مقصد کتاب (رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی)۔۔اعظم معراج

یہ کتاب میری رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر پہلی دو کتابوں کا ہی تسلسل ہے, جن کے لکھنے کا آغاز میں نے1997ءمیں کیا جب ہمارے کچھ پیش رو ساتھیوں نے ڈیفنس اور کلفٹن کراچی کے علاقوں میں کام کرنے والے اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کی ایسوسی ایشن بنائی اور ہمارے ایک دوست نے اس ایسوسی ایشن کے پہلے الیکشن کے دوران کسی میٹنگ میں میری گفتگو سنتے ہوئے مذاق میں اُس وقت کے ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتاﺅں سے کہاکہ اسے بناؤ  سیکریٹری ایجوکیشن اس طرح میں ایسوسی ایشن کی پہلی منیجنگ کمیٹی کا بلا مقابلہ سیکریٹری ایجوکیشن منتخب ہو گیا۔

اُنہی دنوں ہمارے ایک اسٹیٹ ایجنٹ ساتھی زاہد اقبال نے کلفٹن ٹائم کے نام سے میگزین شروع کیا تھا۔ جس میں کبھی کبھار میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے موضوع پر روز مرہ پیش آنے والے واقعات پر ہلکے پھلکے مضامین لکھتا۔ انہی مضامین کو یکجا کر کے میں نے اپنی پہلی کتاب ” میں تو اسٹیٹ ایجنٹ ہو گیا“ 2005ءمیں شائع کی۔ اس کتاب کو نہ صرف اسٹیٹ ایجنٹ ساتھیوں نے سراہا بلکہ اوریا مقبول جان، سجاد میر، اکبر زیدی(موجودہ ڈین آئی بی اے) جیسے لوگوں نے اسے اپنی تحریروں میں اچھوتا موضوع قرار دے کر پاکستانی معاشرے کے لئے مفید بھی قرار دیا۔ کرنل اشفاق حسین صاحب نے تو اس کتاب پر اپنے مضمون میں لکھا کہ ”میرے علم کے مطابق رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو موضوع بنا کر یہ برصغیر کی پہلی ادبی کتاب ہے“۔

اس دوران بطور سیکریٹری ایجوکیشن ڈیفکلریا میں نے کئی نئے نئے تجربے کیے۔ مثلاً پہلی دفعہ رئیل اسٹیٹ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 19اپریل1998ءکو سیمینار کروایا۔ اس کے بعد متعدد ٹریننگ ورکشاپ ،سیمینار اور ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے نمائندے ڈاکٹر سید ندیم احمد صاحب کی مدد سے ایم بی اے پروگرام بھی شروع کروایا۔ یہ بھی ا پنی نوعیت کا پہلا ہی کام تھا۔۔ اِسی دوران خلاف توقع یہ سارے کام انڈسٹری میں بہت سراہے گئے لیکن صرف سراہنے کی حد تک کیونکہ اس انڈسٹری سے وابستہ افراد یا سرکار نے اس کام سے وابستہ افراد کی تعلیم و تربیت پر کبھی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی 2013ءمیں ”میں تو اسٹیٹ ایجنٹ ہو گیا،، کا دوسرا ایڈیشن چھپوانے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں ساجد فضلی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ” بجائے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جائے اس کو مزید اضافے کے ساتھ کوئی ایسی کتاب بنائی جائے جو ادبی سے زیادہ تدریسی کتاب کے طور پر استعمال ہو کیونکہ آج نہیں توکل اس کام نے آخر کار اتنی ترقی کرنی ہے۔ یہ مضمون پاکستان کے بزنس اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا جانا ہے ۔۔تو اس موقع پر یہ ریفرنس بُک( حوالہ جاتی کتاب) کے طور پر کام آئے گی“ یہ الگ بات ہے کہ اس میں کتنی دیر لگتی ہے۔۔ چونکہ ہماری قوم جیسی تیسری دنیا کی ترقی پذیر قومیں ایسے کام جنہیں میرے جیسے خوش گمان (بے وقوف) سمجھتے ہیں کہ یہ آج کرنے والے کام ہیں ان کاموں کو دہائیوں اور صدیوں بعد کرتی ہیں۔۔ ہم توٹھہرے خوش گماں لیکن طرز کوہن پر اڑنے کے ان اجتماعی معاشرتی رویوں سے دل برداشتہ ہو کر معاشروں کے لئے اُمید سحر کے خواب دیکھنے اور ان کی تعمیر کے لئے زندگیاں وقف کرنے والوں میں سے ایک احمد ندیم قاسمی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اُڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

اس طرح یہ سوچ کر کہ جب دہائیوں یا صدیوں بعد ایسے کوئی زمانے آئیں تو میری مٹی اُڑنے کی بجائے کہیں سے کتابی شکل میں یہ مواد نکل آئے اور ایسے عملی کام کرنے والوں کے لئے مدد گار ثابت ہو خیر اب تو ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی کاوشیں آنے والے زمانوں کے لئے محفوظ بھی ہو جاتی ہیں۔

اس طرح2013ءمیں پاکستان میں ”رئیل اسٹیٹ کا کاروبار“ کے نام سے دوسری کتاب شائع ہوئی۔ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری سے وابستہ افرادنے اسے بھی اپنے لئے مفید قرار دیا۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ ہماری ایسوسی ایشن (ڈیفکلیریا) کی ایک انتخابی دعوت میں فیصل حنیف اور زاہد اقبال کی تحریک پر دوستوں نے آدھے گھنٹے میں ڈھائی ہزار کتب کا آرڈر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان دوستوں میں سے صرف شہزاد منیر نے ہی ہزار کتب خرید کر اس مارکیٹ میں نئے آنے والوں کو تحفتاً دی۔

باقی 15سو کتابوں کے خریداروں کی دلچسپی صرف جلسے میں اعلان تک تھی اس دوران ہماری ایسوسی ایشن بھی مختلف مراحل سے گزرتی رہی 2015-16ءکی منیجنگ کمیٹی کے ذمہ داروں نے مجھے کہا کہ آپ ایسوسی ایشن میں باقاعدہ رئیل اسٹیٹ پر کورس کروائیں ۔ اس طرح2015ءدسمبر میں نے بیسک آف رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ اینڈ مارکیٹنگ کے نام سے تقریباً48گھنٹوں کا کورس ڈیزائن کیا۔ جس کا مرکزی خیال میری پہلی دونوں کتابوں سے لیا گیا تھایہ کورس میرے اس کام میں 30سالہ تجربے اور مشاہدے پر مبنی تھا۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن اور MREERI (میرے مرحوم والد کے نام پر قائم ”معراج رئیل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ“ جو کہ ابھی تک صرف ورچول رئیل اسٹیٹ اسکول ہے) ڈیفکلریا کے اشتراک سے پانچ کورس کروائے۔میری اس کاوش کو شرکاءنے خاصا پسند کیا اور کئی کورسز میں انڈسٹری کے پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگوں نے بھی شرکت کی اور کئی نئے طالب علم تو تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصے پڑھے لکھے بھی تھے۔ مثلاً ایم اے ، ایم بی اے انجینئر، ایم فل، چارٹرڈ اکاونٹنٹ اور اس طرح کے دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ گوکہ 2015ءسے 2020ءتک ہم صرف 5کورس ہی کروا سکے۔ اس کورس کی پزیرائی اور شرکاءکا اس کورس کو اپنے لئے مفید قرار دینے سے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس پورے کورس کو کتابی شکل دی جائے چونکہ جہاں پچھلے 30 سال میں اس کاروبار نے پاکستانی معیشت اور معاشرے پر نہایت ہی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں لیکن اس کے باوجود پورے ملک میں اسٹیٹ ایجنٹوں کی انجمنوں اور نہ ہی کسی ضلعی، صوبائی یا وفاقی حکومت نے اس شعبے میں آنے والے لوگوں کی تعلیم ، پیشہ ورانہ تربیت پر غور کیا ہے، ایک دو دوستوں نے رئیل اسٹیٹ کے اسکول قائم کئے لیکن یہ اسکول پورے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے معروضی حالات کے مطابق پوری انڈسٹری کی ضروریات کے لئے ناکافی ثابت ہوئے۔

جس کی اس شعبے سے وابستہ افراد کو ضرورت ہے۔ گوکہ 1947ءسے اب تک پاکستان میں یہ پیشہ کئی ارتقائی منازل طے کرتا ہوا زمانے کے تقاضوں کے مطابق ڈھلتا گیا۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، دیہی آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی، بدلتے طرزرہائش حکومتی و ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی بے حسی، نالائقیوں، دنیا کی عالمگیریت (گلوبلائزیشن(Globalization کے طرز رہائش پر اثرات اوردیگر کئی انتہائی تلخ حقیقتوں کی بدولت اس انڈسٹری میں سرمائے کا حجم بھی بے تحاشہ بڑھ گیا ہے بلکہ یہ کہنا کسی حد تک درست ہو سکتا ہے۔کہ زمین جائیداد کے کاروبار نے پاکستانی معیشت میں سے سرمائے کے بہت بڑے حصے کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ اور یہ حصہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔۔اس طرح یہ بہت زیادہ آمدنی والا پیشہ بن کر معاشرے پرکہیں بُرے اور کہیں بھلے اثرات مرتب کرنے والا پیشہ بن گیا ہے۔ جبکہ ایک زمانے میں اس پیشے سے منسلک لوگوں کو معاشرے میں وہ مقام نہیں حاصل تھا ۔۔جو دوسرے پیشوں سے وابستہ لوگوں کے حصہ میں آتا تھا لیکن آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان میں بھی اس پیشے سے منسلک افراد کو معاشی خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔

غرض کہ ہر لحاظ سے یہ پیشہ ترقی کر رہا ہے۔۔ لیکن ان سب حقیقتوں کے باوجودسب سے بڑاالزام جو اس پیشے سے منسلک افراد کے حصے میں آتا ہے۔۔ وہ یہ ہے جس مقدار میں اس پیشے سے منسلک افراد کومعاوضہ ملتا ہے۔ ان کی تعلیم اور خاص کر پیشہ ورانہ قابلیت اس تناسب سے کم ہوتی ہے۔۔۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔۔کیونکہ اس پیشے سے منسلک افراد عموماً بہت لمبی اپرنٹس شپ اور پھر آن جاب ٹریننگ کرتے ہیں۔ جو اکثر سالوں سے بڑھ کر دہائیوں پر محیط ہوتی ہے۔۔ لیکن یہ بات وہ لوگ ہی جانتے ہیں ۔۔جو اس کام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔۔ یا جن کا اس کام سے وابستہ افراد سے کاروباری تعلق ہوتاہے۔ جبکہ عام معاشرے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے۔۔ کہ یہ لوگ پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہوتے ہیں۔ جس سے ان کے لئے حسد کا جذبہ مزید بڑھتا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، کہ سماجی ناانصافی پر مبنی معاشروں میں حسد کی بیماری زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح جیسے جیسے اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کی مالی حیثیت میں اضافہ ہوا ہے۔اس طرح اس پیشے سے منسلک افراد کےلئے غیر پیشہ ورانہ رویوں کے الزام کی آڑ میں معاشرے کو حسد اور نفرت کا ایک اور جواز مل جاتا ہے، اس لئے سنجیدہ اسٹیٹ ایجنٹ آج بھی اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود معاشرہ ہمیں اُس طرح عزت نہیں دے رہا جس کے ہم حقدار ہیں حالانکہ ہم میں سے ہی کئی افراد بڑی حد تک اس رویے کے ذمہ دار بھی ہیں اور پورے ملک میں اس پیشے سے وابستہ انجمنوں کے عہدے دار تو اس کے بہت ہی ذمہ دار ہیں۔کیونکہ اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کی انجمنوں کی موجودگی کے باوجود ہم آج تک ایک انسٹیٹیوٹ نہیں بنا سکے جہاں سے نئے آنے والے اسٹیٹ ایجنٹوں کو بنیادی پیشہ ورانہ تعلیم دے کر اس پیشے میں انھیں خوش آمدید کہا جائے اور طویل المیعاد منصوبہ بندی سے پیشے کے اس تاثر کو دور کیا جائے۔ دنیا میں پیشہ ور لوگوں کی انجمنوں کے ایسے قائم کردہ اسکولوں کی بے شمار شاندار مثالیں موجود ہیں۔ بس اس کورس کو کتابی شکل دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔کہ منظم طور پر تعلیم و تربیت کو ملک کے کونے کونے میں پھیلے اسٹیٹ ایجنٹوں کے لئے عام کیا جائے۔

اس کورس کو کتابی شکل دینے کی خواہش کو مہمیزکرنے میں ڈیفکلریا کی2019/2020 والی منیجنگ کمیٹی کے ذمہ داروں صدر نور ابریجو اورجنرل سیکریٹری فیصل حنیف نے بھی کردار ادا کیا۔ جنہوں نے نہایت دلچسپی سے (مریری)MREERI ”معراج رئیل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ“سے باقاعدہ ایم او یو مفاہمت کی یاداشت (ایم او یو(MOUپر دستخط کئے لیکن بعد میں ان دونوںاور ان کی ٹیم کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایم او یو صرف فائلوں میں ہی رہ گیا ۔ اس کورس کو باقاعدہ کتابی شکل دینے کے لئے ایک اور حیران کن واقع نے بہت کلیدی کردار ادا کیا ایک انتہائی فعال اور کامیاب اسٹیٹ ایجنٹ امتیاز صدیقی (موجودہ جنرل سیکریٹری ڈیفکلیریا)جس نے یہ کورس ڈیفکلریا کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اسے ان کے پڑوسی ڈاکٹر منہاج قدوائی نے کہا کہ” پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ“ رئیل اسٹیٹ میں ”ڈپلومہ ان رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ“ کے اجراءکا سوچ رہا ہے لیکن کوئی مناسب فیکیلٹی نہیں مل رہی۔ امتیاز صدیقی جو کہ اپنی مثبت سوچ کی بدولت نئے آنے والوں اور اس پیشہ سے وابستہ افراد کے لئے اس کورس کو انتہائی اہم سمجھتا ہے اس نے میری جھوٹی سچی تعریفیں کیں کہ ”ہمارے استاد کے پاس پورا کورس تیار ہے“ وہ پچھلے کئی سالوں سے مفت پڑھا بھی رہے ہیں۔

پی آئی ایم والوں نے کہا ”ایسے بندے سے جلد میٹنگ کروا دیں“ لیکن میری علالت کی بدولت یہ میٹنگ لیٹ ہو گئی خیرپھر ڈاکٹر منہاج نے میری اور امتیاز صدیقی کیPIMکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد صابری سے میٹنگ کروائی انتہائی مثبت سوچ اور معاملہ فہم طبیعت کے اس بیوروکریٹ نے ایک آدھ دن میں تفصیلات طے کیں اور 26فروری2021ءکو میں نے جناب عابد صابری کے ساتھ ایم او یو (MOU)نہیں بلکہ معاہدے پر دستخط کئے یوں مریری اور PIM کے درمیان13مارچ 2021ءسے تین ماہ کا ڈپلومہ پروگرام شروع ہوا۔ اس سلسلے کا پہلا کورس جون2021ءمیں مکمل ہوا اور دوسرا کورس ستمبر2021ءمیں مکمل ہو رہا ہے کراچی میں اس کورس کی شاندار پزیرائی سے متاثر ہو کرPIM اس پروگرام کو لاہور اور اسلام آباد میں بھی شروع کرنے کا سوچ رہا ہے۔بلکہ یہ کتاب پریس میں جانے سے ایک دن پہلے 12ستمبر2021ءکے ڈان میں اس کے لئے اشتہار بھی دے دیا گیا ہے۔ اس طرح ساری مشقت جس کا پہلا نتیجہ 19اپریل 1998میں سامنے آیا جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انڈسٹری میں ٹریننگ ورکشاپ ،سیمینارز، نالج شیئرنگ سیشنز کا آغاز ہوا۔ دوسرا مرحلہ مریری اور پم کے اشتراک سے ڈپلومہ ان رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ کا اجراء ، تیسرا اس سفر کا اہم سنگِ میل اب جب 4 اکتوبر 2021میں لاہور میں،11 اکتوبر سے کراچی اور 18اکتوبر سے اسلام آباد میں”ڈویلپنگ رئیل اسٹیٹ ٹاپ مینجمنٹ فار دا نیو امرجنگ مارکیٹ ان دا کنٹری“ کا تین روزہ ٹریننگ سرٹیفکشن کا اہتمام ہوا اس سرٹیفکیشن کی بنیاد بھی یہ ہی کورس ہوگا۔اُمید ہے یہ کورس شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس سرٹیفکشن کے لئے میں پم کی انتظامیہ کو اس لئے تیار کیا تاکہ انڈسٹری میں تجربہ کار،پڑھے لکھے عملی طور تربیت یافتہ ساتھیوں کو باقاعدہ منظم طور پر تحقیق کی بنیاد پر تیار کردہ تربیتی نصاب سے روشناس کروا کر ان کے تجربے اور عملی تربیت کو وفاقی حکومت کی سرٹیفکشن دلوائی جائے اور پھراس کی بنیاد پر ان کے لئے بین الاقوامی سطح کے تعلیمی اداروں اور دیگر متعلقہ فورم سے سرٹیفکیشن حاصل کی جائے۔

اس طرح میرے ربّ کی یہ خاص رحمت ہے کہ مجھ پر وہ زمانے دو دہائیوں بعد ہی آ گئے اور میرے سامنے بلکہ میرے ذریعے ہی وہ خواب پورے ہوئے جن خوابوں کی تعمیر کے لئے لوگ توقع رکھتے ہیں ۔۔۔کہ یہ صدیوں بعد پورے ہوں گے۔جس کے لئے میں اپنے ربّ کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔اس سے میری اس خواہش میں شدت آ گئی کہ اس کورس کو کتابی شکل میں ہونا چاہیے۔
اس معاہدے پر دستخط سے بنیادی طور پر میرے اس مفروضے (Hypothesis) کا دفاع مکمل ہو گیا یہ مفروضہ(Hypothesis) کچھ یوں ہے۔ ”پاکستانی معاشرے میں اسٹیٹ ایجنٹ کے بارے میں معاشرے کا خراب تاثر اس وقت تک دور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کام میں رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی مدد سے پاکستان رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے معروضی حالات کے مطابق تجربے ، مشاہدے، تحقیق و تعلیم کی بنیاد پر منظم انداز میں تیار کردہ نصاب کی بنیاد پر عملی و نظری تعلیم و تربیت کا نظام ترتیب دے کر اس کی بنیاد پر وفاقی، صوبائی و ضلعی حکومتیں اسٹیٹ ایجنسی کھولنے کے لئے کسی رجسٹریشن/لائسنس کا بندوبست نہیں کرتی۔ اس کے لئے پہل اسٹیٹ ایجنٹ کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کرنی پڑے گی“۔

یوں میں نے اور سرفراز ثاقب (میری کتابوں کے کمپوزر اورڈیزائنر) نے مشقت شروع کر دی کہ ایک تو یہ کورس کتابی شکل اختیار کرے اور ساتھ ہی میں اس چکر میں بھی پڑ گیا پہلی دو کتب ”میں تو اسٹیٹ ایجنٹ ہو گیا اور پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار“ جن میں پاکستان کے معروضی حالات میں عملی رئیل اسٹیٹ کے روزمرہ کے واقعات اور موجودہ حالات میں اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کے اپنائے ہوئے رویوں اور طور طریقوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تیسری یہ کتاب جس میں” رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ نظری وعملی “میں شامل اس کورس کے ذریعے یہ کوشش کی گئی ہے کہ باقاعدہ منظم تحقیق و تعلیم سے تربیت کا ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں اسٹیٹ ایجنٹ حضرات اورخصوصاً اس پیشے سے منسلک کم تجربے کاراور نئے آنے والے اسٹیٹ ایجنٹ کواگر اس کتاب میں درج18 باب منظم انداز میں پڑھائے جائیں تو ان کی سالوں کی اپرنٹس شپ کا دورانیہ بہت کم ہو سکتا ہے اور وہ اپنی آنے والی پیشہ ورانہ زندگی کو منظم انداز میں گزار سکتے ہیں اور تجربہ کار افراد کی سوچ میں تحقیق و ترقی کے نئے در کھولے جا سکیں اور چوتھی کتاب ”اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسز“ جس میں اس شعبے کے ملکی معیشت و سلامتی پراثرات اور حکومتی و ریاستی اداروں اور شخصیات کی اس شعبے سے عدم دلچسپی کی بنا پر کیسے معیشت کے اہم شعبہ کو بالکل ایک یتیم و لاوارث بچہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔

لہٰذا میں نے پرانی دونوں کتب اورنئی دونوں کتب کو یکجا کرکے ان چاروں کتب کے مجموعے کو بھی ”پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار“( مجعوعہ کتب) ایک کتاب شائع کرنے کا ارادہ کیا تاکہ پہلی دو کتب عملی رئیل اسٹیٹ کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی تیسری یہ کتاب اس میں نئے آنے والوں کو راہنمائی مہیا کرے۔ مروجہ رائج طریقوں اور معروضی حالات کی بنیاد پر جدید کاروباری تعلیم و تربیت کابھی بندو بست ہو اورچوتھی کتاب کے مواد سے ایک اسٹیٹ ایجنٹ کو یہ اندازہ ہو کہ وہ اپنی دہائیوں کی تربیت کوشفافیت سے استعمال کرکے حکومتی و ریاستی اداروں کا کیسے مدد گار ہو سکتا ہے اور ملکی معیشت کے ذریعے کس طرح ملکی سلامتی جیسے اہم فریضے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے اور ساتھ ہی حکومتی و ریاستی اہلکاروں تک بھی یہ بات پہنچائی جا سکے کہ کس طرح ان کی ذرا سی توجہ سے یہ شعبہ ملک و قوم کے لئے کتنا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اس کتاب کو لکھنے کے تین مقاصد ہیں اول میرا شوق پورا ہو۔ دوم اس کام کو تعلیم وتربیت سے منظم انداز میں کرنے کے خواہش مند حضرات کی راہنمائی ہو اور عام لوگوں اور اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کو اس اہم شعبے کے مثبت پہلووں سے بھی آگاہی ہو۔ کیونکہ معیشت کے اس اہم شعبے کے بارے میں منفی پہلو تو ہر خاص و عام پر بہت زیادہ اُجاگر ہیں۔ لوگوں کو اس پیشے کو ملک و معاشرے کے لئے افادیت کا بھی علم ہو اور سوئم یہ کتاب خوب بکے بھی (گو کہ پہلی خواہش تو یقینا پوری ہو گی) اُمید ہے اس بار دوسری دو خواہشات بھی پوری ہوں گی اور میرے شوق کے ساتھ ساتھ اس پیشے سے وابستہ اور نئے آنے والے افراد کو فائدہ بھی ہو گا حکومتی و ریاستی اداروں کی نظر کرم بھی اس اہم شعبے کی طرف ہو گی۔ کیونکہ اس کی ابتدا مریری(MREERI)اور پم (PIM) کے اشتراک سے ہو چکی ہے یہ ابتدا پورے ملک میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ تیسرا مقصد دراصل اس کتاب کو مکمل کرنے کا میرا پہلا مقصد ہے جسے میں اپنی روایتی معاشرتی منافقت کی بنا پر تیسرا نمبر دے رہا ہوں اوروہ یہ ہے کہ یہ کتاب خوب بکے۔

یہ خیال ایسے آیا کہ پچھلے دنوں میں نے کسی یورپین دانشور کا ایک جملہ پڑھا کہ” اس شخص سے بڑا کوئی بےوقوف نہیں جو پیسہ کمانے کے علاوہ کسی اورمقصد سے کتاب لکھتا ہے“ یہ بات یورپ امریکہ کے حساب سے تو ٹھیک ہے ہمارے معاشرے میں لوگ صرف ایک ہی کتاب پڑھنا اور لکھنا چاہتے ہیں ۔۔جسے چیک بُک کہا جاتا ہے ۔۔وہاں مجھ سا بے وقوف کون ہو گاجو اس معاشرے میں وافر رزق حلال دینے والے پیشے میں سے وقت نکال کر یہ شوق پورا کرتا ہے۔۔ اور میں توبے وقوفی کی اس انتہا پر ہوں کہ رئیل اسٹیٹ میں سے وقت نکال کر بے وقوفی کا یہ عمل اس سے پہلے کوئی سترہ(17) بار دُہرا چکا ہوں۔ اس لئے اک گناہ اور سہی لیکن اس دفعہ میرے لاشعور میں کہیں یہ خواہش چھپی ہوئی ہے کہ اس کتاب کو ملک گیر پزیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب بِکے(Sale) بھی خوب۔ جس سے میرا یہ عمل بے وقوفی سے عقلمندی میں تبدیل ہو جائے۔کیونکہ جب عالمگیریت (گلوبلائزیشن (Globalization کی بدولت باقی تقریباً تمام بری بھلی چیزیں ہمارے ثقافت(کلچر(Culture کا حصہ بنتی جا رہی ہیں تو پھر یورپ امریکہ میں جو ایسی کتابوں کا کروڑوں لاکھوں میں بکنے کا کلچر ہے وہ یہاں کی ثقافت کا حصہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ مجھے پوری اُمید بھی ہے اور میری یہ خواہش بھی ہے اور یہ کتاب لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ کتاب کم وقت میں لاکھوں میں اگر نہیں بھی تو ہزاروں میں بکنے کا ریکارڈ ضرور قائم کرے اور یہ خواہش اس بنیاد پر ہے کہ اس کام سے لاکھوں لوگ بلواسطہ اور لاکھوں ہی اس شعبے سے بلاواسطہ منسلک ہیں۔ لہٰذا ان لاکھوں میں سے چند ہزار اس پیشے سے وابستہ افرادخصوصاً نئے آنے والے،کم تجربہ کار، چند سو روپوں اور ایک دو دن کے وقت کی سرمایہ کاری اس کتاب پر ضرور کریں گے۔ کیونکہ جب تک اس کام سے متعلق منظم تعلیمی کوششیں عام نہیں ہوتیں اور باقاعدہ ماہرین تعلیم اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ تب تک اس سے بہترنظری و عملی بنیاد پر اس شعبے کے لئے کوئی کورس/ مواد دستیاب نہیں ہے۔اسی طرح تجربہ کار حضرات اس کتاب کے ذریعے اپنے دفاتر کے جونیئر ساتھیوں کی پیشہ ورانہ تربیت(پروفیشنل گرومنگ (Professional Grooming کے لئے یہ انتہائی سادہ اور سستا طریقہ اپنا کر بڑے مالی فوائد حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ کسی بھی ادارے کا تربیت یافتہ سیلز مین اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔

لہٰذاپورے ملک میں اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کی انجمنوں کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا بغور مطالعہ کریں اور اگر وہ سمجھیں کہ ان بنیادی باتوں کے جاننے سے نئے آنے والے اسٹیٹ ایجنٹ کی آپرینٹس شپ کے دورانیے کو کم کرکے ان میں پیشہ ورانہ رویوں کے شعور کو بھی اُجاگر کیا جا سکتا ہے تو ضرور اس امر کو یقینی بنائیں کہ اس شعبے میں نئے آنے والے حضرات تک یہ کتاب ضرور پہنچے اور پھراس کے مطابق اُن کی پیشہ ورانہ تربیت کا بھی بندوبست کریں میرے لئے یہ بات باعث مسرت ہو گی کہ میری اس کوشش سے اس پیشے میں نئے آنے والے لوگوں کے اپرنٹس شپ کے دورانیے میں کچھ کمی ہو جائے اور اس سے پہلے کہ دوسرے کاریگر حضرات اس کورس کا چربہ کرکے اس میں مارکیٹنگ اور مینجمنٹ کا تڑکہ لگا کر اس سے خوب پیسہ اور نیک نامی کمائیں۔ آئیں اس دہائیوں کی عرق ریزی سے تیار کردہ کورس سے ہم خود اپنی برادری کو فائدہ پہنچائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply