تربیت کا بحران۔۔محمد وقاص رشید

رکیے ! اپنے آس پاس نظر دوڑائیے۔ کیا دکھائی دیا ؟ اس منظر نامے کو کوئی عنوان دیجیے۔ میں نے جو دیا وہ پیشِ خدمت ہے۔ “تربیت کا بحران “۔
خدا نے انسان کو تخلیق کیا تو دنیا میں خیر و شر دونوں کے راستے اسکے مقابل رکھ چھوڑے اور انسان کے پاس اختیار کہ جس راہ کو چاہے اختیار کرے۔ پھر خدا نے اسی اختیار کے لیے ایک تربیتی نظام زمین پر اتارا جو کہ قلم کتاب اور لاکھ ہا پیغام رساں ہستیوں کے ذریعے مکمل ہوا اسے دینِ اسلام کہتے ہیں۔

اس تمہید سے یہ امر واضح ہوا کہ جہاں اختیار ہے وہاں تربیت ہے۔اگر اس کو آپ انسان کی تخلیق کے دائرہ کار میں دیکھیں تو خدا کی وہ اسکیم برائے انسانی تخلیق واضح تر ہو جاتی ہے جسکا ذکر ممتاز مزہبی و سماجی سکالر جنابِ غامدی کرتے ہیں۔

نکاح ایک ایسا سماجی معاہدہ ہے جس میں دو مردوزن گھر نامی ایک ادارے کے قیام کے لیے سماج کے سب سے بڑے دو مناصب پر فائض ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ان سے نئے انسان جنم لیتے ہیں جنہیں یہ والدین ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانے سے لے کر اسی اختیار کی وہی تربیت کرنے کے زمہ دار ہوتے ہیں جو اوپر بیان ہوئی۔اور یوں گھر کا ادارہ براہِ راست سماج کی بنت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ یہی خدا کی اسکیم ہے۔

کیا آپ خدا کی اس اسکیم میں شامل ہو چکے اور کیا خدا آپ کو سماج کے سب سے اہم اور بڑے ان دو مناصب پر براجمان کروا چکا تو آئیے اختیار اور تربیت کے اس آئینے میں ایک خاص موضوع سے متعلق اپنے اپنے گھر کے ادارے کو دیکھتے ہیں۔ دورِ حاضر کے والدین سے اس موضوع پر دعا زہرا پر ایک مضمون کے آخر میں، میں نے اپنے مشاہدات پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

دو بچوں کا میں باپ ہوں فیضان 15 سال اور فاطمہ 11 سال ۔ فیضان نویں جماعت میں ہے اور فاطمہ چھٹی میں ۔ مجھے دعویٰ گری سے نفرت ہے کہ اس سے تکبر جھلکتا ہے اور تکبر کا انجام ابلیس سے لے کر آدم تک عیاں۔ بہرحال زندگی میں سب سے زیادہ کوشش ان دونوں بچوں کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خدا کی اُس اسکیم سے بے بہرہ نہیں ہوں باقی راہِ کردار میں منزل نہیں ہوتی رستہ اور فقط مسافت۔

پلانٹ سے میں گھر گیا تو فاطمہ نے مجھے کہا کہ میں نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ آج اسکے لہجے میں کچھ پر اسراریت سی بھانپ کر میں اسے الگ کمرے میں لے آیا اور اس سے کہا جی میڈم حکم ۔۔ فاطمہ نے کہا میری فلاں دوست (نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا) کہتی ہے کہ مجھے فلاں لڑکا بہت پسند ہے۔ اور وہ لڑکا بھائی کی کلاس میں ہے۔ ظاہر ہے میں اس بات کے لیے تیار نہیں تھا لیکن میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا اچھا پھر۔۔؟ فاطمہ نے کہا ڈیڈا کلاس میں اور بھی بچیاں ہیں جو کہ کسی نہ کسی کو پسند کرتی ہیں ۔ میں نے کہا اچھا اوکے۔۔ ایک بچی نے تو ایک نویں کلاس کے بچے کو ایک چٹ بھی دی اور اس پر I love you لکھا یا پتا نہیں I like you تھا۔ وہ چٹ سی اس نے اس بچے کو دی تو اس بچے نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی میں تو تمہیں چھوٹی بہن سمجھتا ہوں۔ لیکن وہ پھر بھی اسے آتے جاتے دیکھتی ہے۔ میں نے تھوڑا سا سنجیدہ ہو کر کہا۔ اچھا تو یہ بات کرنی تھی رانو نے۔۔ٹھیک ہے ہم اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن ڈیڈا وہ سارا دن یہی باتیں ڈسکس کرتی رہتی ہیں ۔ وہ جا رہا ہے تیرے والا ۔۔وہ آ رہا ہے میرے والا ۔فضول اوورایکٹنگ کرتی ہیں۔۔میں نے ہنس کے کہا چلیں بات کریں گے بلی۔۔

شام اسکی والدہ سے میں نے پہلے سے اس ضمن میں چلتی گفت و شنید کو آگے بڑھاتے ہوئے بات کی جسکا موضوع ہے کہ سیکس ایجوکیشن سے متعلق کیا کب اور کتنا علم بچوں کو دے کر انکی عمر کے مطابق انکی ذہن سازی کرنی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ فاطمہ نے مجھے یہ سب بتاتے ہوئے پوچھا تھا کہ ڈیڈا کو بتا دوں تو میں نے کہا ضرور آپکے ڈیڈا آپکے دوست ہیں۔

میں المناک ترین زینب قتل کیس کے بعد سے اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی سماجی کاوش کے تحت بچوں کے لیے ایک سوشل میڈیا آگاہی مہم چلاتا ہوں جسکی بہت سی ویڈیوز نظموں اور چھوٹے چھوٹے پیغامات کی صورت میں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اس لیے بنیادی علم ان بچوں کے پاس پہلے سے ہے۔

مجھے اول تو یہ بڑی خوشی تھی کہ فاطمہ نے گھر آکر یہ بات ہم والدین سے شئیر کی۔ اگلے دن یہی مسرت لئے فاطمہ سے میں نے کہا بچے آپکو پتا ہے ناں ہم گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ یہ یاد رکھتے ہیں کہ آپ نے محض مجھے خوش کرنے کے لیے یا یوں کہہ لیں کہ صرف وہ بات نہیں کرنی جسے آپ کو لگے کہ میں یہ سننا چاہتا ہوں یا ایسا کہنے سے آپ کا امیج اچھا بنے گا۔ آپ سچائی پر ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں امیج خود بخود بن جاتا ہے اور اگر کبھی بھی کوئی غلطی ہو جائے تو محض امیج میکنگ کے لیے ایکسکیوزز نہیں گھڑے جاتے ،سیدھا سیدھا یہ کہا جاتا ہے کہ ہاں میں غلطی پر ہوں۔ ہم ہمیشہ یہ یاد رکھتے ہیں کہ جو دل کی بات ہوتی ہے وہ زبان پر آنی چاہیے کیونکہ خدا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس نے کہا جی بالکل۔ تو میں نے فاطمہ سے یہ پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کوئی لڑکا اچھا لگتا ہے اس نے کہا ہر گز نہیں ۔ میں نے پوچھا کیوں؟۔ میں بچوں سے کوئی استفسار کرتے انکی آنکھوں میں جھانکتا ہوں اپنی آنکھیں انکے چہروں پر مرکوز کرتا ہوں اور انکے لہجوں کی قطعیت کو دل کے کانوں سے سنتا ہوں تو خدا کا شکر کہ بے یقینی کی کیفیت سے دو چار نہیں ہوتا۔

فاطمہ نے کہا کیونکہ آپ نے ہمیں سمجھا رکھا ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور ابھی ہم لوگ چھوٹے ہیں۔ میں نے کہا شاباش۔۔لیکن میں آپ سے آج کچھ مزید شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ بچے آپ یہ دیکھیں کہ آپکی کلاس کی بچیوں نے اپنی معصومیت کھو دی ہے کیسے بھلا ؟۔۔وہ ایسے کہ جس وقت میں آپ اور آپ کی دوسری سہیلیاں اپنے بچپن کی معصومیت کو انجوائے کر رہی ہیں انہوں نے خود پر ایک فرسٹریشن طاری کر لی ہوئی ہے۔ اسکا انجام کیا ہو سکتا ہے پتا ہے بیٹی ۔۔۔؟ دعا زہرہ ۔
بچے ایک مشہور کہاوت ہے کہ عقلمند وہ ہے جو دوسروں سے سیکھتا ہے۔ دعا زہرہ کا نام میں کسی نفرت سے نہیں لیتا بیٹی ہے وہ ہماری لیکن اسکا نام میں آپکے سامنے اس لیے لیتا ہوں کہ آپ سیکھیں عبرت حاصل کریں۔ کاش کہ میں یہ بات آپکی سہیلیوں کو بتا سکتا کہ دعا زہرہ اور اسکے مبینہ شوہر نے محبت کے نام پر فطرت کے بنیادی قانون کو چیلنج کیا۔ اور فطرت کے قانون سے کوئی نہیں لڑ سکتا مثلاً رانی بیٹی میں آپ کو سمجھاؤں کہ ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے یا سوشل میڈیا پر یا سکول میں اس عمر میں کسی کا اچھا لگنا اس لیے غیر موزوں ہے کہ ابھی تو آپ زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے مجھ سے یا اپنی ماما سے مشورہ کرتی ہیں چہ جائے کہ زندگی بھر کے لیے کسی کو اپنا ہمسفر بنانے کے لیے کوئی فیصلہ کیا جائے۔

اسی لیے میں نے آپ سے اور بھائی سے یہ کہہ رکھا ہے کہ آپ موبائل فون ، ٹی وی اور کارٹونز وغیرہ میں اپنی عمر کی مناسبت سے چیزیں دیکھیں گے ۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ علم دماغ کی مشق ہوتی ہے۔ جسطرح آپکے بازوؤں کے مسلز ابھی فرض کریں دس کلو تک وزن اٹھا سکتے ہیں اسی طرح دماغ کے خلیے بھی ہر عمر کے ساتھ اسکی مطابقت رکھتا معلومات کا بوجھ ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ جسطرح بازو پر زیادہ بوجھ بڑھانے سے مسلز کو نقصان پہنچ سکتا ہے اسی طرح دماغ پر زیادہ بار معصوم ذہنوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور جو آپ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ فرسٹریشن کیا ہوتا ہے ۔ یہی ہوتا ہے جو آپکی کلاس فیلوز کر رہی ہیں ۔

زندگی کا سفر کیا ہوتا ہے آپ دیکھ لیں مجھے اور اپنی والدہ کو ، چاچا اور آنہ کو ،بابا اور بابی یا اپنے ماموں ممانی وغیرہ۔ ہم سب کی سب سے بڑی ترجیح آپ ہیں آپ کی نیند آپکا کھانا آپکے کپڑے آپکے کھلونے آپکی تعلیم اور آپکے فیشن وغیرہ ( یہ کہتے ہوئے میں نے ذرا طنزاً بھنویں اچکائیں اور مسکرایا تاکہ فاطمہ بیٹی کو تھوڑا لائیٹ کر سکوں اور اس نے ہنس کر مجھے ہاتھ سے مارنے کا اشارہ کیا )۔۔۔اب کیا یہ سب کچھ دعا زہرہ یا اسکا وہ مبینہ شوہر کر سکتا ہے ۔ فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا تو میں نے کہا یہ بات۔۔
زندگی میں جب ہم کسی چیز کو سیکھے بغیر علمیت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ بچے محبت ہو یا نفرت دونوں سیکھنے کی چیزیں ہیں۔ کچھ محبتیں خدا نے سرشت میں رکھی ہوتی ہیں جیسے خونی رشتوں کی محبت۔ جنہیں سیکھنا نہیں پڑتا لیکن کچھ محبتیں سیکھنی پڑتی ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو وہ شعور دوں گا وہ عملیت پسندی اور وہ معیار کہ جن کو بروئے کار لا کر آپ اگر چاہیں تو فطرت کے قائم کردہ وقت پر اپنے لیے زندگی کی ڈگر کا انتخاب کر سکیں۔ بیٹی انشاللہ میں آپ کو اس قابل بناؤں گا کہ آپ اپنی زندگی خود جی سکیں۔ میری مصنوعی انا آپکے قدرتی جزبوں کے رستے میں نہیں آئے گی بیٹی ۔

ابھی آپ کے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں میں آپ کو اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین دلاتا ہوں کہ یہ معصومیت بھرا بچپن ایک بار چلا جائے گا تو زندگی کی سب سے بڑی یاد بن جائے گا ایک حسرت جو ساری زندگی ساتھ رہے گی۔ اسکا کتھارسس سامنے بیٹھی کسی آپ جیسی تتلی کے پروں میں چمکتے رنگوں سے ہو گا۔۔۔۔ باقی باتیں پھر کبھی ۔۔۔ابھی پر پھیلائیں اور بچپن کے گلستان میں اڑتی پھریں۔۔۔۔آپ کے پر پیامِ بہار ہیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان باتوں کے تناظر میں ،میں نے اپنے بیٹے فیضان سے ایک علیحدہ سیشن کیا جسکی کچھ ہوش ربا تفاصیل اس عمر کے بچوں کے والدین کے لیے اگلے مضمون میں پیش کروں گا کہ میں خدا کے حضور اپنی تو نہیں لیکن شاید کاغذ کی سیاہ پیشانی پیش کر کے اسکا رحم طلب کر پاؤں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply