• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فارن فنڈنگ کیس- تفصیلی فیصلے کے چیدہ نکات/معاذ بن محمود

فارن فنڈنگ کیس- تفصیلی فیصلے کے چیدہ نکات/معاذ بن محمود

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد نوٹ کردہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔

۱۔ اکبر ایس بابر کی جانب سے شماریات پر مبنی شواہد فراہم کیے گئے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی مخالفت کی گئی، سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار پر اعتراضات کیے گئے، اور کہا گیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت فارن فنڈنگ کی مرتکب ہوئی یا نہیں اس پر کاروائی وفاقی حکومت کرنے کی اہل ہے۔

۲۔ وونٹون کرکٹ لمیٹڈ کے دبئی اکاؤنٹ سے اکیس لاکھ اکیس ہزار پانچ سو ڈالر تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل چھ شق تین کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستانی فرد کے سوا کسی پرائیویٹ کمپنی سے فنڈ وصول نہیں کر سکتی۔ وونٹون کرکٹ کلب پرائیویٹ کمپنی ہے، پاکستان سے باہر رجسٹرڈ ہے، لہذا یہ ٹرانزیکشن آئین پاکستان کے تحت غیر قانونی ہے۔

۳۔ وونٹون کرکٹ کلب کے دبئی اکاؤنٹ سے تحریک انصاف کو منتقل ہونے والے سوا اکیس لاکھ ڈالر مساوی پچاس کروڑ روپیہ سکہ رائج الوقت حالیہ ہیں۔ یہ رقم ناصرف پاکستانی قانون کے مطابق ممنوع ہے بلکہ اماراتی قوانین کے تحت بھی رقم کی یہ ترسیل غیر قانونی ہے کیونکہ اماراتی قوانین رجسٹرڈ خیراتی یا نان پرافٹ آرگنائزیشن کے سوا کسی ادارے یا فرد کو چندہ جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔

۴۔ آپ سب کو پانامہ سکینڈل یاد تو ہوگا تاہم غالب امکان ہے یہ یاد دہانی صرف نواز شریف کو لے کر ہو۔ اہم ترین بات پانامہ کیس میں “آفشور کمپنیز” تھیں جن کو لے کر پاکستان میں خان موافق و نواز مخالف حلقوں کی آنکھوں کے گرد شدید حلقے پڑے تھے۔ میں بس آپ کو یہ بتلانا چاہوں گا کہ پانامہ سکینڈل سے بس چند ہی برس قبل خان صاحب کی جماعت کو انہی آفشور اکاؤنٹس میں سے ایک اکاؤنٹ سوا اکیس لاکھ ڈالر کی ترسیل کرنے میں مصروف تھا۔ عارف نقوی کی وونٹون کرکٹ لمیٹڈ کیمین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک آفشور کمپنی ہے۔ آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق تب تحریک انصاف نے اسی آفشور کمپنی سے پچاس کروڑ روپے حاصل کیے۔

۵۔ وونٹون کرکٹ لمیٹڈ دراصل عارف نقوی کے بین الاقوامی شہرتِ بد کے حامل پراجیکٹ ابراج گروپ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ وہی ابراج گروپ ہے جس نے گیٹس اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن کو چونا لگایا اور جس کی دو نمبریوں کے باعث عارف نقوی امریکہ کو مطلوب ہیں۔

۶۔ برسٹل انجینئرنگ سروسز ایف زی ایل ایل سی کی جانب سے خان صاحب کو کمپنی نے قریب پچاس ہزار ڈالر کا ہدیہ ارسال کیا۔ تحریک انصاف کے لیے ویسے تو یہ چھوٹی سی رقم ہے، یہی کوئی کروڑ ایک روپے سکہ رائج الوقت۔ ہاں اس وقت یعنی ۲۰۱۳ میں یقیناً اس کی کافی اہمیت ہوگی۔ یہ رقم بھی اماراتی اور پاکستانی دونوں ہی ممالک کے قوانین کے خلاف بھیجی گئی۔

۷۔ ای پلینٹ نامی ایک اور کمپنی سے لاکھ ڈالر جو قریب دو کروڑ روپے سکہ رائج الوقت حالیہ بنتے ہیں، ایک اور کیمین آئی لینڈ کی آفشور کمپنی سے پاکستان تحریک انصاف کو بھیجے گئے۔

۸۔ پاکستان تحریک انصاف نے فقط دو ماہ یعنی اپریل اور مئی ۲۰۱۳ میں امریکہ سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر مساوی آج کے قریب ۱۳ کروڑ روپے امریکہ میں رجسٹرڈ کمپنیز سے پاکستان تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کیے۔ میں اس رقم کو ذاتی حیثیت میں شک کا فائدہ دینا چاہتا ہوں،مگر کیا کریں کہ ایک بار پھر آرٹیکل چھ شق تین منہ چڑانے کو کھڑا ہوتا ہے جس کے تحت بیرون ملک پرائیویٹ کمپنی سے فنڈنگ لینا ممنوع ہے۔ اسے “فارن فنڈنگ” کیوں نہیں کہنا چاہیے ؟میں تحریک انصاف کی اس منطق پر بھی آؤں گا۔ تھوڑا اور صبر بس۔

۹۔ چونتیس 34 غیر پاکستانیوں کی جانب سے رقم کی ترسیل دستاویزات کے ساتھ ثابت ہے۔ میں ذاتی حیثیت میں ان چونتیس افراد کو معصوم اور آئی ٹی سے نابلد کاہل سمجھنے پر اکتفا کرنا بہتر سمجھوں گا۔ مثلاً میں اس دلیل یا مثال کو درست سمجھتا ہوں کہ ایک ویلڈر جو تحریک انصاف کو نجات دہندہ سمجھتا ہو ،اپنے بھارتی منیجر سے درخواست کرے کہ میرے اتنے پیسے اس اکاؤنٹ میں بھیج دو میرے پاس وقت نہیں ہوگا شفٹ سے فراغت پانے کے بعد۔ ہاں قانون کے مطابق بھارتی شہری کی جانب سے بھیجی گئی رقم بہرحال غیر قانونی ہی ہونی چاہیے کیونکہ کل کو یہی کیس سٹڈی لے کر کوئی را کا ایجنٹ بھی پیسے بھجوا سکتا ہے کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت کو۔

۱۰۔ سال ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۳ کے درمیان پاکستان تحریک انصاف نے برطانیہ سے سات لاکھ بانوے ہزار دو سو پینسٹھ پاؤنڈ پاکستان میں وصول کیے۔ یہ آج کے دور میں تقریباً چوبیس کروڑ روپے بنتے ہیں۔ رقم کی یہ ترسیل برطانوی قوانین کے مطابق قانونی ہے تاہم پاکستانی قانون کے مطابق یہ ناجائز ہے۔ مزید برآں یہ صرف وہ رقم ہے جو اکبر ایس بابر نے فراہم کی۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مکمل تفصیلات فراہم کرنے سے آج تک گریز ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان تحریک انصاف فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کو لے کر خوب تشہیر کر چکی ہے۔

۱۱۔ یہاں پر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بچگانہ قسم کے اصول پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ سنگاپور سے نصیر عزیز اور رومیٹا شیٹی کی جانب سے جوائنٹ اکاؤنٹ سے ستائیس ہزار پانچ سو ڈالر تحریک انصاف کو ارسال کیے گئے۔ جوائنٹ اکاؤنٹ اگرچہ مشترکہ اثاثے کے زمرے میں آتے ہیں اس کے باوجود ساڑھے ستائیس ہزار کا نصف قانونی اور نصف غیر قانونی کرنے کی عملیت مجھے بہرحال مضحکہ خیز ہی سمجھ آئی۔

۱۲۔ پاکستان تحریک انصاف نے ۱۳ بینک اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے یا انہیں اپنی فراہم کردہ فہرست میں شامل کرنے سے گریز کیا ہے۔ تاہم ان اکاؤنٹس سے قریب بیس کروڑ روپے ان اکاؤنٹس میں بھیجے گئے جو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قبول کیے جا چکے ہیں۔

۱۴۔ پاکستان تحریک انصاف نے تئیس کروڑ روپے سکہ رائج الوقت حاضر برطانیہ سے، بائیس کروڑ روپے آسٹریلیا و کینیڈا سے، سوا ارب امریکہ و دیگر ممالک کی کمپنیز سے حاصل کیے۔ کل ملا کر یہ رقم پونے دو ارب روپے آج سکہ رائج الوقت بنتی ہے۔

۱۵۔ ان تمام نکات کے بعد ان چند باتیں جو کرنا ضروری ہیں۔ پہلی بات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کاغذات نامزدگی کا فارم ایک جو درج ذیل ویب سائٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، کے مطابق نامزد امیدوار بیان حلفی کی ابتداء ان الفاظ سے کرتا ہے۔۔

I declare on oath

اس وقت میلبرن میں رات کے دو بجے ہیں۔ عموماً مجھے دوپہر دو بجے اٹھنا ہوتا ہے تاہم کل امریکہ کی ایک میٹنگ کے سبب مجھے صبح چھ بجے اٹھنا ہے۔ ایسے میں انتہائی عاجزی کے ساتھ انگریزی تا اردو ترجمہ کرنے سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ oath کا مطلب حلف اور declare کا مطلب اعلان یا بیان سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ میں کم از کم خود کو بیوقوف بنانے سے متفق نہیں۔ میں ذاتی حیثیت میں I declare on oath کا مطلب “بیان حلفی” کے سوا کچھ بھی لینے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ ایسا سمجھنے والا عمومی فرد سون ویلی کے کسی پرائمری سکول میں بچوں کو رٹا لگوانے ہی کا اہل ہے۔ نیت کا دار و مدار عمل پر ہے۔ لہذا قانون نیت کی بجائے عمل کو پرکھ کر اسی پر اصول وضع کیا کرتا ہے۔ نیت خدا جانتا ہے۔ قانون کے مطابق بیرون ممالک کے غیر پاکستانی اور غیر انفرادی سورسز سے فنڈنگ لینا بدنیتی ہی کی دلیل ہے۔ اسی دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف قانونی طور پر ایک ممنوعہ حرکت کی مرتکب ثابت ہوئی ہے۔ ممنوعہ حرکت کو عام الفاظ میں جرم ہی کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اسرائیل یا بھارت خود مودی کے اکاؤنٹ سے تو پیسہ منتقل کریں گے نہیں لہذا دور حاضر میں فارن فنڈنگ کا طریق یہی ہے۔

۱۶۔ فارن فنڈنگ یا بیرون ملک فنڈنگ سے مراد اگر کسی ریاستی بینک اکاؤنٹ ہی سے رقوم کی ترسیل ہے تو پھر بیرونی سازش کو بیرونی سازش سمجھنے والوں کے لیے امریکی حکومت کے لیٹر ہیڈ پر دھمکی آمیز خط ہی دلیل یا ثبوت کی حیثیت رکھنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک جانب آپ کسی فرضی خط کو بیرونی سازش کے زمرے میں ڈال دیں تو دوسری جانب آئین کی جانب سے ممنوعہ بیرون ملک کمپنی کی رقوم کو جائز قرار دیں۔ چارپائی نہیں دینی مت دیجیے کم از کم ترتیب تو درست رکھیے۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ اسرائیل یا بھارت کے نیشنل بینک سے تحریک انصاف کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہوتی تب مانتے؟ بھئی آپ کا دماغی توازن کمزور ہے دنیا کا تو نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ یا سی آئی اے یا را اپنے نام سے پیسہ کسی کو ٹرانسفر کرے گی یا “بے نامی” طریقہ اپنائے گی؟

۱۷۔ چند سکہ بند انصافی صحافیوں کی جانب سے دلیل کے نام پر یہ مضحکہ خیز بیان سننے کو ملا کہ کون سی فارن فنڈنگ ایسی ہے جو بینک کے ذریعے ہوئی ہو یا جو قانونی چینلز کے ذریعے بھیجی گئی ہو ،جوحکومتی ادارے ٹریک کر سکیں۔ بھاڑے کے ان ٹٹوؤں کے نزدیک رقم کی فراہمی یا تو کیش میں ہو یا کسی ایسے ذریعے سے جو ٹریک نہ ہو سکیں۔ میں ایسی رائے کو یا تو صریح بدنیتی سمجھتا ہوں یا پھر بوجہ کنویں کا مینڈک ہونا بیچارگی۔ پونے دو ارب روپے دنیا بھر سے کیش کی صورت میں پاکستان لائے جاتے پھر تقسیم کیے جاتے؟ ایسے فربہ دماغ دانشوران کے لیے عرض ہے کہ دنیا بدل چکی ہے۔ اب آپ نے جو دو نمبری کرنی ہے کیمین آئی لینڈ اور دبئی کے راستے ہی سے ہو سکتی ہے۔

۱۸۔ اس ضمن میں ایک اور طریق کار یہ اپنایا جا رہا ہے کہ رومیٹا شیٹی ٹائپ کی ٹرانزیکشن کو پروپیگنڈا بنا کر اصل غبن چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ طریقہ کار ان افراد پر ضرور اثر انداز ہوگا جو سیاسی منافرت میں اپنی بقاء جانتے ہیں۔ کسی بھی ذی شعور اور حجت پسند انسان کے لیے اصل دلائل پر کم سے کم ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔

۱۹۔ یہ دلیل کہ باہر سے کچھ لایا ہی ہے لے کر نہیں گیا ابھینندن اور دیگر تمام جاسوسوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ وہ بھی بیرونی پیسہ اندر لا کر ملک کو زک پہنچاتے ہیں۔ لہذا ایک بار پھر عرض ہے، منجی نہیں دینی نہ دیجیے، بس ترتیب درست رکھیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۲۰۔ آخری نکتہ، نواز شریف کو ایک ایسے اقامے پر نااہل قرار دیا گیا تھا جس کی تنخواہ بینک اکاؤنٹ میں آنا ثابت نہ تھا۔ اس فیصلے کی بنیاد ذاتی اثاثہ جات ظاہر نہ کرنا تھا۔ اثاثہ زبردستی ایسی تنخواہ کو قرار دیا گیا جو آج تک نواز شریف کے اکاؤنٹ میں نہیں آئی۔ جواز اسی بیان حلفی کی خلاف ورزی قرار دی گئی۔ آج ایک اور بیان حلفی سامنے ہے۔ ممکن ہے آپ انگریزی میں شیکسپئیر ہوں تو حلف کو oath کہنے سے انکاری ہوجائیں۔ میرا سوال نعرے باز سیاسی مقلدین سے نہیں، ان انسانوں سے ہے جو اپنے تعصب سے آگے نکل کر دلیل کو بنیاد بناتے زندگی جیتے ہیں۔ یقیناً ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انصاف کے الگ الگ پیمانے کب تک چلیں گے؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply