ممنوعہ فنڈنگ کیس : 15 قانونی سوالات۔۔آصف محمود

الیکشن کمیشن کا فیصلہ آ چکا۔ اس فیصلے کو دیکھنے کے دو مروجہ طریقے ہیں۔پہلا یہ کہ آپ اسے تحریک انصاف کے مداح کے طور پر دیکھیں اور آپ کو یہ صرف ظلم نظر آئے ۔ دوسرا یہ کہ آپ اسے تحریک انصاف کے ناقد کے طور پر دیکھیں اور آپ کو یہ فیصلہ عین انصاف محسوس ہو۔ لیکن اس فیصلے کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے صرف اور صرف ایک پاکستانی کے طور پر دیکھا جائے اور کسی ایک گروہ سے عقیدت اور نفرت کی بجائے قانون کے تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ صف بندی تو ہو چکی ہے اور لوگ اپنی اپنی صف میں داد شجاعت دے رہے ہیں۔ اب تو عادت سی ہو گئی ہے اور پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کس کا قلم کس فریق کی کوزہ گری میں داد شجاعت دکھائے گا۔ اس لیے اب ملک میں کوئی سیاسی اور قانونی مسئلہ درپیش ہو تو نجات اسی میں ہے کہ اس فکری اودھم سے رہنمائی کی بجائے پناہ مانگی جائے۔جو اپنی اپنی صف میں کھڑے ہیں انہیں یہ چاند ماری مبارک ہو، یہ کالم ان کے لیے نہیں ہے، انہیں مایوسی ہو گی۔ لیکن جو اس نفرت اور عقیدت کے آزار سے بالاتر ہو کر معاملے کو دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ جستجو کے اس سفر میں شریک ہو سکتے ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی کوئی ایک اصول پکڑ کر کسی ایک کی کمر لال کر دی جاتی ہے اور کبھی کوئی دوسرا اصول پکڑ کر کسی دوسرے کی کمر ہری کر دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سب کے ساتھ ایک جیسے اصول پر ایک جیسا سلوک کب ہو گا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی شخص پر تعزیر جب نافذ ہوتی ہے تو کیا اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس نے جرم کیا ہوتا ہے یا جسے کسی گستاخی پر پکڑ کر سزا سنانا مقصود ہوتی ہے اس کا جرم بھی بوقت ضرورت نکال لیا جاتا ہے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت تو ایک اصول کی بنیاد پر گرفت میں آ گئی۔ بہت اچھا ہوا۔ لیکن کیا قاضی حسین احمد مرحوم اپنے کالم میں یہ انکشاف نہیں کر چکے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کے موقع پر نواز شریف صاحب کو اسامہ بن لادن نے پیسے دیے؟

سوال یہ ہے کہ اسی اصول کی بنیاد پر نواز شریف اور آئی جے آئی میں شامل جماعتوں کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو سکی؟

اسلامی جمہوری اتحاد کے حوالے سے ایئر مارشل اصغر خان صاحب کی پٹیشن اب محتاج تعارف نہیں۔اس پر فیصلہ بھی آ چکا کہ کس طرح نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کو نوازنے کے لیے پورے ایک بنک کا آملیٹ بنا دیا گیا۔

چوتھا سوال گویا یہ ہے کہ اس پر کارروائی کیوں نہ ہو سکی؟کیا یہ جائز فنڈنگ تھی یا ناجائز؟

پانچویں سوال کا تعلق قانون کے نفاذ میں ترجیح سے ہے۔ انصاف کے اطلاق کا ہمارے ہاں آخر اصول کیا ہے؟عمران نے ناجائز فنڈنگ پہلے لی تھی یا آئی جے آئی اور نواز شریف نے؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ جس نے پہلے ناجائز فنڈنگ لی تھی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں اور جس نے بعد میں لے تھی اس کے خلاف کارروائی مکمل ہو گئی؟

چھٹا سوال یہ ہے کہ ایک ہی کھیل کے دو یا تین فریق ہوں تو کیا ان میں سے کسی ایک پر قانون کا اطلاق انصاف کہلائے گا یا سب فریقین پر کم از کم ایک قانون کا اطلاق ایک وقت میں ہونا چاہیے ؟

ساتواں سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آٹھ ماہ میں آ گیا تھا ، عمران کے خلاف فیصلے میں آٹھ سال کیوں لگ گئے؟ قانون کے نفاذ میں یہ عجلت اور یہ تاخیر بہر حال ایک بہت بڑا سوال ہے۔ کیا قانون میں ا س سلسلے میں کوئی رہنمائی فرمائی کی گئی ہے یا یہ اب حسن اتفاق ہے کہ قانون کسے کتنی مہلت دیتا ہے اور کسے کب دبوچ لیتا ہے؟

آٹھواں سوال یہ ہے کہ نواز شریف کے معاملے میں نگران جج کا تعین ہوا تھا تو کیا عمران کے معاملے میں بھی معاملات کو غیر ضروری التوا سے بچانے کے لیے ایسا ہی کوئی اہتمام نہیں ہو سکتا تھا؟

نواں سوال یہ ہے کہ اہم اور بڑے مقدمات میں التواء اور تاخیر سے بچنے کے لیے نگران جج کی تعیناتی کو ایک مستقل اہتمام میں بدلا جا سکتا ہے یا نہیں؟

دسواں سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں جو تاخیر کی یہ اتفاق تھا یا حسن اتفاق؟ یعنی اب عمران خان کو الیکشن کمیشن کے خلاف جوابی بیانیے مرتب کرنے کے لیے اور اپنی مظلومیت کا تاثر مستحکم کرنے کے لیے جو وقت ملا یہ اتفاق تھا یا اہتمام تھا؟یعنی یہ وقت عمران کو مل گیا یا فراہم کیا گیا؟

گیارہواںسوال یہ ہے کہ پاکستان میں جو مالیاتی بندوبست کا قانون موجود ہے ، اس قانون کو اگر پوری معنویت کے ساتھ نافذ کر دیا جائے تو کیا کوئی ایک شخص ، ایک گروہ یا ایک جماعت بھی خود کو اس کی زد میں آنے سے بچا پائے گی؟یا سب ہی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے؟

بارہواں سوال یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی کی فنڈنگ تو جیسی بھی ہے سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی جماعتوں کی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟ کیا اس معاملے سے نظر پھیر لی جائے گی یا بڑے بڑے حضرتوں اور اعلیٰ  حضرتوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ بھیا تمہاری جماعتوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ تمہارے جلسے ، تمہارے مارچ اور تمہارے لانگ مارچ کے اخراجات کیا کوہ قاف کے جنات ادا کرتے ہیں؟تم جو اتنا عرصہ دھرنے دیتے ہو تو کیا تمہارے پائیں باغ میں قارون کا خزانہ دفن ہے؟

تیرہواں سوال یہ ہے کہ کیا اگلے الیکشن سے پہلے پہلے باقی جماعتوں کو بھی اسی اصول پر پرکھا جائے گا جس اصول پر تحریک انصاف کو پرکھا گیا ہے؟اور کیا باقی قائدین کو بھی اسی چھلنی سے گزارا جائے گا جس سے نواز شریف کو گزار کر نا اہل کیا گیا؟ یا یہ سہولت صرف مناسب وقت پر صرف مطلوب شخصیات کے لیے دستیاب ہوتی ہے؟

چودہواں سوال قانونی نہیں سیاسی ہے مگر بہت اہم ہے۔ قانون کا گرز ایک کی کمر پر پڑتا ہے تو دوسرا تالیاں بجاتا ہے۔ یہ دوسرے کی کمر پر گرتا ہے تو پہلا تالیاں پیٹنے لگ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہماری جملہ سیاسی قیادت اور فکری اشرافیہ ہر چیلنج کو صرف اپنے اپنے مفادات کی روشنی میں دیکھتی رہے گی اور باری باری جشن مناتی اور باری باری گھائل ہوتی رہے گی یا کبھی کسی اصول اور قاعدے کی بنیاد پر بھی معاملہ کرنے کا مطالبہ کرے گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

پندرہواں سوال قانون کی نازک مزاجی کا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ یہ کبھی اونٹ نگل جاتا ہے اور کبھی مچھر چھاننے لگتا ہے۔ یہ چھاننے اور نگلنے کا پیمانہ ایک جیسا کیوں نہیں بناتا اور اس کا اطلاق سب پر کیوں نہیں کرتا؟چھاننا ہے تو سب کو چھان لے، نگلنا ہے تو سب کو نگل لے۔اتفاق اور حسن اتفاق کی تقسیم کیوں؟ افتخار عارف بھی کہاں یاد آئے: جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply