأ کے پاس پہنچا اور والہانہ انداز سے محسن شاہ صاحب کے ساتھ سلام لیتے ہوئے اُنہیں اپنا تعارف کروایا۔

محسن شاہ صاحب ظاہر ہے کہ پہلے سے مجھے جانتے تھے، لہذا میرے پُرجوش انداز سے وہ بہت محظوظ اور مطمئن ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی میں نے اُن سے جب یہ پوچھا کہ “شاہ صاحب! آپ نے آج مروان بن حکم پر جو لعنت بھیجی ہے، اِس سے میرے ذہن میں تین مزید سوال پیدا ہوئے ہیں، جن کی وضاحت چاہنے کی رعائت چاہتا ہوں۔” میرے یوں پوچھنے پر محسن شاہ صاحب تھوڑے سے چوکنّا ہو کر بولے کہ “مروان بن حَکم پر لعنت میں نے نہیں بلکہ اللہ کے رسولﷺ نے بھیجی تھی۔” شاہ صاحب کی اس بات کے بعد میں نے اُن کے پاس کھڑے دھنیالہ کی جامع مسجد نُور کے خطیب مولانا محمود صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ “محمود صاحب! آپ کا اِس بارے میں کیا مؤقف ہے؟” تو مولانا حافظ محمود صاحب نے متانت کے ساتھ جواب دیا کہ “جیسے شاہ صاحب کہیں، ٹھیک ہے” اور ساتھ ہی اُنہوں نے ہم سے اجازت طلب کرلی کہ اُن کی اپنی مسجد میں طلبأ ان کا انتظار کر رہے تھے، جنہیں ساتھ لے کے حافظ محمود صاحب نے کسی ختم پر جانا تھا اور وہ پہلے ہی لیٹ ہوچکے تھے۔

یوں اب ہم تین بندے مسجد کے دروازے پر رہ گئے تو میں نے محسن شاہ صاحب سے پُوچھا کہ: “جیسا کہ آپ نے بتایا کہ رسولِ کریمﷺ نے مروان بِن حَکم پر لعنت بھیجی تھی اور پھر یہ کہ آپﷺ نے مروان بن حکم کے مدینہ داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ یہ شخص مدینہ منورہ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔” اس پر محسن شاہ صاحب نے میری بات ٹوک کر کہا: “وہ مروان کے بارے میں نہیں بلکہ اُس کے باپ حَکم کے بارے میں حُکم تھا کہ حَکم مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔” محسن شاہ صاحب کا یہ جواب اپنی جگہ درست ہوگا، لیکن حضور ﷺ نے حَکم اور اُس کی اولاد پر اللہ کی لعنت بھیجی تھی اور حضورﷺ نے حَکم کو اُس کی اولاد سمیت مدینہ بدر کیا تھا۔ لہذا میرے اصرار پر کہ “حضورﷺ کا حُکم مروان کے لئے بھی یہی تھا۔” اِس پر مُحسن شاہ صاحب نے کہا کہ “چلو فرض کر لیتے ہیں کہ مروان کے بارے میں بھی حُکم تھا تو پھر؟”

جس پر میں یوں گویا ہوا کہ “تو پھر ایسے شخص کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مدینہ واپس کیوں لے کر آئے۔؟ حضرت عثمان (رض) نے حضورﷺ سے اُن کی زندگی میں بھی اپنے سگے چچا، اُن کے بیٹے اور اپنے داماد مَروان بِن حَکم کو مدینہ آنے کی اجازت طلب کی تھی، لیکن حضورﷺ نے اجازت نہیں دی تھی۔ آپﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عثمان (رض) نے خلیفۀِ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے اجازت طلب کی کہ مروان کو مدینہ آنے دیا جائے، تو آپ (رض) نے بھی منع کر دیا کہ یہ پیغمبرِ اسلامﷺ کی لگائی ہوئی پابندی ہے، جسے میں ختم نہیں کرسکتا۔ حضرت عثمان (رض) نے ہار نہ مانی اور جب حضرت عمر بِن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ خلیفہ بنے تو آپ (رض) نے خلیفۂ دوم سے بھی گزارش کی کہ مَروان کو مدینہ آ کر رہنے دیا جائے، لیکن حضرت عمر (رض) نے بھی اس وجہ سے اجازت نہ دی کہ “رسول خداﷺ کے منع فرمانے کو میں نہیں بدل سکتا!” لیکن جب حضرت عثمان (رض) خود خلیفہ بن گئے تو آپ نے اپنے اختیارات کے تحت مَروان بِن حَکم کو مدینہ میں بُلا کر آباد کروا دیا اور پھر باغِ فَدَک جو نبیﷺ کی بیٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہ دیا گیا تھا، وہی باغ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنی بیٹی (کے خاوند اور اپنے چچازاد مروان بِن حکم) کو دے دیا! تو کیا پھر یہ حضرت عثمان (رض) کی غلطی نہیں تھی۔؟”

میرے اس سوال کا جواب جناب مُحسن شاہ صاحب نے یُوں دیا کہ یہ آپ کہہ رہے ہیں کہ مَروان بِن حکم کو مدینہ واپس بُلانا اور باغِ فَدَک اُن کے حوالے کر دینا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی غلطی تھی، میں نہیں کہہ رہا۔”میں نے اُنہیں روک کر وضاحت دینا چاہی کہ “حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دورِ خلافت میں وہی باغِ فَدَک اپنے سُسر مَروان بِن حکم کے خاندان سے لے کر اہلِبیت کے اُس وقت کے موجود لوگوں کو جب دے دیا تھا تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرف سے بی بی فاطمہؓ کو باغِ فدک نہ دینے اور حضرت عثمان (رض) کی طرف سے اپنے داماد کو دے دینے کے فیصلوں کو اُنہوں نے کیا عملاً غلط قرار دے دیا تھا۔۔۔۔؟؟؟” مُحسن شاہ صاحب نے مُجھے روکا اور کہا: “مُجھے پتہ ہے کہ آجکل آپ کِس کو سُنتے اور کس کی مانتے ہیں۔۔۔۔۔!” اُن کا اِشارہ ہمارے جہلم شہر کے آج کے مشہور یُو ٹیُوبَر اِنجینئر مرزا محمد علی کی طرف تھا، جِن سے اپنے دو دوستوں محمد نوید طالب بٹ صاحب اور جناب اِرشاد مرزا صاحب کے ہمراہ میں بھی دو بار مِلا تھا۔

مُحسن شاہ صاحب کا انداز اگرچہ دوستانہ تھا، لیکن میں اُنہیں بتانا چاہتا تھا کہ تاریخِ اسلام کا مطالعہ میں نے تب کیا تھا، جب انجینئر محمد علی مرزا ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور یہ کہ میں اُس کا پیروکار ہوں، نہ میں تیسری بار ابھی تک اُس سے جا کر مل ہی پایا ہوں، لیکن محسن شاہ صاحب چونکہ اپنی بات جاری کرچکے تھے، لہذا میں صرف اِتنا ہی کہہ پایا کہ “غلط بات ہے، یہ (مرزا محمد علی انجینئر سے متاثر ہونے والی)! میں نے خود تاریخِ اسلام پڑھی ہوئی ہے۔” اتنے میں مُحسن شاہ صاحب نے اپنی بات مکمل کی اور یہ کہہ کر وہ روانہ ہوگئے کہ “اِس بارے میں بہت سی باتیں ہیں، بہت سی تب مصلحتیں تھیں اور اِس کی تفصیل بہت لمبی ہے کہ کیسے سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مُہر کا (اُن کی بے خبری میں) لوگوں نے غلط استعمال کیا۔۔۔ لیکن آپ تو پھر اِس طرح یہ بھی اعتراض کریں گے کہ سیدِنا امیرِ مُعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بھی فیصلہ غلط تھا۔۔۔۔!”

میں نے فِی البدیہہ کہا کہ “ظاہر ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ کی قائم کردہ اسلامی ریاست میں جب خلافت کا ایک سیاسی نظام قائم ہوچکا تھا تو اُس خلافت کو ملوکیت اور بادشاہت میں بدل کر اپنے نااہل بیٹے کو جانشیں مقرر کرنے کی امیرِ شام نے غلطی تو کی تھی۔۔۔۔” مُحسن شاہ صاحب نے بڑی تنقیدی سی ایک نگاہ مُجھ پر ڈالی جیسے کہہ رہے ہوں کہ “اِیہ تُوں نہیں بولدا، تیرے وِچ مِرزا محمد علی انجینئیر پِئیا بولدا۔۔۔” ہاہاہاہاہاہا۔ لیکن ملُوکیت والے میرے سوال کے جواب میں مُحسن شاہ صاحب نے جو فرمایا وہ رضأ و قضأ کے مزید سوال چھوڑ گیا: “یہ تو خود حضورﷺ کی اپنی حدیث ہے کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت قائم رہے گی اور خُلفائے راشدین کی خلافت تیس سال تک پوری ہوئی۔۔۔” اُن کے تیس سال تک کی خلافت والے حوالے سے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اُمیہ کی خاندانی بادشاہت قائم ہونا اور اُن کے عہد میں جو جو بھی واقعات ہوئے ہیں، وہ امرِ ربی تھا تو پھر اُن کو کسی بھی کام کے لئے قصوروار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ وہ تو مجبورِ محض تھے اور تقدیر کا لکھا ہوا پورا کر رہے تھے۔۔۔۔!

اس طرح تو بنی اُمیہ کو بہت بڑی چھوٹ حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ بیچارے تو رضأ کے آلہ کار تھے اور اُن سے بالکل اُسی طرح سرزد ہو رہا تھا جیسے قُدرت نے اُن کی تقدیر میں لکھ رکھا تھا، جبکہ ہم سب اور خود محسن شاہ صاحب اہلِ بیت پر ظلم کرنے اور اُن کو کربلأ میں شہید کرنے کا مجرم بھی بنی اُمیہ کو ہی سمجھتے ہیں۔ کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ہے پھر۔؟ اِن سب ضمنی سوالوں کا جواب کون دے گا۔؟؟؟ میں نے مُحسن شاہ صاحب کی طرف سے مَروان بِن حَکم پر ممبرِ رسولﷺ پر بیٹھ کر لعنت بھیجنے کی بات موضع چک جمال کے ہی اپنے دوست جناب نوید طالب بٹ صاحب کو جب بتائی تو اُنہوں نے آگے سے اپنا ایک تجربہ مجھے یُوں سُنا ڈالا کہ ایک بار اُنہوں نے بھی مروان بن حکم کے بارے میں چک جمال میں مقیم چکوال کے ایک دیوبندی مفتی اسد مُعاویہ صاحب کے سامنے ذکر کیا تو مفتی صاحب نے تاکیداً نوید بٹ صاحب کو کہا کہ حضرت مَروان بِن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ چونکہ ایک صحابیٔ رسولﷺ تھے، لہذا اُن کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کی جائے، جو توہینِ صحابہؓ کے زمرے میں آتی ہو۔

رائے یوسف رضا صاحب لکھتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے فرقہ واریت کے علمبردار عُلماء نے مسلمانوں کے ایمان کو بنو اُمیہ، بنو عباس اور اہلِ بیت کی تاریخ اور تاریخی واقعات کے ساتھ اس قدر نتھی کر رکھا ہے کہ کُچھ شخصیات اور واقعات کے بارے میں محض رائے رکھنے والے پر بھی جزأ و سزا لاگو کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میرے سوالات کا جواب کوئی عالم یا تاریخ کا مطالعہ و تحقیق والا کوئی دوست دے سکے تو ممنون ہونگا۔ یوسف رضا صاحب نے یہ کالم چونکہ روزِ عاشور کو لکھا ہے تو ایک سوال میرے ذہن میں بھی ابھر رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ موصوف جب اپنے سوالات کسی سے پوچھیں تو ضمناً ایک سوال میری طرف سے بھی پوچھ لیں۔ جیسا کہ یزید کو لوگ بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شراب پیتا تھا، عیاش تھا، رنگ رلیاں مناتا تھا، فاسق و فاجر تھا۔ کہنے والے تو بہت کچھ کہتے ہیں، لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں ہوں کہ اگر یزید بدکار اور فاسق و فاجر نہ ہوتا تو کیا پھر امام حسین  اس کی بیعت کر لیتے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

قارئینِ محترم! اللہ تعالی کی کتاب نے بار بار انسان کو سوچنے، تفکر، تعقل اور تدبر کرنے کی دعوت دی ہے۔ فرات کے کناروں پر تو پہرا دیا جا سکتا ہے، لیکن سوچ کے دھاروں پر نہیں۔ وہ انسان ہی نہیں جو سوچتا نہیں اور وہ عاقل ہی نہیں جو سوال نہیں پوچھتا۔ بغیر سوچے سمجھے سر جھکا کر اور آنکھیں بند کرکے جینا یہ انسانیت کی سب سے بڑی تذلیل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply