• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عائشہ گلالئی کے الزامات،کہانی یوں بھی دیکھتے ہیں

عائشہ گلالئی کے الزامات،کہانی یوں بھی دیکھتے ہیں

عائشہ گلالئی کے الزامات،کہانی یوں بھی دیکھتے ہیں
طاہر یاسین طاہر
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
غالب ہر عہد کا شاعر ہے،بڑا شاعر فلسفی کی طرح اپنے بعد آنے والے زمانوں کے لیے اپنی فکر کی کان سےگوہر نایاب دان کر جاتا ہے۔غالب کا یہ شعر ہزاروں موقع پہ لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں اور دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔تماشا ہی ایسا ہے کہ ہمیں بھی اسی شعر کا سہارا لینا ہوگا۔ سماجی حرکیات اور سیاسی رمزیات پہ نظر رکھنے والوں کا یہ فرض ہے کہ سماج میں ابہام پیدا کرنے والے کرداروں اور بیانیوں کی تہہ تک جا کر سماجی ہیجان میں کمی لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہی ایک اخبار نویس کی ذمہ داری ہے۔اگرچہ اخبار نویس سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور بسا اوقات نہایت سنگین۔ہمارے ہاں المیہ یہ بھی ہے کہ ہر معاملے کو سازش کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے،یا پھریہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت،عدلیہ، میڈیا ابھی سن بلوغت میں ہیں۔بڑے ہوں گے تو خود بخود سنبھل جائیں گے۔
1998 میں نون لیگ نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو جیسی خواتین کی کردار کشی کے لیے باقاعدہ مہم چلائی۔ وہ ہماری سیاسی تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔اس وقت نون لیگ کے میڈیا سیل کے سرکردہ صحافی بعد ازاں انعام و اکرام اور حکومتی عہدوں سے نوازے گئے۔جہاں دلیل ختم ہوتی ہےوہاں سے گالی و الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔عدم برداشت ہمارے سماج کا جزولاینفک ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ ہمیشہ سیاسی مخالفین کے ماضی کے قصوں کو ہی سیاسی مہم کا حصہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ عمران خان کے ماضی کے بارے سب جانتے ہیں۔وہ کیا تھے؟ مگر وہ اب کیا ہیں؟اور کیا کرنا چاہتے ہیں؟اصل موضوع یہ ہے اور یہی زیر بحث بھی ہے۔
ہاں جس نئے پاکستان کی بنیاد کی وہ بات کرتے ہیں، اس سے ان کی مراد طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ،صحت و تعلیم اور، روزگار کی تمام شہریوں کے لیے یکساں سہولیات و موروثی سیاست کا خاتمہ ہی ہے۔کرپشن کے خلاف انھوں نے جس طرح آواز بلند کی وہ لائق تحسین ہے۔مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تسلسل سے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کا انھوں نے نہ کبھی نوٹس لیا،نہ کبھی بات کی۔عمران خان نے خود کہا کہ جاوید ہاشمی پارٹی ٹکٹ کے پیسے وصول کرتے تھے، سوال یہ ہے کہ انھیں اس وقت کوئی شوز کاز کیا عمران خان نے؟شاہد خاقان عباسی جو نو منتخب وزیر اعظم ہیں ان کے خلاف بھی پی ٹی آئی کوئی ریفرنس تیار کیے بیٹھی ہے، مگر نذر گوندل اور فردوس عاشق اعوان کو پارٹی میں لینے سے پہلے ان کی کرپشن کہانیوں کو کس ضمیر کے ساتھ نظر انداز کیا؟
عمران خان میں ذاتی خوبیاں ضرور ہوں گی۔مگر لیڈر کی اولین خوبیوں میں سے یہ بھی ہیں کہ وہ بہادر ہو،اچھے اخلاق اور کردار کا مالک ہو،نرگسیت کا شکار نہ ہو،انا کا قیدی نہ ہو۔ٹیریان سکینڈل سمیت کئی ایک جنسی سکینڈلز ایک داستانِ دل سوز ہے۔عائشہ گلالئی پی ٹی آئی کی ایم این اےہیں مخصوص نشست پہ۔میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جو جلسہ یوم تشکر کے نام سے کیا، اس میں وہ سٹیج پہ جلوہ افروز تھیں۔اس سے غالباً اگلے دن وہ ایک وفد کے ساتھ بنی گالہ میں عمران خان سے ملیں،مبینہ طور پہ وہ چاہتی تھیں کہ انھیں حلقہ این اے 1 سے ٹکٹ کی یقین دھانی کرائی جائے مگر عمران نے ایسی کوئی یقین دھانی نہیں کرائی بلکہ مذکورہ حلقہ سے ٹکٹ دینے سے انکار بھی کیا۔عائشہ گلالئی نے ردعمل میں پی ٹی آئی یوں چھوڑی کہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے نام ایک پوری چارج شیٹ سنا دی۔ ان کی پریس کانفرنس میں الزامات کی تکرار تھی۔انھوں نے کہا کہ عمران خان بد کردار آدمی ہیں اور انھوں نے پی ٹی آئی کی خواتین کو کہہ رکھا ہے وہ بلیک بیری موبائل فون لیں، کہ اس کے پیغامات ٹریس نہیں ہوتے، عائشہ گلالئی نے یہ بھی کہا کہ مجھے پہلا ایس ایم ایس 2013 کو ملا،سوال مگر یہ ہے کہ وہ چار سال تک خاموش کیوں رہیں؟ اور مسلسل ایس ایم ایس کیوں وصول کرتی رہیں؟ان کی پریس کانفرنس میں ہر صحافی نے جھول محسوس کی۔ایک شخص جو ،ان کا والد بتایا جاتا ہے وہ بار بار پریس کانفرنس کے دوران میں انھیں لقمہ دیتا کہ اب یہ کہیں، اور اب یہ۔
ا س میں شک نہیں کہ گلالئی ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں، ان کے والد شمس القیوم لیکچرار تھے جو اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں،ان کی والدہ یثرب نایاب ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھیں، ان کی چھوٹی بہن ماریہ طور پاکستان میں سکوائش کھیلتی ہیں اور کافی مقبول کھلاڑی ہیں، جبکہ گلالئی کا چھوٹا بھائی ببرک خان پنجاب یونیورسٹی لاہور میں سپورٹس اینڈ فزیکل ایجوکیشن کا طالبعلم ہے۔سینئیر صحافی وبرادر عزیز سید عون شیرازی سے جب بات ہوئی تو انھوں نے اپنی سٹوری کی تائید کی اور کہا کہ ببرک خان سے ان کی فون پہ بات ہوئی ہے،اس کا کہنا تھا کہ جب اس نے گھر بات کی تو گھر کے نمبر مصروف تھے جبکہ والد نے کہا کہ ایک دو روزز ٹھہر کے بات کریں گے۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے ببرک خان کو کال کی مگر انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔سیاسی درجہ حرارت اور مفادات کا کھیل جب عروج پہ ہوتا ہے تو جوڑ توڑ بھی ہوتے ہیں۔بالخصوص جب انتخابات نزدیک ہوں تو۔ایسا ہوتا آیا ہے۔ کیا چھانگا مانگا ہارس ٹریڈنگ ہم بھول گئے؟کہا جاتا ہے کہ عائشہ گلالئی سے امیر مقام کے ساتھ رابطے تھے۔اس رابطہ کاری میں عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کا بڑا کردار ہے اور آنے والے دنوں میں عمران خان کی کردار کشی میں ریحام مرکزی کردار ہوں گی۔ریحام خان کی ایک این جی او ہے مشوم،یا ماشوم۔پشتو کے اس لفظ کے اردو معنی معصوم کے ہیں۔ یہ این جی او چھوٹے بچوں کے لیے کام کرتی ہے کے پی کے میں۔عائشہ گلالئی اس این جی او کے لیے کام کر رہی تھیں،اس پہ تحریک انصاف ناراض تھی۔عائشہ گلالئی کو اس حوالے سے شوز کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔
گلالئی نے کوشش کی کہ وہ دوبارہ سے عمران خان کی گڈ بک میں آئیں،اس مقصد کے لیے پارٹی کے سینئر رہنما اور خان کے قریبی ساتھی نعیم الحق سے رابطہ کیا گیا،نعیم الحق اور گلالئی عمران سے ملاقات سے قبل اسلام آباد میں ملے اور نعیم الحق نے گلالئی کی ملاقات خان سے کرا دی مگر گلالئی کی ڈیمانڈز پوری نہ ہوئیں، چونکہ گلالئی کے ،کے پی کے، میں نون لیگ سے بھی رابطے تھےتو اس خاتون نے دوسرا آپشن اختیار کیا۔یہ امر حیرت افروز ہے کہ آج بھی ہماری سیاسی جماعتیں کردار کشی اور الزام تراشی کی بنا پر انتخابی مہم چلاتی ہیں۔فکری بانجھ معاشرے کی یہی نشانی ہے۔شنید ہے کہ الیکشن 2018 کے لیے، کے پی کے میں امیر مقام کی زیر نگرانی ایک سیل بنایا گیا ہے،جس میں انتہائی اہم کرداد عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کا ہو گا، ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے کہ آنے والے الیکشن میں وہ عمران خان کو ٹف ٹائم دیں۔امیر مقام کے ذریعے ایک بڑی رقم بھی ریحام کو دے دی گئی ہے۔کے پی کے ، میں پی ٹی آئی کے اندر فارورڈ بلاک بنانے کے لیے بھی کوششیں تیز تر ہیں،ا ور اس مقصد کے لیے مولانا فضل الرحمان بھی دامے،درہمے ،قدمے،سخنے ساتھ ہیں۔آنے والے دنوں میں عمران خان کے کردار پر مزید سخت حملے کیے جائیں گے،کچھ مرد ایم پی ایز اور ایم این ایز، کرپشن کے الزاما ت لگا کر یا فارورڈ بلاک بنائیں گے یا الگ ہو جائیں گے۔جبکہ خواتین کے ذریعے کردار کشی کی مہم کو مہمیز کیا جائے گا۔عائشہ گلالئی کے بارے معلوم ہوا ہے کہ پریس کانفرنس کے بدلے انھیں بڑی رقم دے دی گئی ہے۔
یہ امر بالکل واضح ہے کہ جوں جوں 2018 کے انتخابات قریب آتے جائیں گے، پی ٹی آئی اپنے مزاج کے مطابق نون لیگ کا پیچھا کرے گی اور نون لیگ اپنے مزاج کے مطابق پی ٹی آئی، بالخصوص اس کے چیئرمین کی کردار کشی مہم کو تیز تر کر دے گی۔ایک معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ریحام خان کی کتاب” میں ریحام ہوں” چھپ چکی ہے اور 2018 کے انتخابات سے کچھ پہلے مارکیٹ میں آئے گی،اس کتاب کی خوب تشہیر کی جائے گی۔بات یہی ختم نہیں ہو گی بلکہ عمران خان کی کچھ ای میلز اور کچھ ویڈیوز بھی سامنے آنے والی ہیں۔ایک ویڈیو میں تو مبینہ طور پہ خان صاحب کوئی ممنوعہ مشروب نوش جاں فرما رہے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس کہانی کی پہلی قسط زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر سکی۔ صحافیوں کے سولات نے عائشہ گلالئی کو پریشان کر دیا تھا اور وہ ادھورے جوابات دیتے ہوئے اٹھ کے چلی گئیں تھیں۔اس کے باوجود انھوں نے جو الزامات لگائے ان کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔الزامات میں سچائی ہو تو عمران خان کو نہ صرف قوم سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ پارٹی عہدہ بھی چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اگر گلالئی کے الزامات غلط اور جھوٹ ہیں تو اس کہانی کے سارے کرداروں کو بھی قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے لیے کسی اور راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply